Sunday, July 26, 2015

Environmental balance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عدل و اعتدال
ماحول اور تحفظ ماحول کی بات کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسے عدل و اعتدال (توازن) برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں جملہ ’ہم زمین‘ حیات کے وجود کو صرف برداشت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ طرز معاشرت سیکھا جائے۔ یہی وہ موضوع ہے جو انسان سے انسان کی طرح جانوروں اور پرندوں کے تعلق کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ پرانے دور میں جانوروں اور پرندوں سے استفادہ بار برداری‘ سواری‘ رکھوالی‘ شکار میں مدد‘ خوراک کے حصول جیسے اہم مقاصد کے لئے کیا جاتا مگر ہر دور میں انہیں شوقین مزاجی کے لئے پالا بھی جاتا رہا ہے۔ شہری علاقوں میں خاص طور پر اس قسم کے شوق کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی جانور پالنا ’فیشن کی علامت‘ بنتا جا رہا ہے۔ پشاور کے اندرون کوہاٹی گیٹ اور بٹیربازاں کی اکادکا دکانیں پرندوں سے بھری دکھائی دیتی ہیں جو اس شہر میں پلتے بڑھتے رجحان اور شوق کا آئینہ دار ہے۔

پالتو جانوروں میں گھوڑا سرفہرست ہے لیکن شہری علاقوں میں انسان کے اس سب سے پرانے دوست کی رکھوالی آسان نہیں۔ تقریباً ہر قوم اور تہذیب میں گھوڑوں کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔ عرب میں تو ہر گھوڑے کا نام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا پورا شجرہ نسب تک یاد رکھا جاتا تھا۔ پالتو جانوروں میں دوسرا نمبر ’کتے‘ کا ہے جو رکھوالی کے ساتھ مغربی ممالک کی طرح سرآنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں کتا معیوب جانور سمجھا جاتا تھا لیکن انٹرنیٹ پر تلاش کیجئے ایک ایک کتے کی قیمت لاکھوں میں مقرر کرنے والے اور خریداروں کے ہجوم میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے گی۔ ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ کے لئے تو کتا ایک بہترین تحفہ بھی ہے اور چند ایک سیاست دان تو کتا بطور تحفہ وصول کرنے پر ذرائع ابلاغ کی زینت بھی بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کتوں کی جو نسلیں گھر میں رکھنے کے لئے زیادہ عام ہیں ان میں لیبراڈور‘ جرمن شیفرڈ‘ بیلجیئم شیفرڈ‘ روٹ ویلر‘ رشین اور پوائنٹر لیکن ایسی اچھی نسل کے کسی کتے کا ملنا آسان اور سستا نہیں۔ گھریلو پالتو جانوروں میں تیسرے نمبر پر ’بلی‘ آتی ہے جنہیں پسند کرنے کی ایک وجہ ان کی خود کو صاف رکھنے کی عادت ہے۔ یہ روزانہ اپنی زبان سے اپنے پنجوں اور جسم کے مختلف حصوں کو صاف کرتی رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ شیر کی خالہ (بلی) کی قیمت پانچ ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے اور ان کی ماہانہ (درآمدی) خوراک بھی سستی نہیں جس پر ایک ہزار سے تین ہزار روپے کم از کم خرچ ہو سکتے ہیں!

ایک وقت میں طوطا پشاوریوں کے رہن سہن کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ہر گھر اور کندھے پر ایک طوطا کچھ نہ کچھ بولتا نظر آتا لیکن اب سبز کے علاؤہ پیلے‘ سفید‘ نیلے اور مختلف دیگر رنگوں کے طوطے کوہاٹی گیٹ سے باآسانی مل جاتے ہیں جن کی قیمت ہزاروں روپے میں سن کر قطعی اوسان خطا نہ کیجئے گا کیونکہ طوطوں کی نسلیں درآمد کی جاتی ہیں۔ طوطے کی قیمت چند سو روپے سے دو لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔ مکاؤ‘ کوکیٹو اور گرے پیرٹ نایاب نسلیں بھی ہیں جنہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اگر ہم پالتو جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے فہرست مرتب کریں تو طوطا سرفہرست ہوگا کیونکہ یہ ہرقسم کی پھل‘ سبزی کھا سکتا ہے اور کسی گھر کی عادات کے مطابق اپنی خوراک کی عادات ڈھال لیتا ہے۔ آپ اسے اناج و سبزی روٹی یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا تھما سکتے ہیں یقین جانئے یہ کسی بھی کھانے کی چیز کو کترنے میں بالکل انکار نہیں کرے گا۔ البتہ اس کا مزاج تھوڑا سخت کرخت اور بے وفا مشہور ہے کہ جب بھی اسے موقع ملتا ہے یہ اپنی فطرت کے مطابق اُڑ جاتا ہے!

یاد رکھیں کہ پالتو پرندے ہوں یا کوئی بھی جانور‘ ان کی طبیعت بے حد حساس ہوتی ہے۔ ان کا خیال چھوٹے بچوں کی طرح کرنا پڑتا ہے۔ انہیں زیادہ دیکھ بھال کی تو ضرورت نہیں ہوتی لیکن گھر میں رہتے ہوئے وہ خطرات کا ازخود مقابلہ نہیں کرسکتے اِس لئے آپ کو اُن کا ضامن بننا ہوتا ہے۔ جانور شور شرابے‘ تیز موسیقی‘ سگریٹ کے دھوئیں‘ کاربونیٹیڈ مشروبات‘ چائے‘ قہوہ یا دیگر نشہ آور مشروبات لینے کے عادی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ جب انہیں گھروں میں اِس قسم کی خوراک دی جاتی ہے تو وہ عمومی خوراک کھانا ترک کر دیتے ہیں۔ بچوں کو پرندوں کی دیکھ بھال سکھا کر انہیں صحت مند تفریح اور ماحول دوستی کی عملی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ وہ کرہ ارض اور ماحول سے محبت کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح بچے شرارتیں کرکے آپ کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں اسی طرح پالتو جانور بھی آپ کی بہت سی پریشانیوں کا ایک ایسا علاج ثابت ہوسکتے ہیں‘ جس کے کوئی (مضر) سائیڈ ایفکیٹ نہیں ہوتے۔

No comments:

Post a Comment