ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سبق آموز آفات
سبق آموز آفات
خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کے رہنے والے کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ گذشتہ
دس برس کے دوران موسم کا یہ بدترین برتاؤ ہے جس سے پرسکون دریاؤں‘ چشموں
اور دیگر آبی گزرگاہوں میں طوفان برپا ہے۔ چترال کی جنت نظیر وادیاں کہ
جہاں کبھی پرسکون خاموشی ہوا کرتی تھی‘ موت کی وادی بن چکی ہے اور یہ سب
کچھ کیا دھرا ’قدرت‘ کا نہیں بلکہ جن چھبیس دیہات کے ساٹھ ہزار سے زائد
افراد اپنی جان بچانے کے لئے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں‘ اُن کی زحمت اور
نقصانات کا سبب انسانی ہے اور یہی بات اگر ہم نے سمجھ لی تو نہ صرف مستقبل
میں مزید ایسے طوفانوں سے بچ سکیں گے بلکہ میدانی علاقوں میں سیلابی ریلوں
سے ہوئی تباہی سے بچاؤ بھی ممکن ہو سکے گا۔
چترال کی وادیاں ایک عرصے تک دریا کے کنارے پگڈنڈیوں سے جڑی ہوئی تھیں جن پر مسافت کرنے والے گدھے یا خچروں پر لدے ہوئے سامان کے ساتھ گاؤں گاؤں جا کر چائے‘ نمک و دیگر ضروریات فروخت کیا کرتے تھے۔ یہاں کی معیشت نوے فیصد سے زائد زراعت پر منحصر تھی۔ جس میں پالتو جانور مال مویشیوں کی انسانوں کی طرح یکساں اہمیت تھی۔ یہاں کے رہنے والوں کو درختوں کی قدر ہوا کرتی تھی اور انہیں مقدس سمجھ کر اُن کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن پھر چترال کی ثقافت اور بودوباش میں تبدیلیاں آئیں اور درختوں کی شاخ تراشی کی بجائے اُنہیں کاٹ ڈالنے اور راتوں رات امیر بننے کی دھن ہر سر پر سوار ہو گئی۔ جنگلات کو ہر کسی نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق نقصان پہنچایا یعنی کسی نے کم اور کسی نے زیادہ۔ کسی نے درخت کاٹ کر اور کسی نے خاموشی اختیار کر کے! چترال میں دیگر اضلاع سے سرکاری ملازمین تعینات کئے گئے جن کی فیصلہ سازی میں اُن کے پیش نظر چترال کی محبت یا مفادات نہیں تھے۔ سیاسی جماعتیں بھی مختلف ادوار میں چترال کے اُنہی افراد کو منتخب کرتی رہیں جن کے پاس مالی وسائل تھے اور وہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ چترال کے جنگلات کی تقسیم اور اس قومی وراثت کے ذاتی اثاثوں میں تبدیل ہونے سے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ اگر درخت کاٹے جا رہے ہیں تو ان کے متبادل کے طور پر مزید درخت لگائے جائیں۔ چترال کی زرعی معیشت میں چرواہوں کا بھی کلیدی کردار ہوا کرتا تھا جو بکریاں لے کر دور پہاڑوں گھاٹیوں اور وادیوں میں گھومتے رہتے تھے اور اپنے ساتھ واپسی پر ایسی جڑی بوٹیاں لایا کرتے جن میں پیچیدہ امراض کا شافی علاج ہوتا۔ یہ روایت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور بکری بانی پر انحصار کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جب درخت کٹ رہے تھے تو سورج کی روشنی اور بارش کا پانی براہ راست زمین پر برسنے لگا۔ تیز ہواؤں نے زمین کے کٹاؤ کو مزید آسان بنادیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سیاحت کے لئے جب کبھی بھی چترال جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں کے قدرتی وسائل کی شکست و ریخت دیکھ کر حیرت ہوتی کہ حکومتی محکمے کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں سے دریاؤں میں آئی طغیانی کا بڑا سبب یہی ہے کہ پہاڑوں سے درخت ختم ہو چکے ہیں اور وہاں کی مٹی بہہ کر وادیوں میں جمع ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بارش آئی تو اس کا پانی پوری رفتار کے ساتھ وادیوں میں نئے راستے بناتا چلا گیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چترال کی ضلعی انتظامیہ نے فی گھرانہ تین بکریوں سے زائد رکھنے پر پابندی کیوں عائد کی جبکہ وہاں کی معیشت اور طرزمعاشرت میں زراعت کا ایک کلیدی کردار رہا ہے جسے برقرار رکھنے یا زیادہ منافع بخش بنانے کی بجائے اس میں بتدریج کمی کی جاتی رہی۔ کیا یہ چترال سے کھلی دشمنی نہیں تھی کہ وہاں کے ماحولیاتی تنوع کی نہ تو حفاظت کی گئی اور نہ ہی ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اُن کثیرالمنزلہ ہوٹلوں کی تعمیرات پر پابندی لگائی گئی جن کی وجہ سے جنگلات پر دباؤ بڑھا۔ قدرتی وسائل پر غیرضروری بوجھ بڑھا اور پیسہ کمانے کی لالچ میں چترال کی خوبصورتی کو ایک ایک کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا!
عالمی سطح پر کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھنے کا منفی اثر بھی چترال پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وادیوں کا درجۂ حرارت بڑھنے کی خبریں ایک عرصے سے شائع ہو رہی تھیں اور سیاح بھی یہ بات بتا رہے تھے کہ گذشتہ ماہ و سال کے مقابلے چترال کی آب و ہوا گرم ہو رہی ہے لیکن اس بارے حکومتی اداروں کی خاموشی برقرار رہی۔ فی الوقت چترال کے موجودہ جنگلات اور سرسبز وادیوں میں سے جو کچھ بھی باقی بچا ہے اُسے بچانے کی ضرورت ہے۔ علاؤہ ازیں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چترال میں آئے سیلاب کے معلوم محرکات کی گہرائی اور اثرات کے بارے کوئی حکمت عملی طے کی جاسکے۔ جب تک ہم تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ سیلاب جیسی آفت کا راستہ روکنے کی کوئی دوسری صورت نہیں۔
چترال سے آمدہ اطلاعات کے مطابق متاثرین کے لئے امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کا حجم بڑھانے کے ساتھ سیاسی امتیازات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ دور دراز وادیوں میں رہنے والوں کے مقابلے میدانی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ امداد تقسیم کی جارہی ہے جس کی منصفانہ تقسیم سے موجودہ بحرانی صورتحال کی شدت میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
چترال کی وادیاں ایک عرصے تک دریا کے کنارے پگڈنڈیوں سے جڑی ہوئی تھیں جن پر مسافت کرنے والے گدھے یا خچروں پر لدے ہوئے سامان کے ساتھ گاؤں گاؤں جا کر چائے‘ نمک و دیگر ضروریات فروخت کیا کرتے تھے۔ یہاں کی معیشت نوے فیصد سے زائد زراعت پر منحصر تھی۔ جس میں پالتو جانور مال مویشیوں کی انسانوں کی طرح یکساں اہمیت تھی۔ یہاں کے رہنے والوں کو درختوں کی قدر ہوا کرتی تھی اور انہیں مقدس سمجھ کر اُن کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن پھر چترال کی ثقافت اور بودوباش میں تبدیلیاں آئیں اور درختوں کی شاخ تراشی کی بجائے اُنہیں کاٹ ڈالنے اور راتوں رات امیر بننے کی دھن ہر سر پر سوار ہو گئی۔ جنگلات کو ہر کسی نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق نقصان پہنچایا یعنی کسی نے کم اور کسی نے زیادہ۔ کسی نے درخت کاٹ کر اور کسی نے خاموشی اختیار کر کے! چترال میں دیگر اضلاع سے سرکاری ملازمین تعینات کئے گئے جن کی فیصلہ سازی میں اُن کے پیش نظر چترال کی محبت یا مفادات نہیں تھے۔ سیاسی جماعتیں بھی مختلف ادوار میں چترال کے اُنہی افراد کو منتخب کرتی رہیں جن کے پاس مالی وسائل تھے اور وہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ چترال کے جنگلات کی تقسیم اور اس قومی وراثت کے ذاتی اثاثوں میں تبدیل ہونے سے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ اگر درخت کاٹے جا رہے ہیں تو ان کے متبادل کے طور پر مزید درخت لگائے جائیں۔ چترال کی زرعی معیشت میں چرواہوں کا بھی کلیدی کردار ہوا کرتا تھا جو بکریاں لے کر دور پہاڑوں گھاٹیوں اور وادیوں میں گھومتے رہتے تھے اور اپنے ساتھ واپسی پر ایسی جڑی بوٹیاں لایا کرتے جن میں پیچیدہ امراض کا شافی علاج ہوتا۔ یہ روایت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور بکری بانی پر انحصار کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جب درخت کٹ رہے تھے تو سورج کی روشنی اور بارش کا پانی براہ راست زمین پر برسنے لگا۔ تیز ہواؤں نے زمین کے کٹاؤ کو مزید آسان بنادیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سیاحت کے لئے جب کبھی بھی چترال جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں کے قدرتی وسائل کی شکست و ریخت دیکھ کر حیرت ہوتی کہ حکومتی محکمے کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں سے دریاؤں میں آئی طغیانی کا بڑا سبب یہی ہے کہ پہاڑوں سے درخت ختم ہو چکے ہیں اور وہاں کی مٹی بہہ کر وادیوں میں جمع ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بارش آئی تو اس کا پانی پوری رفتار کے ساتھ وادیوں میں نئے راستے بناتا چلا گیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چترال کی ضلعی انتظامیہ نے فی گھرانہ تین بکریوں سے زائد رکھنے پر پابندی کیوں عائد کی جبکہ وہاں کی معیشت اور طرزمعاشرت میں زراعت کا ایک کلیدی کردار رہا ہے جسے برقرار رکھنے یا زیادہ منافع بخش بنانے کی بجائے اس میں بتدریج کمی کی جاتی رہی۔ کیا یہ چترال سے کھلی دشمنی نہیں تھی کہ وہاں کے ماحولیاتی تنوع کی نہ تو حفاظت کی گئی اور نہ ہی ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اُن کثیرالمنزلہ ہوٹلوں کی تعمیرات پر پابندی لگائی گئی جن کی وجہ سے جنگلات پر دباؤ بڑھا۔ قدرتی وسائل پر غیرضروری بوجھ بڑھا اور پیسہ کمانے کی لالچ میں چترال کی خوبصورتی کو ایک ایک کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا!
عالمی سطح پر کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھنے کا منفی اثر بھی چترال پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وادیوں کا درجۂ حرارت بڑھنے کی خبریں ایک عرصے سے شائع ہو رہی تھیں اور سیاح بھی یہ بات بتا رہے تھے کہ گذشتہ ماہ و سال کے مقابلے چترال کی آب و ہوا گرم ہو رہی ہے لیکن اس بارے حکومتی اداروں کی خاموشی برقرار رہی۔ فی الوقت چترال کے موجودہ جنگلات اور سرسبز وادیوں میں سے جو کچھ بھی باقی بچا ہے اُسے بچانے کی ضرورت ہے۔ علاؤہ ازیں تحقیق میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چترال میں آئے سیلاب کے معلوم محرکات کی گہرائی اور اثرات کے بارے کوئی حکمت عملی طے کی جاسکے۔ جب تک ہم تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ سیلاب جیسی آفت کا راستہ روکنے کی کوئی دوسری صورت نہیں۔
چترال سے آمدہ اطلاعات کے مطابق متاثرین کے لئے امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کا حجم بڑھانے کے ساتھ سیاسی امتیازات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ دور دراز وادیوں میں رہنے والوں کے مقابلے میدانی علاقوں میں ضرورت سے زیادہ امداد تقسیم کی جارہی ہے جس کی منصفانہ تقسیم سے موجودہ بحرانی صورتحال کی شدت میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment