ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نئی زمین‘ پرانی زمین
نئی زمین‘ پرانی زمین
امریکہ کے خلائی ادارے کی تحقیق منظرعام پر آنے سے ایک ہفتہ قبل (سترہ
جولائی) کے روز عالمی سطح پر ماحولیاتی تنوع کا ایک جائزہ پیش کیا گیا جس
کے مطابق انسان نے اپنی بقاء کے لئے کرۂ ارض کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ گذشتہ
تین عشروں کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں
70کروڑ کی غیرمعمولی کمی آئی ہے جبکہ اس عرصے میں دنیا کی آبادی میں دو
کروڑ افراد کا اضافہ بھی ہوا لیکن یہ ترقی قدرت کے بنائے ہوئے نظام کو بگاڑ
کر حاصل کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ دباؤ جنگلات پر دیکھا گیا‘ جس کا رقبہ
گذشتہ تین دہائیوں میں اِس تیزی سے کم ہوا ہے کہ اِس کی مثال ماضی میں نہیں
ملتی۔ دانشمندی یہ تھی کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جاتا لیکن گذشتہ
پندرہ برس میں دنیا بھر میں مجموعی طورپر پر 23لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے
جنگلات کاٹے گئے۔ زیر آب مخلوقات کا اپنی ضروریات سے 90فیصد زیادہ شکار کیا
گیا۔ سمندروں کا پانی آلودہ کیا گیا۔ اس عرصے میں یہ بھی ہوا کہ دنیا بھر
میں دریاؤں کا ساٹھ فیصد پانی کم ہوا۔ ’مضر ماحول گرین ہاؤس گیسیز (کاربن
ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین اُور نائٹروس آکسائیڈ) کے اخراج سے ہوا کثیف ہو چکی
ہے اور اگر اکیسویں صدی میں جبکہ علوم قدرے ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے
ہیں لیکن اِن علوم کی روشنی میں حکومتی ترجیحات مرتب نہیں کی جاتیں تو اِس
کے زیادہ مضر اثرات آنے والے چند برس میں زیادہ شدت سے دیکھنے میں آئیں
گے۔
چترال کی مثال لیں جہاں تین لاکھ خاندان مون سون بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں لیکن صرف موسلادھار مون سون بارشیں ہی اِس تباہی کے لئے ذمہ دار نہیں بلکہ جس تیزی سے برفانی تودوں کا حجم کم ہو رہا ہے اُس سے دریاؤں میں طغیانی آئی۔ نقصانات کے ابتدائی تخمینہ جات کے مطابق مستوج میں ساٹھ ہزار جبکہ کیلاش کی وادیوں میں پچیس ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ضلع چترال کے دیگر حصوں بونی اُور گرم چشمہ میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا حکومت نے ’ہنگامی حالت‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور رابطہ شاہراؤں کی بحالی اور امداد کاروائیوں کے لئے فوری طور پر چودہ کروڑ روپے مہیا کئے ہیں۔ ہمارے حکومتی ادارے کسی آفت کے موقع پر سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کا سبب ’قدرت‘ کو قرار دیتے ہیں یعنی ’قدرتی آفت‘ حالانکہ قدرت کبھی بھی آفات نازل نہیں کرتی۔ یہ ہماری اپنی غلط حکمت عملیوں کا کیا دھرا ہے جو آفات کی صورت نازل ہوتا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اس بات میں زیادہ تسکین ملتی ہے کہ وہ تباہ حالوں کے لئے کروڑوں روپے بطور امداد خرچ کریں جس کا کوئی حساب کتاب (آڈٹ) نہ ہو!
قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن و تنوع کے بارے میں جس طرح کی ہماری سوچ اور عمل ہے‘ اُنہیں دیکھتے ہوئے ہمیں بہت جلد ایک نئی زمین کی ضرورت پڑے گی کیونکہ موسلادھار بارشیں ہوں یا برفانی تودے پگلنے کا تیزرفتار عمل‘ دونوں کی وجہ سے قابل کاشت و زرخیز زرعی اثاثوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چترال کی وادی میں زراعت اور مال مویشیوں کے نقصانات کا اندازہ ابھی نہیں لگایا گیا اور اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ زراعت کا ذیلی شعبہ ’ایگری کلچر انفارمیشن‘ اِس سلسلے میں تحقیق کرکے جلد حقائق نامہ مرتب کرے گا۔ ابھی ہم جولائی 2010ء میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں کو نہیں بھولے تھے کہ دوہزار پندرہ کی اُنہی تاریخوں نے ہمیں آلیا۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں اور اُن کوتاہیوں کا شمار کرنے کے قابل ہو جائیں تو ماحولیاتی توازن پھر سے بحال کرنا اب بھی ممکن ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ ہم خلاؤں میں نئی زمین تلاش کرنے کی بجائے اپنے پاؤں تلے موجود وسائل اور اپنی ضروریات و ترقی کو ماحول دوست بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔
چترال کی مثال لیں جہاں تین لاکھ خاندان مون سون بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں لیکن صرف موسلادھار مون سون بارشیں ہی اِس تباہی کے لئے ذمہ دار نہیں بلکہ جس تیزی سے برفانی تودوں کا حجم کم ہو رہا ہے اُس سے دریاؤں میں طغیانی آئی۔ نقصانات کے ابتدائی تخمینہ جات کے مطابق مستوج میں ساٹھ ہزار جبکہ کیلاش کی وادیوں میں پچیس ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ ضلع چترال کے دیگر حصوں بونی اُور گرم چشمہ میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا حکومت نے ’ہنگامی حالت‘ کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور رابطہ شاہراؤں کی بحالی اور امداد کاروائیوں کے لئے فوری طور پر چودہ کروڑ روپے مہیا کئے ہیں۔ ہمارے حکومتی ادارے کسی آفت کے موقع پر سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کا سبب ’قدرت‘ کو قرار دیتے ہیں یعنی ’قدرتی آفت‘ حالانکہ قدرت کبھی بھی آفات نازل نہیں کرتی۔ یہ ہماری اپنی غلط حکمت عملیوں کا کیا دھرا ہے جو آفات کی صورت نازل ہوتا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اس بات میں زیادہ تسکین ملتی ہے کہ وہ تباہ حالوں کے لئے کروڑوں روپے بطور امداد خرچ کریں جس کا کوئی حساب کتاب (آڈٹ) نہ ہو!
قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن و تنوع کے بارے میں جس طرح کی ہماری سوچ اور عمل ہے‘ اُنہیں دیکھتے ہوئے ہمیں بہت جلد ایک نئی زمین کی ضرورت پڑے گی کیونکہ موسلادھار بارشیں ہوں یا برفانی تودے پگلنے کا تیزرفتار عمل‘ دونوں کی وجہ سے قابل کاشت و زرخیز زرعی اثاثوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ چترال کی وادی میں زراعت اور مال مویشیوں کے نقصانات کا اندازہ ابھی نہیں لگایا گیا اور اُمید ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ زراعت کا ذیلی شعبہ ’ایگری کلچر انفارمیشن‘ اِس سلسلے میں تحقیق کرکے جلد حقائق نامہ مرتب کرے گا۔ ابھی ہم جولائی 2010ء میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں کو نہیں بھولے تھے کہ دوہزار پندرہ کی اُنہی تاریخوں نے ہمیں آلیا۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں اور اُن کوتاہیوں کا شمار کرنے کے قابل ہو جائیں تو ماحولیاتی توازن پھر سے بحال کرنا اب بھی ممکن ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ ہم خلاؤں میں نئی زمین تلاش کرنے کی بجائے اپنے پاؤں تلے موجود وسائل اور اپنی ضروریات و ترقی کو ماحول دوست بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔
No comments:
Post a Comment