Thursday, July 23, 2015

Jul2015: Understanding PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دھاندلی دھاندلی کی تکرار!
تحریک انصاف کی سیاست بارے بنیادی غلط فہمی یہی ہے کہ یہ جماعت دیگر ہم عصروں کی طرح بہرصورت اقتدار حاصل یا مالی فوائد کے لئے فیصلہ سازی میں حصہ داری چاہتی ہے۔ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ہوئی دھاندلی کے بارے میں جو ٹوٹے پھوٹے ثبوٹ اکٹھے کئے جا سکے اُنہیں کراچی سے پشاور تک سنجیدگی سے لیا گیا اور وجہ یہ نہیں تھی کہ صرف تحریک انصاف کے کارکن یا انقلابی نظریات والی اِس جماعت سے خاموش تعلق رکھنے والے ہی ’دھاندلی دھاندلی کی تکرار‘ کر رہے تھے بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی جانتی تھیں کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ’سو فیصد‘ جھوٹ نہیں! ’الیکشن کمیشن‘ سے کسی غیرجانبدار کردار ادا کرنے کی توقع کرنے والے احمقوں کی جنت نہیں بلکہ ایک ایسی دوزخ میں رہتے ہیں جہاں پورے کا پورا ’انتخابی عمل‘ اور ’طرز حکمرانی‘ استحصال‘ تعصب اور امتیازات کا مجموعہ بن چکا ہے!
پاکستان کتنا جمہوری اور یہاں کا معاشرہ اُور طرز حکمرانی کتنا اسلامی ہے اِس عمومی تاثر کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستانی جمہوریت کو برداشت کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ کس طرح عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں پورے ملک کو لسانی گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے یقیناًذات برادری کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اِس پر انحصار کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو ’حب الوطنی‘ کے جذبے سے سرشار ہو۔ جو ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کر دے۔ کھلے آسمان تلے ’ایک سو چھبیس دن‘ احتجاج کرنے کے بعد انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں بادلنخواستہ تحقیقات کرنے کے لئے ایک ’جوڈیشل (عدالتی) کمیشن‘ تشکیل دیا گیا اور پھر ایک رپورٹ وزارت قانون و انصاف کے ذریعے حکومت کو ارسال کر دی گئی اور اس بات کا حسب توقع خیال رکھاگیا کہ حکمرانوں کے ماتھے پر شکن تک نمودار نہ ہو!

سیکرٹری قانون جسٹس رضا خان نے بائیس جولائی کو سربمہر رپورٹ وصول کرکے بناء وقت ضائع کئے وزیراعظم کے دفتر کو ارسال کردی کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے سے اُن کا بس اتنا ہی تعلق (کردار) بنتا تھا! اگر تحریک انصاف عام انتخابات میں منظم دھاندلی‘ عدم شفافیت اورعوام کے مینڈیٹ کی چوری جیسے سنگین الزامات عائد کر رہی ہے تو اس بیان کو کسی ایک سیاسی جماعت کے فکروعمل کے تناظر میں محدود کر کے نہیں دیکھنا چاہئے تھا وفاقی وزارت قانون کی افسرشاہی یوں تو آئین کی محافظ بنتی ہے لیکن اِس معاملے میں تجاہل عارفانہ اختیار کر لیا گیا۔ جب بات کمزور طبقات کے حقوق کی ہو تو ہمارے ہاں سرکاری محکموں کا رویہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرکاری محکمے ملک کی بجائے حکومت کے ساتھ وفادار رہتے ہیں۔ بہرکیف سربمہر تحقیقاتی رپورٹ کے جو نکات بناء بیان منظرعام پر آئے اس کے حوالے سے حکمراں جماعت کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ’’کمیشن نے ’منظم دھاندلی‘ کے الزامات مسترد کر دیئے ہیں۔‘‘ مطلب یہ کہ سوئی ’منظم دھاندلی‘ پر اٹک گئی ہے گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابی مراحل میں دھاندلی تو ہوئی لیکن چونکہ یہ ’منظم‘ نہیں اِس لئے کوئی بات نہیں!

لائق تحسین تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ردعمل ہے جو ایک مرتبہ پھر جس تحمل و بردباری کے ساتھ غیرضروری احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اُس سے ’مک مکا‘ کی بو آ رہی ہے اور یہ شک پیدا ہو رہا ہے کہ پس پردہ ملاقاتوں ایسی بہت سی باریکیوں پر اتفاق کر لیا گیا ہے جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ موجودہ حکومت دو ہزار اٹھارہ تک اپنا دورانیہ پورا کرے گی! تحریک انصاف کی جانب سے تاحال باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ کمیشن کی رپورٹ وزارت کو موصول ہوئی ہے یا نہیں لیکن اگر نہیں بھی ہوئی تو انہیں اپنے وکیل کے ذریعے کمیشن سے رابطہ کرکے رپورٹ کی نقل حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اس میں بطور فریق اُن کے علاؤہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا سیاسی مستقبل وابستہ نہیں۔ تیئس جولائی کو تحریک انصاف نے سپرئم کورٹ سے رجوع کیا تاکہ اُسے رپورٹ کی کاپی (نقل) مل سکے اور قوئ اُمید ہے کہ یہ نقل سپرئم کورٹ کی مداخلت سے قبل ہی ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگ جائے گی! کیونکہ سب کی نظریں اسی پر لگی ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ تحقیقاتی کمیشن نے رواں ماہ کے آغاز پر ہی اپنی سماعت مکمل کر لی تھی تاہم رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اختتام کا انتظار کیا گیا جو اپنی جگہ ایک تاخیری حربہ تھا۔

سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئٹر (twitter) پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی‘ ترقی اور اصلاحات احسن اقبال نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’’جوڈیشل کمیشن نے حکومت کو کلیئر (clear) کردیا ہے اور تحریک انصاف کے تینوں الزامات مسترد کر دیئے گئے ہیں‘ آخرکار سچ کی فتح ہوئی۔‘‘ اگر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب پوچھا جائے تو کیا واقعی اِسے سچ کی فتح کہا جائے گا؟ وفاقی حکومت کی ترجمانی کرنے والے بیانات داغ رہے ہیں کہ ’’دھاندلی کے نام پر معیشت کے ساتھ ڈرامہ اور دھرنا کھیلا گیا۔ عمران خان کو قوم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ یہ ان کی اپنی مرضی ہے۔ تاہم ہمیں اب زیادہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تاکہ معیشت کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔‘‘ ایک لیگی رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’کمیشن کو انتخابات میں دھاندلی کے شواہد نہیں ملے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انتخابات قواعد کے مطابق ’شفاف انداز‘ میں منعقد ہوئے تھے۔‘‘

تحریک انصاف نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 3 بنیادی سوالات رکھے تھے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے جوابات کتنی وضاحت اور منطقی انداز میں دیئے گئے ہیں تاہم کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آنے سے قبل اِس کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب کا سب حقائق مسخ کرنے اور قوم کو گمراہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے اور یہ سب بظاہر ایک نئے ڈرامے (play) کا حصہ لگتا ہے۔چیف جسٹس ناصر المک کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن نے 9اپریل 2014ء سے کام کا آغاز کیا تھا اور اِس 450دن یعنی نو اپریل سے تین جولائی (ایک سال دو ماہ چوبیس دن) کے عرصے میں کمیشن نے کل 39 اجلاس منعقد کئے جن میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے 69 گواہوں نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔کمیشن کاآخری اجلاس تین جولائی کو ہوا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کو سپرد کرنا کہاں کا انصاف ہے جو اپنی ہی جماعت اور اپنی ہی حکومت کے بارے رپورٹ کا مطالعہ کریں گے۔ پھر مشاورت کریں گے اور پھر اگر اُنہیں پسند ہوا تو اسے بناء تبدیل کئے قوم کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اگر ایک آزاد کمیشن تشکیل دے دیا گیا تھا تو اس کی رپورٹ پوری قوم کے سامنے پیش ہو جانی چاہئے تھی‘ کیونکہ دھوکہ عوام سے ہوا ہے حکمرانوں سے نہیں۔ وزیراعظم کا آج شام سات بجے قوم سے خطاب متوقع ہے۔ عام آدمی کے مینڈیٹ (رائے) کا احترام اور اس کے بارے میں اٹھائے گئے شکوک و شبہات اور اعتراضات کے بارے میں مؤقف پیش کرنے کے لئے قومی وسائل اور عہدے کا اِستعمال اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں قول و فعل میں جمہوری ہونے کے لئے ابھی کڑی محنت کی ضرورت ہے!

No comments:

Post a Comment