Wednesday, July 22, 2015

Jul2015: Politics of MQM

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تماشا
متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے برطانوی حکومت سے ’تادم مرگ بھوک ہڑتال‘ کرنے کی اجازت مانگی ہے اور بقول اُن کے اگر یہ اجازت مل گئی تو وہ پہلے سے جاری انتظامات کے تحت کھانا پینا ترک کر دیں گے۔ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی یہ ’’پہلی‘‘ ایسی بھوک ہڑتال ہو گی جس کے لئے انہوں نے کسی دوسرے ملک سے اجازت طلب کی گئی ہے! دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں بالخصوص سیاسی قائدین کے تن بدن پر جس قدر تہہ در تہہ چربی پائی جاتی ہے تو اگر وہ ’تادم مرگ‘ تو کیا تاقیامت بھی کچھ نہ کھائیں تو اس سے اُن کی صحت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن عوام کی یہ خوشی دیگر بہت سی مسرتوں کی طرح عارضی ثابت ہوئی کیونکہ الطاف بھائی ماضی میں بھی ایک سے زیادہ مرتبہ ایسی ہی ہڑتالوں کا اعلان کر چکے ہیں لیکن پھر موت آنے کی نوبت نہیں آنے دی گئی!

اگر کوئی یہ جاننے کا متمنی ہو کہ ’الطاف بھائی‘ نے کب کب بھوک ہڑتال کی اور کیا وہ ماضی ہی طرح اِس مرتبہ بھی بھوک ہڑتال میں اتنے ہی سنجیدہ رہے یا پھر محضشہ سرخیوں کی زینت بننے کے ماہر ہیں کیونکہ ابھی ہڑتال کا اعلان ہی ہوا تھا کہ حسب توقع کراچی میں رابطہ کمیٹی کے اراکین اور وہی جانے پہچانے کارکن نائن زیرو پر جمع ہو کر آنسو بہا بہا کر واویلا کرنے لگے! یاد رہے کہ الطاف بھائی اکیس جولائی سے قبل تین مرتبہ بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔ اُن کی پہلی بھوک ہڑتال 1974ء میں سامنے آئی جب وہ اکیس برس کے تھے اور جامعہ کراچی کے شعبہ ’بی فارمیسی‘ میں اُنہیں داخلہ (ایڈمیشن) نہیں دیا گیا۔ اُس وقت ’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ کا قیام ابھی عمل میں نہیں آیا تھا۔ یہ وہی تنظیم تھی جس کی ارتقائی شکل ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی صورت میں ابھری۔ بہرکیف پہلی بھوک ہڑتال کامیاب رہی اور الطاف بھائی کو کراچی یونیورسٹی میں ’بی ایس سی‘ کی بنیاد پر داخلہ مل گیا۔ اِس مرحلۂ فکر پر یہ بھی یاد رہے کہ مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام 1978ء جبکہ بعدازاں مہاجر قومی موومنٹ کی تشکیل 1984ء میں ہوئی۔ الطاف حسین کی دوسری بھوک ہڑتال سیاسی تھی جس کی زحمت 1990ء میں فرمائی گئی جب سندھ میں ان کی جماعت کو حکمراں پیپلز پارٹی کی جانب سے مبینہ طورپر نشانہ بنایا گیا۔ الطاف بھائی کی ’تیسری بھوک ہڑتال‘ 1998ء میں ہوئی جب اُن کے پینسٹھ سالہ بھائی ناصر اُور اٹھائیس سالہ بھتیجے عارف کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ ہڑتال جولائی 1998ء کے دوران لندن میں کی گئی جس میں کارکن بھی شریک ہوئے۔ چوتھی بھوک ہڑتال ابھی ہوئی تو نہیں لیکن اُس کا اعلان بیس جولائی کو کرتے ہوئے کراچی میں جاری فوجی کاروائی کو یکطرفہ قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ کاروائی نہ تو مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی اس کا نشانہ کوئی ایک سیاسی جماعت ہے! کہیں نہ کہیں سے بات شروع کرنا تھی اور پھر جب ایم کیو ایم خود مطالبہ کرتی رہی کہ کراچی میں فوجی آپریشن کیا جائے تو اب اُسی کو اپنے خلاف دائرہ تنگ ہوتا محسوس ہو رہا ہے!

الطاف بھائی سمیت پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھوک ہڑتال تو کیا چاہے اُلٹا بھی لٹک جائیں تو اِس مرتبہ پاک فوج کے اِرادے نیک ہیں اُور وہ کراچی سے سیاست و جرائم کے درمیان تعلق کو بہرصورت ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ بات کراچی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’بخوبی‘ اور ’بروقت‘ سمجھ لی ہے‘ جس کے قائدین دھمکیوں کے بعد متحدہ عرب امارات جا بیٹھے ہیں اور وہیں پارٹی کے اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ کس قدر شرمناک حقیقت ہے کہ روٹی کپڑا اُور ایان ۔۔۔ معاف کیجئے گا ’روٹی کپڑا اور مکان‘ دینے کا وعدہ کرنے والے دبئی سے جبکہ اپنی ذات کے لئے برطانیہ کی شہریت اُور کارکنوں کے لئے مہاجر کی حیثیت پسند کرنے والے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ بیرون ملک سے کر رہے ہیں‘ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں حکمرانی اور سیاست اِس طرح ہو رہی ہے؟ چونکہ ہمارا آئین اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بیرون ملک مالی سرمایہ کاری‘ مستقل و غیرمستقل رہائش اور مفادات رکھنے والے سیاست کرنے کے اہل ہیں‘ اِس لئے ضرورت کئی ایک آئینی ترامیم کی ہے جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ ’تحریک انصاف‘ کو کم از کم ایک مرتبہ موقع دینے (آزمانے) کا تہیہ کئے دکھائی دیتی ہے۔ سندھ سے متحدہ اور پیپلزپارٹی کا صفایا تقریبا مکمل ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت مرتضی بھٹو کی اہلیہ کے ہاتھ جاتے جاتے ایک مرتبہ پھر رہ گئی ہے جبکہ پنجاب میں احتساب کی زد میں کون کون آئے گا اُور ’جنگل کا بادشاہ‘ کب بھوک ہڑتال کا اِعلان کرے گا‘ یہ بات بہت جلد شہ سرخیوں کی زینت بن کر خوشگوار حیرت میں اضافے کا باعث بننے والی ہے! سوچ کا مقام نہیں تو کیا ہے کہ صاحبان علم اختلافات کا شکار ہیں۔ چند کتابچوں سے معلومات اَخذکرنے والے واعظ بن گئے ہیں۔ موسیقی کے دلدادہ خود کو مبلغ سمجھ رہے ہیں۔ قانون ساز قانون توڑ رہے ہیں۔ ماڈلز اِسمگلنگ کر رہی ہیں۔ اِسمگلرز عبادات میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور معاشرے میں اجتماعی طور پر ’عبادات کے عملی ثمرات‘ دکھائی نہیں دیتے۔ حکمرانی ظاہری نہیں بلکہ مخفی کرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ دن دگنی ترقی کرنے والے کاروباری لوگ وہی ہیں‘ جنہوں نے دامے درہمے سخنے سیاست میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جہاں آوے کا آوہ بگڑا ہو‘ جہاں عام آدمی (ہم عوام) کو طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والی تعطیلات میں مشغول کر دیا گیا ہو! وہاں قومی سطح پر جاری عوام کی ’بھوک ہڑتال‘ کا دور بھی ختم ہونا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment