Tuesday, July 21, 2015

Jul2015: Agriculture need attention

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
دوا کرے کوئی!
زراعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اور ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ ملک کی مجموعی خام قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ بیس فیصد سے زیادہ ہی رہا ہے۔ لوگوں کی بھوک مٹانے والی‘ پاکستان کو خوراک میں خود کفیل بنانے والی‘ بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کو بھی نان شبنہ کھلانے والی زراعت کو ترقی دلوانا کبھی بھی ہماری پہلی ترجیح نہیں بن پائی! زرعی اداروں میں بجٹ کی تقسیم ہو یا زراعت کے شعبے میں تحقیق‘ کہیں بھی خاطرخواہ مالی وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔ جب کبھی بھی پاکستان میں کسی قسم کی کوئی اضافی ڈیوٹی دینا مقصود ہو تو اساتذہ کے ساتھ ساتھ جس محکمے کو بیگار کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ محکمہ زراعت ہی ہے!
کوئی تو بتائے کہ اس محکمۂ زراعت کا اصل کام ہے کیا؟ ایک زراعت آفیسر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ پاکستان کا محکمہ زراعت آخر کس مرض کی دوا ہے؟ کیا یہ خود ہی کام نہیں کرنا چاہتے یا ان کو کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا؟ جو بجٹ ان کو ملتا ہے اس کا 90فیصد تو ملازمین کی تنخواہوں میں نکل جاتا ہے۔ باقی 10فیصد سے کیا ترقی یا تحقیق ممکن ہو سکتی ہے؟ ہمارے زرعی ادارے کتنے بھی بدحال ہوں لیکن پاکستان کا کسی حد تک اپنی خوراک کی ضروریات میں خود کفیل ہونا انہی زرعی اداروں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ ہاں اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پیداوار کا تناسب بہت بڑھایا جا سکتا ہے‘ اور اِن اداروں میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے لیکن پھر بھی اگر صرف ایک زرعی ادارے ’نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر‘ کی کارکردگی کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو بخوبی ایسے کسی بھی ادارے کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ’قومی زرعی ترقیاتی ادارہ‘ دنیا بھر کے زرعی تحقیقی اداروں سے رابطے کا ایک ذریعہ ہے اور زراعت کی تحقیق کے بین الاقوامی اداروں کے لئے کیمپ آفس کا کام سر انجام دیتا ہے۔

زراعت کے شعبے میں ہونے والی عالمی تحقیق ایسے ہی اداروں کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہوئی۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی زرعی تحقیق کا پاکستانی دروازہ یہی پاکستانی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے گندم کو سٹے کی بیماریوں سے بچانے کے لئے جو محفوظ اقسام تیار کیں‘ اس سے ہونے والی بچت کا تخمینہ اٹھاون ارب روپے سالانہ ہے۔ تیس سے زائد اقسام کے زرعی آلات اسی ادارے نے تیار کیے اور پاکستان کے کسانوں تک پہنچائے۔ پاکستان سے باہر پاکستان کی زرعی مصنوعات کی تصدیق اور تشہیر کے لیے انمول خدمات سر انجام دیں۔ بین الاقوامی معیار کا ایک جین بینک قائم کیا جس میں پینتیس ہزار اقسام کے پودوں کے جینیاتی مادے کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ پاکستان کو برڈ فلو نامی بیماری سے نجات کا راستہ بھی اسی ادارے سے ہو کر نکلا۔ سورج مکھی‘ گندم اور چارے کے نئے بیچ ہوں یا صحت بخش کنولا بیج کی پیدوار‘ اس ادارے نے زراعت کی سبھی سمتوں میں پاکستان کی معاونت کی ہے۔

سرکاری جنگلات کٹنے کی کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی‘ سرکاری زمینوں پر قبضے کی داستانیں بھی آئے دن کی کہانیاں ہیں۔ اب تازہ معرکہ اسلام آباد میں نیشنل ایگری کلچر ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) اسلام آباد کی زمین پر لڑا جائے گا۔ سی ڈے اے کی طرف سے وزیرِ اعظم کو جو سمری بھیجی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ این اے آر سی کے زیر استعمال بارہ سو ایکڑ زمین پر رہائشی کالونیاں بنا کر ایک سو پچاس ارب روپے کمائے جاسکتے ہیں! جو ادارہ کبھی اسلام آباد کے مضافات میں تھا‘ شہر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ شہر کا دل بن گیا ہے۔ ایسی زمین پر کسی کا دل للچا جانا سمجھ آتا ہے لیکن سیاسی ارباب اختیار کو یہ سوچنا ہو گا کہ ان کومرغی ذبح کرنی ہے یا انڈوں کا انتظار کرنا ہے؟ پاکستان کی بین الاقوامی پہچان کا حامل یہ ادارہ جو دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں کے سب سینٹرز کا درجہ بھی رکھتا ہے‘ کیا اپنے بدن سے محروم کر دیا جائے گا؟ وہ جین بینک جس کو بنانے کے لئے ایک صدی کی محنت درکار ہوا کرتی ہے‘ نادر نباتاتی اقسام کا قبرستان بن کر رہ جائے گا؟ زرخیز زرعی زمینوں کی لاشوں پر انسانی بستیاں بسانے والوں کو ایک لمحے کے لئے سوچنا ہو گا کہ اپنے خوابوں کی بستیاں تو وہ تعمیر کر لیں گے مگر ان میں بسنے والے انسانوں کے پیٹ کیونکر بھر پائیں گے؟ لیکن سی ڈی اے اور ایک زرعی ادارے کے درمیان جنگ کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے کسی علم قیافہ شناسی کی بھی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے یہ بے جان سا ادارہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

 پاکستان میں تحقیق کی اہمیت سمجھنے والے کوئی آواز ہی نہیں رکھتے۔ کسی کو معلوم تک نہ ہو گا کہ زرعی تحقیق کے نام لکھی یہ زمین کیسے ان سے چھن گئی۔ ایک بے بس ادارے کے بے بس سرکاری افسر یہ لڑائی کیونکر لڑ پائیں گے؟ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ہم جب دنیا سے آخری درخت تک کاٹ ڈالیں گے‘ تب خوراک کے یہ ذرائع اجاڑ دینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوگا کہ دولت نہیں کھائی جا سکتی۔ کیا ہم خوراک کے ذرائع پر دولت کو ترجیح دے کر اس مقولے کو خود پر سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment