ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سب کی عید؟
سب کی عید؟
وہ کہ جنہوں نے بھوک پیاس کی شدت کے ساتھ رمضان المبارک کی ساعتوں میں صبر و
شکر کا عظیم الشان عملی مظاہرہ کیا اُن کا ضبط بھی برقرار نہ رہے سکا۔
عیدالفطر کے لمحات میں گرم پانی سے افطار کرنے والوں کی آنکھیں بھر آئیں!
اگر بچوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اُن کے
سایہ دار گلی کوچے چھین لئے گئے تو بڑے بڑوں کی یاداشت بھی ان کے آبائی
علاقوں ہی کے بارے میں تھی جس کی وجہ سے وہ باوجود کوشش بھی فرط جذبات سے
آنسو روک نہیں پا رہے تھے۔
پشاور سے کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت پر نوشہرہ کی حدود میں واقع ’جلوزئی کیمپ‘ قبائلی خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار جبکہ باجوڑ و مہمند ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار (مجموعی طور پر تین ہزار پانچ سو سے زائد) خاندان آباد ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق عیدالفطر سے قبل اپنے ہی ملک میں ’مہاجرت‘ کی زندگی بسرکرنے والوں کو متعلقہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے ’عید پیکج‘ کے طور پر نہ تو نئے کپڑے دیئے گئے اور نہ ہی اشیائے خوردونوش دی گئیں۔ مقام حیرت یہ بھی ہے کہ رمضان کے آغاز سے قبل تک غیر ملکی امدادی اداروں کی جانب سے جو امداد مل رہی تھی‘ عید کے آتے آتے وہ بھی کم ہوتی چلی گئی۔ ایک ایسا دشت و بیاباں کہ جس میں درخت نام کی شے کا پتہ پوچھنے والوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ چلو کسی بہانے سبزے اُور چھاؤں کا نام تو ذکر ہوا۔ اِس تہوار کے موقع پر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے قائم متعدد حکومتی اداروں میں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے ملازمین کو بھی ’جلوزئی‘ کیمپ کا خیال نہیں آیا۔ اصولی طور پر اگر ’فاٹا سیکرٹریٹ‘ اور ’امدادی اداروں (ڈونر ایجنسیوں) سے بہبود کے منصوبوں (پراجیکٹس) کے لئے کروڑوں روپے لینے والے غیرسرکاری اداروں کے اعلیٰ و ادنی اہلکاروں نے بھی اپنی اپنی ائرکنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھ کر ’جلوزئی کیمپ‘ میں عیدالفطر کی نماز ادا کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ (ٹیلی ویژن چینلوں) کے ذریعے نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات و تکالیف کو پوری دنیا اور بالخصوص ملک کے بڑے و خوشحال شہروں میں رہنے والوں کے سامنے پیش کیا جاتا۔ اٹھارہ کروڑ میں سے کم از کم پانچ کروڑ بھی اگر صرف اپنے ہی حصے کا فطرانہ اِس مرتبہ نقل مکانی کرنے والوں کے لئے کسی خاص بینک اکاونٹ میں جمع کراتے تو صورتحال زیادہ خوشگوار اور تبدیل ہوتی! آخر ہم کیوں اس قدر حساس نہیں کہ ہماری طرح دوسروں کی بھی عید ہوتی ہے۔ ہماری ہی طرح دوسروں کے بچوں کو بھی عید کے موقع پر نئے کپڑوں‘ جوتوں اور تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس امن سکون اور خوشحالی کے ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ اُور عزیزواقارب کے لئے متمنی ہوتے ہیں آخر وہی دوسروں کے لئے کیوں نہیں چاہتے۔ نجانے ’عید سب کے لئے‘ اور ’سب کی عید‘ کب ہوگی!
جب ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ عام ایام کے مقابلے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل عید کے موقع پر خرچ کرے۔ دعوتیں کی جائیں۔ عزیزواقارب کے گھر مبارک باد دینے کے لئے بہ اہتمام جایا جائے۔ مدعو کئے جانے والوں یا حسب سابق مسکراتے ہوئے مہمانوں کو بانہیں کھول کھول کر ملنے والے مہمان نوازی میں کسر بہ چھوڑیں۔ مہندی‘ چوڑیاں‘ خوشبو‘ نئے فیشن کے مطابق سلے ہوئے ملبوسات‘ زیورات‘ جوتے‘ الغرض اُجلے مہکتے تن بدن کے ساتھ عید کی ساعتوں میں جو جس قدر خرچ کرتا ہے اُسے اُتنا ہی کم لگ رہا ہوتا ہے‘ لیکن کیا یہی سخاوت ہے؟ کیا یہی فیاضی ہے؟ کیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کے اثرات رمضان المبارک کے روزے و دیگر عبادات مکمل کرنے کے بعد ہماری عملی زندگیوں میں نظر آنا تھے؟ کیا عیدالفطر کا فلسفہ یہی تھا کہ ہم اپنی خوشیوں میں صرف اپنوں اور جاننے والوں ہی کو شریک کرتے؟!
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عیدالفطر کی نماز سے قبل وعظ و تلقین پر مبنی بیانات (خطبات) کی اکثریت میں ’نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کا ذکر‘ نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں ایسا محکمہ تو موجود ہے جو مساجد میں قیام و طعام اور خدمت دین کرنے والوں خدمت گزاروں کو ماہانہ تنخواہیں اُور مراعات (معاوضہ) ادا کرتا ہے لیکن سرکاری طور پر نماز جمعہ یا عیدین کے موقع پر حکومت ایسے موضوعات یا ان کے مندراجات (ایڈوائزری) جاری نہیں کرتی جن کا تعلق ہمارے روزمرہ حالات یا اُن خصوصی و ہنگامی حالات سے ہو۔ عبادات اُور منبر و محراب کا تعلق ہماری عملی زندگیوں سے کٹ سا گیا ہے‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو حقوق العباد کے بارے تذکرہ و تلقین نہ ہونے کے باوجود ہم میں سے ہر ایک ’مہاجر و انصار‘ جیسا کردار اَدا کر رہا ہوتا۔ دل چھوٹے اور مکانات وسیع وعریض اور ایک وقت تھا کہ رہائشگاہیں چھوٹی اور دل بڑے ہوتے تھے! اگر ایسا نہ ہوتا تو عید کے موقع پر ہمارے اپنے ہی (قبائلی) لوگ دشت و بیاباں میں کھلے آسمان تلے یوں کسمپرسی و بے سروسامانی کی حالت میں رمضان اُور عیدالفطر کی ساعتوں میں غمزدہ‘ فکرمند اور اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی و مایوسی کا شکار نہ ہوتے! ہم نے قبائلیوں کو کیا دیا۔ ایک امتیازی قانون‘ ایک تعصب بھرا رویہ‘ ایک خوف اور اندیشوں میں گھرا ہوا مستقبل!
جلوزئی کیمپ سمیت پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اِسماعیل خان‘ بنوں اُور دیگر علاقوں میں جہاں کہیں بھی نقل مکانی کرنے والوں سے بات چیت کا اِتفاق ہوا‘ اُن کے نوجونواں کی اکثریت کو سب سے زیادہ فکر مستقبل کے بارے میں لاحق تھی کیونکہ جس انداز میں حکومتی اداروں کی جانب سے اب تک دردمندی کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس سے کہیں گنا زیادہ بہتر یہی تھا کہ وہ شورش زدہ علاقوں میں اپنے مٹی کے مکانوں میں دب کر مر جاتے۔ اتنی بھوک‘ اتنی افلاس‘ اتنی بے سروسامانی اور اتنی بے بسی تو اِن لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی‘ نہ ہی یہ رویہ اُن کی توقعات کے عین مطابق تھا کہ ایسا ماجرا اُور اُن سے غیروں جیسا ہتک آمیز سلوک روا رکھا جائے گا! کیا ہم خیمہ بستی کی ایک ایسی زندگی کا تصور کرسکتے ہیں جہاں تین ماہ سے بجلی نہ ہو۔
گرمی کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیموں میں چھاؤں تو میسر تھی لیکن چند منٹ خیمے کے اندر بیٹھنے سے ’گرین ہاؤس افیکٹ‘ کے سبب دماغ اُبلتا ہوا محسوس ہونے لگے۔ اچھے دنوں کی یادیں بیان کرنے والوں نے سال دوہزار چودہ میں حکومت اور فوج کی جانب سے ملنے والے عید کے تحائف کا ذکر کیا‘ جن کا اِس مرتبہ دور دور تک نام و نشان نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک امداد کی مالیت سے زیادہ تشہیری مہمات پر خرچ کیا جاچکا ہوتا!
پاک فوج کے سربراہ نے (مرکزی) عیدالفطر کے پہلا دن جو لمحات بنوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ بسر کئے‘ وہ نہایت ہی قیمتی تھے کیونکہ اگر ہم سیاسی حکام کی نااہلی کے سبب نقل مکانی کرنے والوں کی خاطرخواہ مدد نہیں کر سکے تو کم از کم اُنہیں اِس بات کا یقین تو دلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں واپسی‘ معیشت و معاشرت کی بحالی اور تباہی و بربادی کی تصویر بنے علاقوں کی ’تعمیر نو‘ کے حوالے سے مستقبل کے بارے میں نااُمید نہ ہوں۔
پشاور سے کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت پر نوشہرہ کی حدود میں واقع ’جلوزئی کیمپ‘ قبائلی خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار جبکہ باجوڑ و مہمند ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار (مجموعی طور پر تین ہزار پانچ سو سے زائد) خاندان آباد ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق عیدالفطر سے قبل اپنے ہی ملک میں ’مہاجرت‘ کی زندگی بسرکرنے والوں کو متعلقہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے ’عید پیکج‘ کے طور پر نہ تو نئے کپڑے دیئے گئے اور نہ ہی اشیائے خوردونوش دی گئیں۔ مقام حیرت یہ بھی ہے کہ رمضان کے آغاز سے قبل تک غیر ملکی امدادی اداروں کی جانب سے جو امداد مل رہی تھی‘ عید کے آتے آتے وہ بھی کم ہوتی چلی گئی۔ ایک ایسا دشت و بیاباں کہ جس میں درخت نام کی شے کا پتہ پوچھنے والوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ چلو کسی بہانے سبزے اُور چھاؤں کا نام تو ذکر ہوا۔ اِس تہوار کے موقع پر قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے قائم متعدد حکومتی اداروں میں کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے ملازمین کو بھی ’جلوزئی‘ کیمپ کا خیال نہیں آیا۔ اصولی طور پر اگر ’فاٹا سیکرٹریٹ‘ اور ’امدادی اداروں (ڈونر ایجنسیوں) سے بہبود کے منصوبوں (پراجیکٹس) کے لئے کروڑوں روپے لینے والے غیرسرکاری اداروں کے اعلیٰ و ادنی اہلکاروں نے بھی اپنی اپنی ائرکنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھ کر ’جلوزئی کیمپ‘ میں عیدالفطر کی نماز ادا کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ (ٹیلی ویژن چینلوں) کے ذریعے نقل مکانی کرنے والوں کی مشکلات و تکالیف کو پوری دنیا اور بالخصوص ملک کے بڑے و خوشحال شہروں میں رہنے والوں کے سامنے پیش کیا جاتا۔ اٹھارہ کروڑ میں سے کم از کم پانچ کروڑ بھی اگر صرف اپنے ہی حصے کا فطرانہ اِس مرتبہ نقل مکانی کرنے والوں کے لئے کسی خاص بینک اکاونٹ میں جمع کراتے تو صورتحال زیادہ خوشگوار اور تبدیل ہوتی! آخر ہم کیوں اس قدر حساس نہیں کہ ہماری طرح دوسروں کی بھی عید ہوتی ہے۔ ہماری ہی طرح دوسروں کے بچوں کو بھی عید کے موقع پر نئے کپڑوں‘ جوتوں اور تفریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس امن سکون اور خوشحالی کے ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ اُور عزیزواقارب کے لئے متمنی ہوتے ہیں آخر وہی دوسروں کے لئے کیوں نہیں چاہتے۔ نجانے ’عید سب کے لئے‘ اور ’سب کی عید‘ کب ہوگی!
جب ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ عام ایام کے مقابلے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل عید کے موقع پر خرچ کرے۔ دعوتیں کی جائیں۔ عزیزواقارب کے گھر مبارک باد دینے کے لئے بہ اہتمام جایا جائے۔ مدعو کئے جانے والوں یا حسب سابق مسکراتے ہوئے مہمانوں کو بانہیں کھول کھول کر ملنے والے مہمان نوازی میں کسر بہ چھوڑیں۔ مہندی‘ چوڑیاں‘ خوشبو‘ نئے فیشن کے مطابق سلے ہوئے ملبوسات‘ زیورات‘ جوتے‘ الغرض اُجلے مہکتے تن بدن کے ساتھ عید کی ساعتوں میں جو جس قدر خرچ کرتا ہے اُسے اُتنا ہی کم لگ رہا ہوتا ہے‘ لیکن کیا یہی سخاوت ہے؟ کیا یہی فیاضی ہے؟ کیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کے اثرات رمضان المبارک کے روزے و دیگر عبادات مکمل کرنے کے بعد ہماری عملی زندگیوں میں نظر آنا تھے؟ کیا عیدالفطر کا فلسفہ یہی تھا کہ ہم اپنی خوشیوں میں صرف اپنوں اور جاننے والوں ہی کو شریک کرتے؟!
یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عیدالفطر کی نماز سے قبل وعظ و تلقین پر مبنی بیانات (خطبات) کی اکثریت میں ’نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کا ذکر‘ نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں ایسا محکمہ تو موجود ہے جو مساجد میں قیام و طعام اور خدمت دین کرنے والوں خدمت گزاروں کو ماہانہ تنخواہیں اُور مراعات (معاوضہ) ادا کرتا ہے لیکن سرکاری طور پر نماز جمعہ یا عیدین کے موقع پر حکومت ایسے موضوعات یا ان کے مندراجات (ایڈوائزری) جاری نہیں کرتی جن کا تعلق ہمارے روزمرہ حالات یا اُن خصوصی و ہنگامی حالات سے ہو۔ عبادات اُور منبر و محراب کا تعلق ہماری عملی زندگیوں سے کٹ سا گیا ہے‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو حقوق العباد کے بارے تذکرہ و تلقین نہ ہونے کے باوجود ہم میں سے ہر ایک ’مہاجر و انصار‘ جیسا کردار اَدا کر رہا ہوتا۔ دل چھوٹے اور مکانات وسیع وعریض اور ایک وقت تھا کہ رہائشگاہیں چھوٹی اور دل بڑے ہوتے تھے! اگر ایسا نہ ہوتا تو عید کے موقع پر ہمارے اپنے ہی (قبائلی) لوگ دشت و بیاباں میں کھلے آسمان تلے یوں کسمپرسی و بے سروسامانی کی حالت میں رمضان اُور عیدالفطر کی ساعتوں میں غمزدہ‘ فکرمند اور اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی و مایوسی کا شکار نہ ہوتے! ہم نے قبائلیوں کو کیا دیا۔ ایک امتیازی قانون‘ ایک تعصب بھرا رویہ‘ ایک خوف اور اندیشوں میں گھرا ہوا مستقبل!
جلوزئی کیمپ سمیت پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اِسماعیل خان‘ بنوں اُور دیگر علاقوں میں جہاں کہیں بھی نقل مکانی کرنے والوں سے بات چیت کا اِتفاق ہوا‘ اُن کے نوجونواں کی اکثریت کو سب سے زیادہ فکر مستقبل کے بارے میں لاحق تھی کیونکہ جس انداز میں حکومتی اداروں کی جانب سے اب تک دردمندی کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس سے کہیں گنا زیادہ بہتر یہی تھا کہ وہ شورش زدہ علاقوں میں اپنے مٹی کے مکانوں میں دب کر مر جاتے۔ اتنی بھوک‘ اتنی افلاس‘ اتنی بے سروسامانی اور اتنی بے بسی تو اِن لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی‘ نہ ہی یہ رویہ اُن کی توقعات کے عین مطابق تھا کہ ایسا ماجرا اُور اُن سے غیروں جیسا ہتک آمیز سلوک روا رکھا جائے گا! کیا ہم خیمہ بستی کی ایک ایسی زندگی کا تصور کرسکتے ہیں جہاں تین ماہ سے بجلی نہ ہو۔
گرمی کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خیموں میں چھاؤں تو میسر تھی لیکن چند منٹ خیمے کے اندر بیٹھنے سے ’گرین ہاؤس افیکٹ‘ کے سبب دماغ اُبلتا ہوا محسوس ہونے لگے۔ اچھے دنوں کی یادیں بیان کرنے والوں نے سال دوہزار چودہ میں حکومت اور فوج کی جانب سے ملنے والے عید کے تحائف کا ذکر کیا‘ جن کا اِس مرتبہ دور دور تک نام و نشان نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک امداد کی مالیت سے زیادہ تشہیری مہمات پر خرچ کیا جاچکا ہوتا!
پاک فوج کے سربراہ نے (مرکزی) عیدالفطر کے پہلا دن جو لمحات بنوں میں نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ بسر کئے‘ وہ نہایت ہی قیمتی تھے کیونکہ اگر ہم سیاسی حکام کی نااہلی کے سبب نقل مکانی کرنے والوں کی خاطرخواہ مدد نہیں کر سکے تو کم از کم اُنہیں اِس بات کا یقین تو دلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں واپسی‘ معیشت و معاشرت کی بحالی اور تباہی و بربادی کی تصویر بنے علاقوں کی ’تعمیر نو‘ کے حوالے سے مستقبل کے بارے میں نااُمید نہ ہوں۔
No comments:
Post a Comment