Friday, July 17, 2015

Jul2015: Eid and entertainment

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید: تفریحی امکانات
امن وامان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری (تبدیلی)کے سبب اِس سال ’عیدالفطر‘ کے لمحات میں تفریحی مقامات کی رونقیں گذشتہ کئی برس کے مقابلے زیادہ ہیں تاہم گنجائش سے زیادہ پرجوش ہجوم کے لئے خاطرخواہ سہولیات کا بندوبست کی روایت تبدیل ہونی چاہئے۔ حکومت کا کام صرف تعطیلات دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِن تعطیلات کے دوران معیاری و صحت مند تفریح کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں‘ کاش کہ یہ ایک باریک نکتہ‘ جو متعدد مرتبہ اِنہی سطور کے ذریعے بیان کیا گیا قابل غور و توجہ سمجھا جائے۔

یوں تو بازاروں کی بحال ہوئی رونقیں اور چہروں پر خوف کی بجائے مسرت بھرے جذبات حاوی دیکھ کر مسرت ہوتی ہے لیکن تفریح کی تلاش میں یہاں وہاں گھومتے گھومتے تھکاوٹ سے بے حال نوجوانوں کو دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ انہیں کچھ وقت آرام سے بیٹھ کر گزارنے کی سہولت میسر نہیں۔ اگر یہ حال پشاور جیسے مرکزی شہر کا ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ دور دراز اضلاع میں تفریحی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔ عیدالفطر کے موقع پر نوجوانوں کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کرتی ہے اور پشاور کے سینماگھر تو پورے پاکستان میں اپنی خاص شہرت رکھتے ہیں لیکن اِس مرتبہ سبھی کے ہاں نئی پشتو فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں ہیں۔ صدآفرین کہ 35 برس بعد پہلی مرتبہ 7 پشتو فلمیں اس عیدالفطر پر ریلیز کی گئیں ہیں جن کی نمائش پشاور کے علاؤہ دیگر شہروں کے سینما گھروں میں جاری ہے۔ یقینی امر ہے کہ اِس سے نہ صرف پشتو زبان و ثقافت بلکہ فلمی صنعت کو نت نئے تصورات اور جدت کے ساتھ آگے بڑھنے کا اعتماد ملے گا۔ سینما گھروں کے ساتھ وابستہ روزگار بھی پھر سے آباد ہو گئے ہیں‘ بالخصوص چائے خانوں سے اٹھنے والی مہک اور خاص ماحول اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ توجہ طلب ہے کہ پشاور کے یکے بعد دیگرے کئی سینما ہال ’کمرشل ازم‘ کی وجہ سے ختم کر دیئے گئے اور یہ کام چونکہ قواعد کی رو سے ممکن نہیں اِس لئے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے سرمایہ دار پہلے سستے داموں سینما ہال خریدتے ہیں کیونکہ اُس کے اصل مالکان کے لئے مختلف خطرات و وجوہات کی بناء پر فلموں کی نمائش جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتی اور پھر ملکیت حاصل کرنے کے بعد سینما کی جگہ کثیر المنزلہ عمارت (پلازہ) کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تعمیراتی نقشے کے لحاظ سے آسمان سے باتیں کرنے والے اِن درجن بھر عمارتوں میں ’کار پارکنگ‘ کے لئے جگہ مختص کی جاتی ہے لیکن جب عمارت کا دورہ کیا جائے تو وہاں نہ تو پارکنگ ملتی ہے اور نہ ہی آتشزدگی کی صورت ہنگامی راستوں سے نکلنے کا بندوبست حسب نقشہ جات دکھائی دیتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ’بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے ایک سے زیادہ دفاتر ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں اہلکار ہیں لیکن سب کے سب کی غربت دور ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ پشاور ہر دن بظاہر امیر اور درحقیقت غیرمحفوظ ہوتا چلا جارہا ہے۔

سینما ہال اجڑنے کی ایک وجہ ’کیبل نیٹ ورکس‘ ہیں جن کے ذریعے گھر گھر اُردو پشتو اور انگریزی زبان کی نئی آنے والی فلمیں بھی دیکھی جا رہی ہیں لیکن بڑی سکرین کا مزا ہی کچھ اُور ہے اور پھر پشتو فلم سینما ہال میں دیکھنے کے ساتھ ایک پوری ثقافت جڑی ہے‘ جس کا عشرعشیر لطف بھی گھر میں فلم بینی کا حاصل نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ’سینما گھر‘ کی اپنی ہی خاص اہمیت رہی ہے اور یہی وہ ضرورت ہے جس کے بارے میں صوبائی حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ’سینما اور تھیٹر‘ کی سرکاری سرپرستی کی جائے کیونکہ فلم کے ذریعے بنیادی طور پر ’تفریحی عمل کے دوران‘ سماجی برائیوں اور انتہاء پسندی کے خلاف پیغام منتقل کیا جاسکتا ہے۔ فنون لطیفہ انسان دوستی کے جذبات کو ابھارتے اُور تخلیقی سوچ کے پروان چڑھنے سمیت زبان و ثقافت کے رشتوں کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں تفریحی مقامات کی شدید کمی الگ سے محسوس کی جاتی ہے بالخصوص جبکہ گرمی اور حبس اپنے عروج پر ہو تو ’اِن ڈور ائرکنڈیشن‘ تفریح کے مواقع دستیاب نہیں۔ لے دے کر سینما ہال ہیں جہاں چند گھنٹے موسم کی شدت سے محفوظ رہنے والے بھی بھلا ایک فلم کتنی مرتبہ دیکھیں اُور ہر بار لطف اندوز بھی ہوں! آخر یہ دور خاموش فلموں کا بھی نہیں کہ ٹکٹ خرید کر ائرکنڈیشن ہال میں نیند کی جائے۔ سینما گھر کی تفریح کو معیاری بنانے اور ٹکٹوں کی مقرر کردہ نرخوں کے مطابق فروخت کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے حرکت میں آنے کی اُمید تھی لیکن افسوس لگتا ہے کہ سب کے سب تعطیلات پر ہیں اور پشاور سمیت عید منانے والوں کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کچھ توجہ بچوں کے لئے ’کھیل کود و تفریح کی اِن ڈور سہولیات‘ کی فراہمی پر بھی ہونی چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف نے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیل کے میدان و سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو تیسرے مالی سال کے آغاز پر بھی ہنوز پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

پشاور کو باغات کا شہر کہا جاتا تھا لیکن قیام پاکستان سے قبل تعمیر کئے گئے یہاں کے باغات جس ’تہس نہس حالت‘ میں دکھائی دیتے ہیں‘ اُن سے حکمرانوں کی ترجیحات صاف عیاں ہیں۔ عجب ہے کہ پشاور پر حکومت کرنے والوں میں ایک سے بڑھ کر ایک خوش قسمت کردار ہے۔ پشاور جادو کی ایسی چھڑی کا نام ہے کہ جس کے ہاتھ آئے وہ دیکھتے ہی دیکھتے کھرب پتی بن جاتا ہے لیکن جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر کی بدقسمتی کا دور کسی صورت ختم نہیں ہورہا بلکہ وہ تکلیف دہ دورانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طویل تر ہوتاچلا جا رہا ہے‘ جس میں ’پشاور کے غصب شدہ حقوق‘ کی نہ تو کماحقہ ادائیگی ہو رہی ہے اور نہ ہی اِس ضرورت کے بارے سوچ بچار‘ بحث و مباحثے یا مشاورت کا عمل‘ اب تک شروع کیا جاسکا ہے!

No comments:

Post a Comment