Thursday, July 16, 2015

Jul2015: Ahead of Eid, The Performance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
لب عید: امکانی مسرتیں!
تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے ساتھ ہی پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ ناجائز منافع خوروں اور غیرمعیاری اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف ’پرمعنی عملی اقدامات‘ کئے ہیں اُور اِس دوران سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تین معروف اور بڑے کاروباری مراکز کو سربمہر کیا ہے۔ یاد رہے کہ ضلعی انتظامیہ نے رمضان کے دوران (چودہ جولائی تک) 9 ہزار 40 دکانوں کا معائنہ کیا جن سے کل 51لاکھ 60 ہزار روپے سے زائد جرمانے وصول کئے گئے اُور 1 ہزار 852 تاجروں دکانداروں کو منافع خوری یا ناقص المعیار اشیاء کی فروخت کی وجہ سے حراست میں لیا گیا۔ چودہ جولائی تک پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافی کرائے وصول کرنے والوں سے 7 لاکھ 33ہزار روپے وصول کرکے مسافروں کو واپس کئے گئے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے جس انداز میں رمضان کا آخری عشرہ گرم کر رکھا ہے‘ اُس کے بارے میں عوامی حلقے اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر تعریف و توصیف سے بھرے پیغامات ارسال کئے جا رہے ہیں تاہم خدشات و تحفظات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ٹوئٹر پر بابر جمیل (@babrjamil) نے لکھا ہے کہ ’’جس انداز میں ریسٹورنٹس کے خلاف مہم جاری ہے تو لگتا ہے کہ پشاور کے سبھی ہوٹل بند ہو جائیں گے۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کو ایک لمبے عرصے سے ’کھلی چھوٹ‘ اور اِس بات کی ’آزادی‘ حاصل رہی کہ وہ من مانی قیمتوں کے ساتھ جس قدر ناقص المعیار اشیاء فروخت کرنا چاہیءں‘ وہ کر سکتے ہیں۔ پشاور کی تین بڑی سرکاری علاج گاہوں‘ ڈبگری گارڈن میں نجی کلینکس اُور جنرل بس اسٹینڈ کے آس پاس ایسے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں قیام و طعام کے مراکز ہیں جہاں صاف ستھری سہولیات‘ قیمتوں اور معیار کے کم سے کم میزان کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء فٹ پاتھوں‘ نالے نالیوں اور گندگی و غلاظت کے انباروں پر بیٹھ کر فروخت کی جاتی ہیں اُور چونکہ ایسے مقامات پر سستا کھانے والوں کا تعلق صرف عام آدمی سے ہے‘ اِس لئے خواص کی صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی جن ’بڑی مچھلیوں‘ وک شکار کیا گیا ہے اُن میں صرف وہی مراکز شامل ہیں جہاں کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگوں کی اکثریت ’شاپنگ‘ کے لئے جاتی ہے۔ غریب بیچارے کے پاس تو اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ مہینوں کی ضروریات ذخیرہ کرے اور نہ ہی وہ محض منہ کے ذائقے کے لئے دیر رات گئے تک ہزاروں روپے کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں خرچ کرنے کے بارے سوچ سکتا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کے بدن پر ’تہہ در تہہ‘ چربی کی پرتیں شمار کی جاسکتی ہیں اور دوسری طرف دھنسی ہوئی آنکھیں اور گال رکھنے والوں کے زردی مائل چہروں پر پھیلی مایوسی کم سے کم فطرانے‘ ہلکی پھلکی امکانی مسرت اور مسکراہٹ کے وقتی سبب سے دور نہیں کی جا سکتی! بلاشبہ عام آدمی کو درپیش گھمبیر و دیرینہ مسائل بھی توجہ چاہتے ہیں اور صوبائی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اُن کی بابت صرف پشاور ہی نہیں بلکہ دیگر اضلاع کی ضلعی انتظامیہ سے بھی استفسار کرے۔

اگر ضلعی انتظامیہ کو علم ہی نہیں تو تحقیق کرلیں کہ چنے کی پتیوں کو مذبح خانوں سے جمع کردہ جانوروں کے خون اور کیمیائی مادوں سے رنگ دے کر بطور سیاہ چائے فروخت کرنے کا دھندا کرنے والے کون ہیں۔ ہوٹلوں سے استعمال شدہ چائے کی پتی اور خوردنی تیل جمع کرکے جعل سازی سے دوبارہ فروخت کے قابل بنانے والے کارخانے بھی رنگ روڈ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں بطور ’کاٹیج انڈسٹری (چھوٹی صنعتیں)‘ کام کر رہے ہیں۔

بچوں کے لئے انتہائی ناقص تیل کا استعمال کرکے کم قیمت ٹافیاں‘ پاپڑ‘ دال چنا اور کھٹی میٹھی اشیائکی عام کھلے عام فروخت ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ہسپتالوں پر رش کم نہیں ہوتا۔گاڑیوں میں استعمال شدہ موبل آئل اُور انجن آئل دھرلے سے اکٹھا کیا جاتا ہے جس کی صفائی اور فروخت کے مراکز بھی جابجا قائم نظر آتے ہیں۔

بوتلوں میں بند پینے کا ناقص المعیار پانی‘ کاربونیٹیڈ مشروبات‘ سوڈا واٹر‘ خشک روٹی اور ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کو پیس کر حاصل ہونے والا آٹا‘ رنگوں سے بھرے مصالحہ جات‘ ہوٹلوں کے کوڑا دانوں سے جمع شدہ مضرصحت کھانے کی فٹ پاتھوں پر فروخت‘ راز کی بات نہیں۔ جنرل بس اسٹینڈ سے بین الاضلاعی اور بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ مسافر گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے‘ سی این جی کے ایک دو نہیں بلکہ تین تین سلنڈر نشستوں کے نیچے نصب کرکے مسافروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے‘ مسافر گاڑیوں کے ذریعے کپڑے اور الیکٹرانک مصنوعات کی اسمگلنگ‘ عیدالفطر یا دیگر تہواروں کے موقع پر مقررہ کرائے کی شرح سے زیادہ وصولیاں ایسی چند ’مشہور زمانہ بے قاعدگیاں‘ ہیں‘ جن کا گویا پورا معاشرہ عادی ہو چکا ہے!

 اس سے بڑا المیہ اُور کیا ہوگا کہ عام آدمی نے بطور صارف اس طرح کے ہر ظلم اُور زیادتی پر صبر کر لیا ہے۔ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کی اکثریت اپنے منصب کے شایان شان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہی اور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی رمضان کے آغاز و اختتام کے موقع پر ’غیرمعمولی شرح سے مہنگائی‘ عام ہے!

یقین کیجئے کہ ’تبدیلی اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہم میں سے ہر ایک اِس کے لئے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا نہیں کرے گا اُور چونکہ ’خاموش‘ رہنے کے تجربے سے حالات میں بہتری نہیں آئی تو وقت ہے کہ اپنے حقوق کے لئے ’تقاضا‘کیا جائے۔ اگر آپ کا بھی کسی ناجائز منافع خور‘ ملاوٹ کے عادی یا کم تول کرنے والے سے واسطہ پڑتا ہے تو اِس کی براہ راست شکایت ڈپٹی کمشنر دفتر کو 8333 پر بذریعہ موبائل فون (ایس ایم ایس) ارسال کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ اس کے علاؤہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس ’فیس بک‘ (facebook.com/dcpeshawar) کی وساطت سے بھی ڈپٹی کمشنر دفتر تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ ٹوئٹر (twitter) پر ڈپٹی کمشنر (@DCPeshawar) یا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (@oawarraich) جیسے مصروف اعلیٰ حکام سے بھی تبادلہ خیال ممکن ہے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ اصلاح احوال کی کوششیں اور معاشرے کو نچوڑ کھانے والے ’حقیقی سماج دشمنوں‘ کے خلاف پرعزم کاروائیاں (پھرتیاں) صرف ضلع پشاور کی حد تک محدود نہ سمجھی جائیں بلکہ کسی بھی ضلع کے رہنے والے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ٹوئٹر اکاونٹ (@KPKUpdates) کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں یا پھر صوبائی سیکرٹری اِنفارمیشن (@AbidMajeed1969) جیسے فرض شناس دفتری اُوقات کے علاؤہ ’ٹوئٹر‘ پر بھی ’حاضر جناب‘ رہتے ہیں!

پس تحریر: دانشمندی روایت شکنی کی متقاضی ہے۔ ماہ شوال کا چاند نظر آنے یا ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی چاند رات پر ہوائی فائرنگ سے مکمل اجتناب کیا جائے کیونکہ سماعتوں کو بھلی لگنے والی محض ایک چھوٹی سی خوشی (نفسیاتی تسکین) ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور کسی قیمتی انسانی جان کا نقصان بھی ہو سکتا ہے! کیا آپ پسند کریں گے کہ ضمیر کی عدالت میں بطور ملزم پیش ہوں اور آپ کو ’قاتل‘ قرار دے کر اپنی ہی ذات میں عمرقید کی سزا سنا دی جائے؟

No comments:

Post a Comment