ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کام سے کام!
کام سے کام!
اَمریکہ سے چند ماہ کے لئے اپنے ملک کی سیر کے لئے آئے ایک جگری دوست سے
ملاقات‘ حال احوال دریافت کرنے سے لیکر خطے کے حالات‘ یہاں وہاں کے مذہبی
رحجانات میں آئی تبدیلیوں اُور مقامی سیاست جیسے موضوعات کا سرسری احاطہ
کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کرتے کرتے ’آذان فجر‘ کے ساتھ ختم ہوئی جس کا
حاصل وہ ایک بات رہی کہ ’’جو ایک بار امریکہ جاتا ہے‘ اُس کے لئے اگرچہ
واپسی کے راستے ختم نہیں ہوتے لیکن وہ ایک ایسی ثقافت اور ماحول کا حصہ بن
جاتا ہے جہاں سے اُس کی ذہنی وابستگی اور جسمانی تعلق باوجود خواہش بھی ختم
ہونا ممکن نہیں رہتا۔‘‘ کیا یہ کشش معاشی و اقتصادی فوائد‘ روزگار کے بہتر
مواقع‘ انسانی حقوق و احترام انسانیت پر مبنی بلاامتیاز قانون کی
بالادستی‘ صحت و تعلیم کا معیاری نظام‘ ترقی کا پائیدار تصور‘ تعصبات سے
پاک لین دین‘ مذہب‘ رنگ و نسل اور لسان جیسی ترجیحات کی بجائے بناء تفریق
یکساں برتاؤ ہے یا پھر امن و امان کی صورتحال اُور تحفظ کا ایک ایسا لطیف
احساس‘ کہ جس کی وجہ سے ہر کسی کو اپنی اپنی ذات میں چھپی ہوئی خداداد
صلاحیتوں یا کسبی علوم و مہارت کے اظہار کے بھرپور مواقع میسر آ رہے ہیں؟
جو علوم و فنون حاصل کرنے کے ساتھ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں جس قدر ترقی
کرنا چاہے‘ اُسے تو بس امریکہ ہی جانا چاہئے۔ جہاں ’اخلاق و اقدار‘ کا سخت
گیر تصور نہیں پایا جاتا‘ ہر کوئی خود کو مادر پدر آزاد سمجھتے ہوئے بھی
آزاد نہیں‘ جہاں زیادہ آمدنی والے طبقات زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں! جہاں
جھوٹ بولنا‘ ملاوٹ اُور ذخیرہ اندوزی کرنا ایسے ناقابل معافی اور عبرتناک
سزاؤں والے جرائم ہیں کہ اِن مکروہ افعال کے بارے میں سوچتے ہی اچھے اچھوں
کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ جہاں ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ذمہ داریوں میں ایک
توازن دکھائی دیتا ہے۔ جی ہاں یہ یہ بات اُسی امریکی معاشرے کی ہو رہی ہے
جو کسی ایک قوم یا ملت کا نام نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام‘ مادہ پرست سوچ
اُور ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف طرز حکمرانی کا راج ہے اور اسی پر یقین
رکھنے والے پوری دنیا سے ایک تاروں بھرے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔
امریکہ کی حقیقت یہ ہے کہ رشتے‘ تعلقات اور ایک دوسرے کا احساس کرنے والے عمومی جذبات جن کی وجہ سے مصلحتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ اُن سے عاری ’ہجوم‘ نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے کہ انواع و اقسام کی اقوام‘ عقائد اور معاشرتی نظریاتی رکھنے کے باوجود بقاء و ترقی کے دارومدار صرف اور صرف اِس بات سے ہے کہ بس ’اپنے کام سے کام رکھا جائے اُور یہی امریکہ کی ترقی کا ’خلاصہ (لب لباب‘ نچوڑ‘ اُور پورا بیان)‘ ہے!
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بیرون ملک صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والے اپنے آبائی ملک کو معاشرے کو سنوارنے کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس کی وجہ سیاسی و انتظامی قیادت کی خودغرضی ہے جنہوں نے اپنی نسلوں کا مستقبل بیرون ملک سرمایہ کاری کے ذریعے محفوظ بنا رکھا ہے اور قوم کے ہر بچے کو ’حب الوطنی کی گھٹی‘ صبح دوپہر شام پلائے جا رہے ہیں۔ قدرت کی عطاکردہ سبھی عنایات جو 98 لاکھ 26 ہزار 675 مربع کلومیٹر پر پھیلی پچاس ریاستوں اور ایک دارالحکومت پر مشتمل‘ آبادی کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک میں ترقی یافتہ شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ پاکستان کے محض 8 لاکھ 3 ہزار 940 کلومیٹر رقبے میں موجود ہیں لیکن ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پن بجلی کے پیداواری امکانات ہیں لیکن بڑے منصوبے سیاست اور چھوٹے منصوبے فیصلہ سازوں کی لالچ کی نذر ہیں! کوئلے کے ذخائر‘ تیز ہواؤں والی ساحلی پٹی‘ زرخیز مٹی‘ چلچلاتی دھوپ والا ریگستانی رقبہ‘ دریا‘ چشمے‘ برفانی تودوں سے ڈھکے ہوئے بلندوبالا برفیلے پہاڑ‘ معدنیات سے روشنی منعکس کرنے والے سنگلاخ پہاڑی سلسلے‘ تیل و گیس اور شیل گیس کے ذخائر‘ سرسبزوشاداب وادیاں‘ اُجاڑ گھاٹیاں‘ بیک وقت چار موسم‘ میٹھے‘ ہلکے اور بھاری پانی سمیت وہ سب کچھ موجود ہے‘ جسے ترقی دے کر قابل استفادہ بنایا جاسکتا ہے لیکن ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ حل کرنے کی بجائے فیصلہ سازوں نے قوم کو اُس ڈھلوان کے نزدیک لاکھڑا کیا ہے جس کی ’بحرانی پھسلن‘ پر قدم جمانا صرف مشکل ہی نہیں رہا بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہوگیا ہے۔
فرقہ واریت‘ سیاسی و سماجی امتیازات و تعصب‘ رنگ و نسل پر مبنی سیاسی‘ غیرسیاسی اُور انتخابی ترجیحات‘ مالی و انتظامی بدعنوانیاں‘ غیرپائیدار ترقی اور تعمیر و ترقی کی حکمت عملیاں طے کرتے ہوئے ’زیادہ سے زیادہ نیک نامی‘ کمانے کے لئے جزوقتی فیصلوں نے ملک کو مقروض اور قوم کو ایک ایسے نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیا ہے جس میں ہر کوئی دوسرے سے کسی نہ کسی سبب الجھ رہا ہے۔ وہاں ہر کسی کو اپنے کام سے کام اور ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے کے معاملات‘ نجی زندگی اُور مصروفیات کے بارے میں مزید سے مزید کچھ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ تعمیراتی منصوبوں پر ہر سال (بجٹ در بجٹ) اربوں روپے خرچ کرنے سے ’قوم کی تقدیر‘ سوچ‘ رویئے اُور عمل‘ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے بہترطرز حکمرانی (گڈ گورننس) کا ہدف مقرر کرکے اسے حاصل کرنے کے لئے اپنی ذات قربانی کے لئے پیش کرنا ہوگی۔ جب تک قیادت اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر مربوط شعوری طور کوشش کرنے پر رضامند ہونے اور قوم کو یہ باور و ترغیب نہیں دیتی کہ ہر ایک بس ’اپنے کام سے کام رکھے!‘ اُس وقت تک ہماری باصلاحیت‘ صحتمند و تندرست افرادی قوت‘ عزیزواقارب‘ ہمارے بہترین دوست یونہی غیر ممالک کی ترقی و خوشحالی میں حصہ دار بنتے رہیں گے۔
شعور کی منزل پر کیا ہم ایسے کسی ’دیار غیر‘ میں ’خاک‘ ہونا پسند کریں گے جہاں سب کی ایک جیسی قومی شناخت ہے‘ لیکن درحقیقت کسی کی بھی کوئی امتیازی اُور خصوصی شناخت نہیں! ’’اُس کی ہر بات پہ لبیک بھلا کیوں نہ کہیں۔۔۔ جیسے دیوار میں چنوائے گئے لوگ ہیں ہم: جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے۔۔۔جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم! (قتیل شفائی)‘‘
امریکہ کی حقیقت یہ ہے کہ رشتے‘ تعلقات اور ایک دوسرے کا احساس کرنے والے عمومی جذبات جن کی وجہ سے مصلحتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ اُن سے عاری ’ہجوم‘ نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے کہ انواع و اقسام کی اقوام‘ عقائد اور معاشرتی نظریاتی رکھنے کے باوجود بقاء و ترقی کے دارومدار صرف اور صرف اِس بات سے ہے کہ بس ’اپنے کام سے کام رکھا جائے اُور یہی امریکہ کی ترقی کا ’خلاصہ (لب لباب‘ نچوڑ‘ اُور پورا بیان)‘ ہے!
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بیرون ملک صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والے اپنے آبائی ملک کو معاشرے کو سنوارنے کے لئے خاطرخواہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس کی وجہ سیاسی و انتظامی قیادت کی خودغرضی ہے جنہوں نے اپنی نسلوں کا مستقبل بیرون ملک سرمایہ کاری کے ذریعے محفوظ بنا رکھا ہے اور قوم کے ہر بچے کو ’حب الوطنی کی گھٹی‘ صبح دوپہر شام پلائے جا رہے ہیں۔ قدرت کی عطاکردہ سبھی عنایات جو 98 لاکھ 26 ہزار 675 مربع کلومیٹر پر پھیلی پچاس ریاستوں اور ایک دارالحکومت پر مشتمل‘ آبادی کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک میں ترقی یافتہ شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ پاکستان کے محض 8 لاکھ 3 ہزار 940 کلومیٹر رقبے میں موجود ہیں لیکن ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پن بجلی کے پیداواری امکانات ہیں لیکن بڑے منصوبے سیاست اور چھوٹے منصوبے فیصلہ سازوں کی لالچ کی نذر ہیں! کوئلے کے ذخائر‘ تیز ہواؤں والی ساحلی پٹی‘ زرخیز مٹی‘ چلچلاتی دھوپ والا ریگستانی رقبہ‘ دریا‘ چشمے‘ برفانی تودوں سے ڈھکے ہوئے بلندوبالا برفیلے پہاڑ‘ معدنیات سے روشنی منعکس کرنے والے سنگلاخ پہاڑی سلسلے‘ تیل و گیس اور شیل گیس کے ذخائر‘ سرسبزوشاداب وادیاں‘ اُجاڑ گھاٹیاں‘ بیک وقت چار موسم‘ میٹھے‘ ہلکے اور بھاری پانی سمیت وہ سب کچھ موجود ہے‘ جسے ترقی دے کر قابل استفادہ بنایا جاسکتا ہے لیکن ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ حل کرنے کی بجائے فیصلہ سازوں نے قوم کو اُس ڈھلوان کے نزدیک لاکھڑا کیا ہے جس کی ’بحرانی پھسلن‘ پر قدم جمانا صرف مشکل ہی نہیں رہا بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہوگیا ہے۔
فرقہ واریت‘ سیاسی و سماجی امتیازات و تعصب‘ رنگ و نسل پر مبنی سیاسی‘ غیرسیاسی اُور انتخابی ترجیحات‘ مالی و انتظامی بدعنوانیاں‘ غیرپائیدار ترقی اور تعمیر و ترقی کی حکمت عملیاں طے کرتے ہوئے ’زیادہ سے زیادہ نیک نامی‘ کمانے کے لئے جزوقتی فیصلوں نے ملک کو مقروض اور قوم کو ایک ایسے نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیا ہے جس میں ہر کوئی دوسرے سے کسی نہ کسی سبب الجھ رہا ہے۔ وہاں ہر کسی کو اپنے کام سے کام اور ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے کے معاملات‘ نجی زندگی اُور مصروفیات کے بارے میں مزید سے مزید کچھ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ تعمیراتی منصوبوں پر ہر سال (بجٹ در بجٹ) اربوں روپے خرچ کرنے سے ’قوم کی تقدیر‘ سوچ‘ رویئے اُور عمل‘ تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے بہترطرز حکمرانی (گڈ گورننس) کا ہدف مقرر کرکے اسے حاصل کرنے کے لئے اپنی ذات قربانی کے لئے پیش کرنا ہوگی۔ جب تک قیادت اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر مربوط شعوری طور کوشش کرنے پر رضامند ہونے اور قوم کو یہ باور و ترغیب نہیں دیتی کہ ہر ایک بس ’اپنے کام سے کام رکھے!‘ اُس وقت تک ہماری باصلاحیت‘ صحتمند و تندرست افرادی قوت‘ عزیزواقارب‘ ہمارے بہترین دوست یونہی غیر ممالک کی ترقی و خوشحالی میں حصہ دار بنتے رہیں گے۔
شعور کی منزل پر کیا ہم ایسے کسی ’دیار غیر‘ میں ’خاک‘ ہونا پسند کریں گے جہاں سب کی ایک جیسی قومی شناخت ہے‘ لیکن درحقیقت کسی کی بھی کوئی امتیازی اُور خصوصی شناخت نہیں! ’’اُس کی ہر بات پہ لبیک بھلا کیوں نہ کہیں۔۔۔ جیسے دیوار میں چنوائے گئے لوگ ہیں ہم: جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے۔۔۔جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم! (قتیل شفائی)‘‘
![]() |
Secret of greatness behind the US society and why we are fail to have such peace around |
No comments:
Post a Comment