Tuesday, July 14, 2015

July2015: Cosmetic measures by Traffic Police!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پہلی ضرورت: آخری حل!
کون نہیں جانتا کہ گرمی کی شدت اور بجلی کی کمی سے سبب پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں کس حد تک متاثر ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں الگ سے ماند جبکہ اِن برسرزمین حقائق سے متصادم ’خیبرپختونخوا ٹریفک پولیس‘ کی جانب سے مختلف اضلاع میں نصب کئے جانے والے ’الیکٹرانک اطلاعیہ بورڈز‘ ہیں‘ جن پر نمودار ہونے والے پیغامات چلچلاتی دھوپ میں نہ تو تیز روشنی میں باآسانی پڑھے جاتے ہیں اُور نہ ہی گرمی کے ستائے ہوئے ایسی ہدایات پر توجہ دیتے ہیں‘ جن کا تعلق اُن کی عملی زندگی یا مشکلات سے نہیں! سوال یہ ہے کہ اِس قسم کی فیصلہ سازی کون کرتا ہے جس میں ’بجلی بحران‘ سمیت اُن زمینی حقائق کا بھی ادراک نہیں کیا گیا کہ ہمارے ہاں احتجاج کرنے والے مہذب طور طریقے اختیار نہیں کرتے۔ اُن کے ہاتھوں میں ڈنڈے‘ اینٹیں اور پتھر نجانے کہاں سے آ جاتے ہیں اور پھر وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو بے رحمی سے توڑتے چلے جاتے ہیں۔ اِس طرح توڑ پھوڑ کے ذریعے دل کا غبار نکالنے والے جب تھک جاتے ہیں تو اچانک آنسو گیس اُور لاٹھیوں سے لیس پولیس آ جاتی ہے اور بجائے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفتار کرنے کے اُنہیں منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ہر ایک چھوٹے بڑے احتجاج کی یہی کہانی ہے کہ اس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے سختی نہیں کی جاتی۔ اگر صرف ایک مرتبہ ہی ایسے عناصر کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں اور جرمانے عائد کئے جائیں تو آئندہ کسی دوسرے کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں ہوگی لیکن چونکہ مصلحتوں کی وجہ سے سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا اِس لئے پشاور شہر کی حدود میں جہاں کہیں ٹریفک سگنلز موجود ہوا کرتے تھے‘ اُن کے اب آثار ہی دکھائی دیتے ہیں! معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ہم کسی ترقیاتی حکمت عملی پر اُٹھنے والے اخراجات اور اِن کی شفافیت کے بارے میں جان سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فیصلہ کس نے کیا اور کیا اس میں کہیں سیاسی دباؤ کا عمل دخل بھی شامل حال تھا!؟

آخر اِس قدر نازک و مہنگے ذرائع (الیکٹرانک بورڈز) سے استفادہ اور ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کرنے سے متعلق پیغامات کی تشہیر کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ عوام و خواص کو ٹریفک کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا علم نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ ’قانون شکنی‘ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمیں ٹریفک سگنل توڑنے میں مزا آتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی اُوقات کے مطابق ’قانون شکن‘ ہے اور یہ بات صرف ٹریفک (آمدورفت) تک ہی محدود نہیں رہی۔ آپ کو وہیں گاڑی کھڑی (پارک) ملے گی‘ جہاں ’نو پارکنگ‘ کا بورڈ لگا ہوگا۔ یک طرفہ ٹریفک کا یک طرفہ تماشا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں! گندگی کے ڈھیر بھی وہیں لگتے ہیں کہ جہاں لکھا ہو ’’یہاں گندگی پھینکنا منع ہے!‘‘ اُور چونکہ ٹریفک اہلکاروں کو قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے میں سے ایک خاص تناسب سے ’کمیشن‘ دیا جانے لگا ہے‘ اِس لئے اہلکاروں کی اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک خطیر ماہانہ تنخواہ پر اکتفا کرنے کی بجائے جلد از جلد اپنی جائز و ناجائز آمدنی کے ’ٹارگٹ (اہداف)‘ حاصل کریں۔ سوال یہ ہے کہ جو ٹریفک اہلکار دھوپ میں جلتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں اگر وہ قواعد کی خلاف ورزیوں پر ہونے والے جرمانوں سے ’کمیشن‘ اور دیگر ذرائع سے یومیہ کچھ پس و پیش کرتے ہیں تو اس کے عوض اپنی جان جوکھوں میں بھی ڈالتے ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھے ہوئے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام کس وجہ سے حصہ بصورت بھتہ وصول کرتے ہیں؟

پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اَضلاع میں ٹریفک نظام کی اِصلاح کے لئے پہلی ضرورت ٹریفک سگنلز (اشارے) نصب کرنے کی ہے جو شمسی توانائی سے چلنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دوسری ضرورت حد رفتار ناپنے کے آلات اور خودکار کیمروں کی تنصیب ہے‘ جن کے ذریعے بلاامتیاز ہر تیز رفتار گاڑی کو چالان (جرمانہ) کیا جا سکے گا۔ تیسری ضرورت عمومی ٹریفک سائن بورڈز‘ زیبرا کراسنگ اُور مصروف چوراہوں کے علاؤہ بھی ٹریفک کانسٹیبلز کی تعیناتی کے لئے انسانی وسائل کی کمی دور کرنے سے متعلق ہے کیونکہ جہاں ٹریفک کانسٹیبل موجود نہ ہو‘ وہاں دیکھی جانے والی افراتفری سے عمومی تہذیب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چوتھی ضرورت بناء ڈرائیونگ لائسینس ٹریفک کی حوصلہ شکنی ہے‘ جس کے لئے ’بائیو میٹرک تصدیق‘ کا استعمال ہونا چاہئے۔ پانچویں ضرورت تجاوزات کا خاتمہ کرنے کے بعد تعمیروترقی کا دوسرا مرحلہ مکمل کرنے کی ہے‘ جس میں تاخیر کی وجہ سے ایک تو پشاور کے چند علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں اور تجاوزات سے زیادہ اُن کا ملبہ ٹریفک کی روانی میں حائل ہو رہا ہے۔ بچوں میں ٹریفک قواعد کے بارے شعور اُجاگر کرنے کی حکمت عملی پھر سے فعال ہونی چاہئے اور اس میں ایک آدھ سبق نصاب میں بھی شامل کردیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے ٹریفک کا نظام درست کرنے کی کوئی ایک تدبیر‘ کوئی ایک حربہ‘ کوئی ایک حل حسب حال یا کافی نہیں۔ اِس کے لئے جامع اور بیک وقت کئی ایک اقدامات کرنا ہوں گے لیکن وسائل ضائع کرنے کی بجائے ایسی پائیدار حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں رنگ برنگے اور نمائشی وقتی‘ نازک و مہنگے انتظامات سے زیادہ ’پائیداری‘ پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔
The mess of traffic can only be resolve when address the needs not cosmetic initiatives

No comments:

Post a Comment