Monday, July 13, 2015

Jul2015: Media Management in Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دانائی کے تقاضے
اجتماعی ’جلد بازی‘ کا شاخسانہ ہے کہ ہم دوسروں کی تقلید پہلے اُور اپنے سماج کی اقدار و روایات کے بارے میں صرف اُس وقت سوچنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں‘ جب حد‘ حد نہیں رہتی اُور ’ابلتا ہوا پانی‘ سر سے گزر چکا ہوتا ہے! الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پہلے جو غوروخوض ہونا چاہئے تھا‘ وہ اب ہو رہا ہے کہ یہ کس طرح ایک ایسے معاشرے پر اثرانداز ہورہا ہے جہاں تعمیر و ترقی اور سہولیات کا معیار یکساں نہیں۔ جہاں صاف ستھری کشادہ شاہراہیں ہیں تو دوسری طرف کچی گلیاں کوچے‘ ٹوٹی ہوئی نالیاں۔ سکولوں کی خستہ حال عمارتوں کو نظرانداز جبکہ نمائشی و آسائشی تعمیراتی منصوبوں پر توجہات مرکوز ہیں۔ سرکاری خزانے کے خرچ سے شاندار عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ حکومت اِس لئے پریشان نہیں کہ اُس کے ہاں پچاس فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جارہے اور نہ ہی معیاری تعلیم و علاج کی سہولیات میسر ہیں جبکہ غربت‘ جہالت اور سب سے بڑھ کر غیرہموار سماجی ترقی نے رہی سہی کسر نکال رکھی ہے!

اِس موڑ پر ذرا تحمل کیجئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اگر نجی اداروں کو ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے کی اجازت دینا ہی تھی تو اجازت نامے کے ساتھ ’جامع ضابطۂ اخلاق‘ شروع دن سے مشروط ہونا چاہئے تھا۔ کئی ایسے معاشروں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود تھیں جہاں کے کم و بیش ہم جیسے ہی حالات میں ذرائع ابلاغ زیادہ مثبت و تعمیری کردار اَدا کر رہے ہیں۔ دوسری بنیادی بات ’کیبل نیٹ ورکس‘ کے قیام کی اجازت تھی‘ جسے مصلحت کی وجہ سے چند برس تاخیر سے شروع کیا جاتا اور نگرانی کی جاتی کہ ’ذرائع ابلاغ‘ ضابطۂ اخلاق کی پابندیوں پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور تیسری بنیادی بات یہ تھی کہ نجی اِداروں کو ٹیلی ویژن یا ایف ایم ریڈیو کے ’کراس میڈیا اجازت نامے‘ اُس وقت نہ دیئے جاتے جب تک اس شعبے میں خاطرخواہ ’نئی سرمایہ کاری‘ نہ آ جاتی۔ اب ہوا یہ ہے کہ پہلے سے صحافت یا انٹرٹینمنٹ کا تجربہ رکھنے والوں کی ایک ایسی اجارہ داری بن گئی ہے کہ وہ اب نہ تو کسی ’غیرمتعلقہ‘ سرمایہ کار کو اِس شعبے میں آنے دیتے ہیں اور علاؤہ ازیں اُنہوں نے ہر کھڑکی‘ دروازے‘ حتیٰ کہ روشندان تک پر ’پہرے‘ بٹھا دیئے ہیں! معیار کو متاثر کرنے والی یہ مقابلے کی ایک ’صحت مند فضا‘ ہے‘ جس کے منفی اثرات اپنی جگہ انتہائی تخریبی تاثیر رکھتے ہیں۔ کسی اُور لمحۂ فکر کے پر اِس حوالے سے دیگر پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ سردست قضیہ حکومت اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے درمیان معرکۂ انگیز مشاورتی عمل کا ہے جس سے متعلق یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک وسیع ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کر لیا گیا ہے تاہم جس بات کو قدرے اِختصار سے بیان کیا جاتا ہے وہ ’اختلافی نوٹ‘ ہے یعنی ’ضابطۂ اخلاق‘ پر اتفاق تو ہوا ہے لیکن تین اہم مسائل پر ’اختلاف‘ طے ہونا اَبھی باقی ہے! اگر دونوں فریقین ان مسائل کے حل میں کامیاب ہوگئے تو ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا اَتھارٹی (پیمرا)‘ کی جانب سے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر اُو) کے ذریعے اِس ’ضابطۂ اخلاق‘ کا اعلان کردیا جائے گا۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا یعنی ’عمل درآمد‘ کون کرائے گا؟ ذرائع کے مطابق یہ اختلافات فحاشی کی تعریف‘ مجرمانہ واقعات کی نشریات اور غیرملکی مواد کا مقامی میڈیا نیٹ ورک میں استعمال اور اس کا کنٹرول کے معاملات پر ہیں! یہ تینوں انتہائی حساس معاملات ہیں اور تینوں کا تعلق پاکستان کے داخلی و خارجی استحکام سے بھی ہے!

ایک رپورٹ کے مطابق ایسے مواد کے لئے جنہیں نشر (ٹیلی کاسٹ) کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ ان سے متعلق نجی اداروں کے نمائندوں کو لفظ ’فحش‘ کی ’’وسیع تعریف‘‘ پر تحفظات ہیں۔ اصرار ہے کہ نشریات سے روکے جانے والے مواد کے لئے ’فحاشی‘ کی ’وسیع تعریف‘ متفقہ طور پر طے ہونی چاہئے‘ جو مختلف بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لئے مختلف ہوسکتی ہے۔ نجی میڈیا اداروں کا مطالبہ ہے کہ فحاشی کو ضابطۂ اخلاق کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔(اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعْون)۔

حکومت ’مجرمانہ واقعات‘ کی ڈرامائی تشکیل و نشریات کی مخالف ہے لیکن یہ کہا گیا کہ جرائم پر مبنی کہانیوں کو صرف اس صورت میں نشر کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ جب وہ مطلوبہ کسوٹی پر پورا اُترتا ہوا‘ اُور پاکستان کے اُوقات کے مطابق ’علی الصبح‘ کے بعد اور ’آدھی رات‘ سے قبل نشر نہ کئے جائیں۔ نجی نشریاتی ادارے خواہش رکھتے ہیں کہ اس طرح کے پروگرام صرف گیارہ بجے رات اور صبح سات بجے کے درمیان نشر کیے جائیں۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اپنی طاقت اور تعلقات سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے کہ مسودے سے سیکشن اُنیس کو خارج کردیا جائے اور ایسا کرنے کی دلیل یہ ہے کہ میڈیا کے مفادات کا تحفظ ضابطۂ اخلاق کا موضوع نہیں ہونا چاہئے! اِس متفقہ مسودے کے تحت ایسا کوئی بھی مواد جو اسلامی اقدار‘ نظریۂ پاکستان اُور بانیان پاکستان (قائداعظم اور علامہ اقبال) کے خلاف ہو یا وفاق یا اس کی سالمیت‘ سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف اسلحہ اُٹھانے کا اعلان یا کسی مذہب‘ فرقے یا برادری کی توہین اُور انتشار پیدا کرنے سے متعلق ہو تو ایسا مواد نشر نہیں کیا جائے گا۔ ٹی وی چینلز ایسا مواد نشر نہ کرنے کے بھی پابند ہوں گے‘ جن کے ذریعے عدلیہ یا مسلح افواج کی توہین ہوتی ہو! اب یہ طے کرنا بھی باقی ہے کہ کوئی ادارہ اپنی توہین کے معاملے میں کتنا حساس ہے اور وہ کس بات کو توہین کے زمرے میں شمار کرنے لگتا ہے۔

نشہ آور مشروبات‘ تمباکو نوشی یا اس کی مصنوعات‘ غیرقانونی ادویات یا منشیات کے اشتہارات نشر نہ کرنا بھی نئے ضابطۂ اخلاق کا حصہ ہے اور مشتہرین کو یہ اجازت بھی نہیں ہوگی کہ وہ براہِ راست بچوں کو کسی چیز کے خریدنے کی ترغیب دیں! نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت لاٹری‘ جوا‘ کالا جادو‘ توہم پرستی اور نیم حکیموں کے اشتہارات ممنوع ہوں گے۔ ہر ایک لائسینس ہولڈر ’پیمرا‘ کو مطلع کرتے ہوئے ایک اندرونی نگران کمیٹی مقرر کرے گا‘ جو ضابطۂ اخلاق کے احترام کی نگرانی اور نفاذ کو یقینی بنائے گی کیا ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت مذکورہ کمیٹی کے اراکین گرفت میں آئیں گے جبکہ مالکان کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے؟
یہ تو ہوا وہ ضابطۂ اخلاق جو طے ہوا لیکن ابھی لاگو ہونا باقی ہے لیکن سردست اُس ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ سروسیز کے بارے میں کوئی بات کرنا پسند نہیں کر رہا جو بھارت سے نشر ہوتی ہیں اور پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ پچاس لاکھ صارف بھارت کے تین معروف اداروں کی نشریات دیکھنے کے لئے ہر ماہ اوسطاً ایک ہزار روپے ادا کر رہے ہیں! تصور کیجئے کہ (150,000,000) یہ کس قدر بڑی رقم ہے اور اِس میں کتنے فیصلہ سازوں کی ’حصہ داری‘ ہوگی۔

مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف پاکستان کے اپنے ذرائع ابلاغ کے لئے ضابطۂ اخلاق کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اُور انہیں غیرملکی نشریات کم سے کم دکھانے کا پابند بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف بھارت جیسے ملک کو اربوں روپے ماہانہ منتقل ہو رہے ہیں لیکن یہی آمدنی اگر پاکستان کے اپنے نجی ٹیلی ویژن چینل حاصل کرنا چاہیءں تو نئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اُنہیں محدود وقت کے لئے ایسا کرنے کی اجازت ہوگی! اصلاح اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک پابندی کا معیار ایک جیسا مقرر نہیں کیا جاتا۔ ایک جیسا‘ بلکہ بالکل ایک جیسا۔’’پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو۔۔۔ حسن والوں کی سادگی نہ گئی!‘‘
Media management through mismanagement is root cuase of many evils in #Pakistan

No comments:

Post a Comment