ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
صبح‘ دوپہر اور لمبی شام!
صبح‘ دوپہر اور لمبی شام!
سیاسی بیانات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ صبح‘ دوپہر اور نہ ختم ہونے
والی شام کے اوقات میں شعوری زندہ رہنے والوں کو ہر دن‘ بلکہ ہر پل کسی نہ
کسی رہنما کا کوئی نہ کوئی بیان نہ چاہتے ہوئے بھی ہضم کرنا پڑتا ہے لیکن
چند ایک بیانات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذہن سے گویا چپک کر اُن کی گونج ہمیں
پریشان رکھتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سوچتے ہیں یا خود کو نہ سوچنے سے
روکتے ہیں۔ بیانات سطحی بھی ہوتے ہیں اُور اِس قدر گہرے بھی کہ اُن کی
حقیقت پر جس قدر زیادہ سوچا جائے‘ اُتنے ہی نت نئے پہلو اُور معانی ظاہر
ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بیان پندرہ جون کو اُس وقت سامنے آیا جب
خیبرپختونخوا کے لئے نئے مالی سال کا بجٹ صوبائی اسمبلی کے اراکین کے سامنے
پیش کیا جارہا تھا اور یہ مناظر ٹیلی ویژن چینلوں نے براہ راست نشر کئے۔
ایک موقع پر مظفر سید نے کہا کہ ’’خیبرپختونخوا میں اَمن و اَمان کی بحالی
کے بعد حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی آبادی کو کسی طرح کنٹرول
کرنا ہے۔‘ اپنے اِس بیان کی تائید میں انہوں نے کچھ اعدادوشمار بھی پیش کئے
جیسا کہ خیبرپختونخوا کی 30فیصد آبادی کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اور
آبادی کا یہی بڑا حصہ صحت و تعلیم کے شعبے میں فراہم کی جانے والی سہولیات
اور ہرسال مختص کئے جانے والے اضافی مالی وسائل و عملی کوششوں کو ناکافی
بنا رہا ہے۔
صوبائی محکمۂ بہبود آبادی کے مرتب کردہ اعدادوشمار (جنہیں اُن کی ویب سائٹ سے بلاقیمت حاصل کیا جا سکتا ہے) کے مطابق خیبرپختونخوا میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 2.05 فیصد ہے اور اگر ہم پاکستان کی سطح پر اِس غیرمعمولی شرح نمو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں یہ شرح نمو سب سے زیادہ ہے! سرکاری دستاویزات میں اس کی وجہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ تحریر کی گئی ہے کہ خواتین میں شرح خواندگی میں کمی ہے کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں۔ قبائلی روایات کے مطابق زیادہ بڑے خاندان کو ضروری سمجھا جاتا ہے‘ مذہبی رجحانات رکھنے والے بہبود آبادی کے تصورات اور عملی طریقوں کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ عمل بالکل انسداد پولیو کے خلاف پائی جانے والی سوچ کی طرح ایک بڑے طبقے کی سوچ ہے۔ بہبود آبادی سے متعلق مذہبی احکامات اُور تعلیمات کی وضاحت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے کم بچے ہونا ایک غیرشرعی و غیراسلامی فعل محسوس کیا جاتا ہے۔ نرینہ اولاد کی زیادہ سے زیادہ خواہش اور بیٹیوں پر ترجیح کے سبب بھی آبادی بڑھ رہی ہے۔ علاؤہ ازیں خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع جیسا کہ کوہستان اُور تورغر (کالا ڈھاکہ) میں آبادی کی شرح نمو زیادہ ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ حکومتی توجہ ایسے دوردراز اضلاع کی جانب مرکوز نہیں اور جب اِن نظرانداز اضلاع میں بہبود آبادی کے حکومتی ادارے لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو اُن کی بات پر دھیان دینے والے کم اور اُن سے کم عمل کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ اعتماد کی کمی ہے۔ حکومت پر عوام کا اعتماد اگر کم ترین نہیں تو اُس حد پر ضرور معلق ہے‘ جہاں سے ارتقاء ممکن نہیں۔
خیبرپختونخوا کی غربت‘ پسماندگی اُور مسائل در مسائل گھمبیر خرابئ حالات کی شدت میں اضافہ ’پے در پے‘ قدرتی آفات‘ شورش اُور تنازعات کی وجہ سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر سال 2010ء کے سیلاب اور فوجی کاروائی کی وجہ سے قبائلی علاقوں سمیت مختلف اضلاع سے لوگوں نے نقل مکانی کی۔ حکومت کو اِن لاکھوں افراد کی ضروریات پوری کرنا پڑیں۔ آبادی کے مراکز سے الگ خیمہ بستیاں بنائی گئیں‘ نقل و حرکت کو محدود سے محدود رکھتے ہوئے عارض قیام گاہوں میں اشیائے خوردونوش اور مکینوں کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنا ہی پہلی ترجیح تھی۔ جب سارے وسائل اور کوششیں بیک وقت لاکھوں افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خرچ ہونے لگیں تو غیرمحسوس طور پر ’بہبود آبادی‘ ترجیحات کی فہرست میں نیچے جاتی چلی گئی اور ایسی خیمہ بستیوں میں انسانی شرح نمو کی شرح میں دیگر اضلاع کے مقابلے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن محکمۂ بہبود آبادی کا کہناہے کہ ’’صورتحال اِس قدر مایوس کن یا تشویشناک بھی نہیں۔ مثال کے طور پر سال 2007ء کے دوران اگر ہر ایک سو افراد میں سے پچیس تک بہبود آبادی کی خدمات پہنچائی جاتی تھیں تو سال 2013ء کے دوران یہ تعداد اٹھائیس تک جا پہنچی یعنی آبادی کے زیادہ بڑے حصے تک چھوٹا خاندان رکھنے کی معلومات اور مانع حمل کی مفت ادویات یا طریقے پہنچائے گئے۔ ذرائع ابلاغ کا استعمال الگ سے وسیع پیمانے پر کیا گیا اور شہری و دیہی علاقوں کے رہنے والوں تک ’پبلک مقامات پر تشہیری مہمات‘ کے ذریعے پیغامات پہنچائے گئے۔‘‘
اِس لمحۂ فکریہ پر کچھ دیر رک کر سوچیں کہ آخر ہم یہ طے کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں کہ زیادہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی انسانی شرح نمو یا پندرہ برس تک عمر پر مشتمل تیس فیصد آبادی! آبادی کا اگر ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے تو اِن انسانی وسائل سے بہتر استفادہ بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے رقبے موجود ہیں جہاں زراعت نہیں ہوتی تو ہم زرعی شعبے کو وسعت دے سکتے ہیں جس کے لئے زیادہ انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ ہیومن ریسورس سے انقلابی اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن مسئلہ فنی و تکنیکی تربیت (ہنرمندی) کا ہے۔ ہمارے ہاں بہبود آبادی کو معنوی اعتبار سے محدود کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہی سبب ہے کہ اِس غفلت پر مبنی فکروعمل سے پیدا ہونے والی خرابیاں وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا فیصلہ سازوں نے معاشرے کو صحت مند تفریحی مواقعوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ایسی رضاکار مہمات شروع کی گئیں جن میں نوجوانوں کا دھیان اُن کی اپنی اپنی ذات میں چھپی ہوئی صلاحیتوں پر مرکوز ہو سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے تعلیم کو نصاب کی حد تک محدود کرتے ہوئے اِس سے تربیت کے لازمی جز کو الگ کر دیا ہو؟
صوبائی محکمۂ بہبود آبادی کے مرتب کردہ اعدادوشمار (جنہیں اُن کی ویب سائٹ سے بلاقیمت حاصل کیا جا سکتا ہے) کے مطابق خیبرپختونخوا میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 2.05 فیصد ہے اور اگر ہم پاکستان کی سطح پر اِس غیرمعمولی شرح نمو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں یہ شرح نمو سب سے زیادہ ہے! سرکاری دستاویزات میں اس کی وجہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہ تحریر کی گئی ہے کہ خواتین میں شرح خواندگی میں کمی ہے کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں۔ قبائلی روایات کے مطابق زیادہ بڑے خاندان کو ضروری سمجھا جاتا ہے‘ مذہبی رجحانات رکھنے والے بہبود آبادی کے تصورات اور عملی طریقوں کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ عمل بالکل انسداد پولیو کے خلاف پائی جانے والی سوچ کی طرح ایک بڑے طبقے کی سوچ ہے۔ بہبود آبادی سے متعلق مذہبی احکامات اُور تعلیمات کی وضاحت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے کم بچے ہونا ایک غیرشرعی و غیراسلامی فعل محسوس کیا جاتا ہے۔ نرینہ اولاد کی زیادہ سے زیادہ خواہش اور بیٹیوں پر ترجیح کے سبب بھی آبادی بڑھ رہی ہے۔ علاؤہ ازیں خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع جیسا کہ کوہستان اُور تورغر (کالا ڈھاکہ) میں آبادی کی شرح نمو زیادہ ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ حکومتی توجہ ایسے دوردراز اضلاع کی جانب مرکوز نہیں اور جب اِن نظرانداز اضلاع میں بہبود آبادی کے حکومتی ادارے لوگوں کو کم بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو اُن کی بات پر دھیان دینے والے کم اور اُن سے کم عمل کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ اعتماد کی کمی ہے۔ حکومت پر عوام کا اعتماد اگر کم ترین نہیں تو اُس حد پر ضرور معلق ہے‘ جہاں سے ارتقاء ممکن نہیں۔
خیبرپختونخوا کی غربت‘ پسماندگی اُور مسائل در مسائل گھمبیر خرابئ حالات کی شدت میں اضافہ ’پے در پے‘ قدرتی آفات‘ شورش اُور تنازعات کی وجہ سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر سال 2010ء کے سیلاب اور فوجی کاروائی کی وجہ سے قبائلی علاقوں سمیت مختلف اضلاع سے لوگوں نے نقل مکانی کی۔ حکومت کو اِن لاکھوں افراد کی ضروریات پوری کرنا پڑیں۔ آبادی کے مراکز سے الگ خیمہ بستیاں بنائی گئیں‘ نقل و حرکت کو محدود سے محدود رکھتے ہوئے عارض قیام گاہوں میں اشیائے خوردونوش اور مکینوں کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنا ہی پہلی ترجیح تھی۔ جب سارے وسائل اور کوششیں بیک وقت لاکھوں افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خرچ ہونے لگیں تو غیرمحسوس طور پر ’بہبود آبادی‘ ترجیحات کی فہرست میں نیچے جاتی چلی گئی اور ایسی خیمہ بستیوں میں انسانی شرح نمو کی شرح میں دیگر اضلاع کے مقابلے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن محکمۂ بہبود آبادی کا کہناہے کہ ’’صورتحال اِس قدر مایوس کن یا تشویشناک بھی نہیں۔ مثال کے طور پر سال 2007ء کے دوران اگر ہر ایک سو افراد میں سے پچیس تک بہبود آبادی کی خدمات پہنچائی جاتی تھیں تو سال 2013ء کے دوران یہ تعداد اٹھائیس تک جا پہنچی یعنی آبادی کے زیادہ بڑے حصے تک چھوٹا خاندان رکھنے کی معلومات اور مانع حمل کی مفت ادویات یا طریقے پہنچائے گئے۔ ذرائع ابلاغ کا استعمال الگ سے وسیع پیمانے پر کیا گیا اور شہری و دیہی علاقوں کے رہنے والوں تک ’پبلک مقامات پر تشہیری مہمات‘ کے ذریعے پیغامات پہنچائے گئے۔‘‘
اِس لمحۂ فکریہ پر کچھ دیر رک کر سوچیں کہ آخر ہم یہ طے کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں کہ زیادہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی انسانی شرح نمو یا پندرہ برس تک عمر پر مشتمل تیس فیصد آبادی! آبادی کا اگر ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے تو اِن انسانی وسائل سے بہتر استفادہ بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے رقبے موجود ہیں جہاں زراعت نہیں ہوتی تو ہم زرعی شعبے کو وسعت دے سکتے ہیں جس کے لئے زیادہ انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ ہیومن ریسورس سے انقلابی اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن مسئلہ فنی و تکنیکی تربیت (ہنرمندی) کا ہے۔ ہمارے ہاں بہبود آبادی کو معنوی اعتبار سے محدود کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہی سبب ہے کہ اِس غفلت پر مبنی فکروعمل سے پیدا ہونے والی خرابیاں وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا فیصلہ سازوں نے معاشرے کو صحت مند تفریحی مواقعوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ایسی رضاکار مہمات شروع کی گئیں جن میں نوجوانوں کا دھیان اُن کی اپنی اپنی ذات میں چھپی ہوئی صلاحیتوں پر مرکوز ہو سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے تعلیم کو نصاب کی حد تک محدود کرتے ہوئے اِس سے تربیت کے لازمی جز کو الگ کر دیا ہو؟
No comments:
Post a Comment