ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کارآمد: اعزاز و کردار!
کارآمد: اعزاز و کردار!
یوں لگتا ہے کہ ہر کسی کو ’محض‘ بلدیاتی اِداروں کے لئے عام اِنتخابات کے
اِنعقاد کی جلد ی تھی۔ فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کو نچلی سطح پر شریک کرنے
کے لئے دیگر چھاؤنیوں کی طرح پشاور کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔
اِنتخابات کو ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں لیکن نومنتخب ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ اَaراکین
کا پہلا اِجلاس نہیں بلایا جا سکا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے کنٹونمنٹ بورڈ
کے اراکین اِس تاخیر سے خوش نہیں کیونکہ کامیابی کے بعد سے نہ تو اُن کی
حلف برداری ہوئی ہے اُور نہ ہی باقاعدہ طور پر اُنہیں مل بیٹھ کر فیصلہ
سازی یا غوروخوض کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ نومنتخب اَراکین میں اِس بات پر
اِتفاق پایا جاتا ہے کہ اِجلاس طلب کرنے میں تاخیر کی وجہ سے وہ عوام کی
توقعات پر پورا نہیں اُتر رہے بلکہ چند ایک نے تو یہ بھی کہا کہ کنٹونمنٹ
بورڈ کے انتخابات ’خانہ پُری‘ تھے جن کا اِنعقاد کرنے سے زیادہ پیشرفت نہیں
ہوئی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سرکاری ملازمین
کا شاہانہ مزاج ہے جو اپنے اختیارات کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے!
کیا ہم جعلی نمائندے ہیں؟ اگر ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا تو پھر ہمارے اِنتخاب کا عملی مقصد کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن اُمیدواروں کے کامیاب ہونے کی آس لگائی گئی تھی وہ جیت نہیں سکے اُور اَب اِنتظامیہ دیگر نمائندوں کو توجہ نہیں دے رہی؟‘‘ عوام سے ووٹ مانگنے والے خود کو بڑی مشکل میں محسوس کر رہے ہیں اور اَگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ’نومنتخب‘ سماجی و سیاسی کارکنوں کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا اُور وہ آئندہ انتخابات کے موقع پر مخالفین کی کڑی تنقید کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ یاد رہے کہ ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ اراکین کے چناؤ کے لئے عام انتخابات اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد پچیس اپریل کے روز منعقد ہوئے‘ جن کے نتائج کا اعلان انتخابات کے تین دن کر دیا گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے لئے تحریک اِنصاف نے دو‘ جماعت اِسلامی اُور پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پر کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار نے بعد میں جماعت اِسلامی میں شمولیت اِختیار کر لی تھی اور پھر اُنہی کے سر کنٹونمنٹ بورڈ کے ’وائس چیئرمین‘ کا سہرا سجا۔
قواعد کے مطابق چودہ اَراکین پر مشتمل ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کے سات اراکین بذریعہ اِنتخابات منتخب ہوتے ہیں جبکہ چھاؤنی کے معاملات بارے سات فوجی اہلکار ہوتے ہیں۔ ان نمائندوں کا چیئرمین بریگیڈئر عہدے کا فوجی اِہلکار ہوتا ہے‘ جبکہ گریژن (چھاؤنی) انجنیئر اُور چار دیگر فوجی اہلکاروں پر مشتمل بورڈ کے پہلے اجلاس میں تاخیر کی وجہ چار فوجی اہلکاروں کا تبادلہ بتایا جاتا ہے‘ جن کی خدمات وزارت دفاع کو منتقل کر دی گئی ہیں اُور اِس سسلسلے میں وزارت دفاع کو ایک مکتوب کے ذریعے آگاہ کیا جاچکا ہے کہ جب تک اُن کی جگہ دیگر اہلکاروں کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ بالحاظ عہدہ اُن کی رکنیت قواعد کی رو سے مکمل نہیں ہو سکتی! پہلے اِجلاس کی تاخیر کے باعث پشاور کے ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کی حدود میں ترقیاتی عمل رُکا ہوا ہے اُور کئی ایک ایسے منصوبے ہیں جن پر کام فوری طور پر شروع ہونا چاہئے لیکن اِس کے فیصلے کا اختیار بورڈ کے پاس ہے‘ جس کا اِجلاس تکنیکی وجوہات کی بناء پر طلب نہیں کیا جاسکتا۔ اِس سلسلے میں اُمید کا اظہار کیا گیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران (عیدالفطر کے بعد) کنٹونمنٹ بورڈ اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال اُمید پر دنیا قائم ہے اور جہاں ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر گیا وہیں مزید دو یا تین ہفتوں کا بھی پتہ نہیں چلے گا لیکن اگر کنٹونمنٹ بورڈ کے سرکاری اَراکین کی تنخواہیں اور مراعات ’بورڈ‘ کے اجلاس سے مشروط ہوتیں تو انتخابات کے اگلے ہی روز ’وائس چیئرمین‘ کا انتخاب ہو چکا ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کی نہ تو سرکاری اہلکاروں کے دل میں جگہ ہے اُور نہ ہی اُن نمائندہ ایوانوں میں‘ جہاں کی رکنیت کے لئے بذریعہ قواعد عام انتخابات کا عمل مکمل تو ’بادلنخواستہ‘ مکمل کر لیا گیا ہے لیکن سرکاری عہدیدار اِن منتخب نمائندوں کو اِس سے زیادہ کچھ بھی ’اعزاز و کردار‘ دینے کو تیار نہیں۔ اصولی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں میں سے کوئی ایک ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کا چیئرمین جبکہ سرکاری اہلکار ’وائس چیئرمین‘ ہونا چاہئے تاکہ یہ پیغام منتقل ہو سکے کہ ’’فیصلہ سازی میں عوام کی نمائندگی اعلیٰ و بالا ہے اور ترجیحات عوام کے نمائندوں پر مسلط یا اُن کے سامنے محض منظوری کے لئے پیش نہیں کی جاتیں بلکہ وہ سوچ اور فیصلے کرنے میں بااختیار ہیں!‘‘
اِس لمحۂ فکر پر ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ انتخابات کے فوراً بعد تیس مئی کو ہوئے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی اِداروں (مقامی حکومتوں کے قیام) کے لئے اِنتخابات کا ذکر بھی ہو جائے کے بارے میں الیکشن کمیشن نے (تاخیر سے) آٹھ جولائی کو حتمی پارٹی پوزیشن جاری کی ہے اور سرکاری و حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے ضلع کونسلوں کی 978نشستوں میں سے 256 حاصل کرکے پہلی‘ عوام نیشنل پارٹی نے 106 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ دوسری اُور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 105 نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ان کے علاؤہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے 87‘ جماعت اسلامی نے 71‘ پیپلزپارٹی نے 43 اُور قومی وطن پارٹی نے 12نشستیں حاصل کیں جبکہ 165 آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے اور ضلع کونسل کی 122 جبکہ تحصیل کونسل کی 120نشستوں کے لئے دوبارہ انتخابات ہوں گے جو معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ تحصیل کی سطح پر بھی تحریک انصاف 273 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے لیکن یہ برتری اور نمائندگی اُس وقت تک ’کارآمد‘ نہیں ہو سکتی‘ جب تک منتخب نمائندے فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے!
کیا ہم جعلی نمائندے ہیں؟ اگر ہمیں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا تو پھر ہمارے اِنتخاب کا عملی مقصد کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن اُمیدواروں کے کامیاب ہونے کی آس لگائی گئی تھی وہ جیت نہیں سکے اُور اَب اِنتظامیہ دیگر نمائندوں کو توجہ نہیں دے رہی؟‘‘ عوام سے ووٹ مانگنے والے خود کو بڑی مشکل میں محسوس کر رہے ہیں اور اَگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ’نومنتخب‘ سماجی و سیاسی کارکنوں کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا اُور وہ آئندہ انتخابات کے موقع پر مخالفین کی کڑی تنقید کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ یاد رہے کہ ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ اراکین کے چناؤ کے لئے عام انتخابات اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد پچیس اپریل کے روز منعقد ہوئے‘ جن کے نتائج کا اعلان انتخابات کے تین دن کر دیا گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے لئے تحریک اِنصاف نے دو‘ جماعت اِسلامی اُور پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پر کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار نے بعد میں جماعت اِسلامی میں شمولیت اِختیار کر لی تھی اور پھر اُنہی کے سر کنٹونمنٹ بورڈ کے ’وائس چیئرمین‘ کا سہرا سجا۔
قواعد کے مطابق چودہ اَراکین پر مشتمل ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کے سات اراکین بذریعہ اِنتخابات منتخب ہوتے ہیں جبکہ چھاؤنی کے معاملات بارے سات فوجی اہلکار ہوتے ہیں۔ ان نمائندوں کا چیئرمین بریگیڈئر عہدے کا فوجی اِہلکار ہوتا ہے‘ جبکہ گریژن (چھاؤنی) انجنیئر اُور چار دیگر فوجی اہلکاروں پر مشتمل بورڈ کے پہلے اجلاس میں تاخیر کی وجہ چار فوجی اہلکاروں کا تبادلہ بتایا جاتا ہے‘ جن کی خدمات وزارت دفاع کو منتقل کر دی گئی ہیں اُور اِس سسلسلے میں وزارت دفاع کو ایک مکتوب کے ذریعے آگاہ کیا جاچکا ہے کہ جب تک اُن کی جگہ دیگر اہلکاروں کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ بالحاظ عہدہ اُن کی رکنیت قواعد کی رو سے مکمل نہیں ہو سکتی! پہلے اِجلاس کی تاخیر کے باعث پشاور کے ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کی حدود میں ترقیاتی عمل رُکا ہوا ہے اُور کئی ایک ایسے منصوبے ہیں جن پر کام فوری طور پر شروع ہونا چاہئے لیکن اِس کے فیصلے کا اختیار بورڈ کے پاس ہے‘ جس کا اِجلاس تکنیکی وجوہات کی بناء پر طلب نہیں کیا جاسکتا۔ اِس سلسلے میں اُمید کا اظہار کیا گیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران (عیدالفطر کے بعد) کنٹونمنٹ بورڈ اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال اُمید پر دنیا قائم ہے اور جہاں ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر گیا وہیں مزید دو یا تین ہفتوں کا بھی پتہ نہیں چلے گا لیکن اگر کنٹونمنٹ بورڈ کے سرکاری اَراکین کی تنخواہیں اور مراعات ’بورڈ‘ کے اجلاس سے مشروط ہوتیں تو انتخابات کے اگلے ہی روز ’وائس چیئرمین‘ کا انتخاب ہو چکا ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کی نہ تو سرکاری اہلکاروں کے دل میں جگہ ہے اُور نہ ہی اُن نمائندہ ایوانوں میں‘ جہاں کی رکنیت کے لئے بذریعہ قواعد عام انتخابات کا عمل مکمل تو ’بادلنخواستہ‘ مکمل کر لیا گیا ہے لیکن سرکاری عہدیدار اِن منتخب نمائندوں کو اِس سے زیادہ کچھ بھی ’اعزاز و کردار‘ دینے کو تیار نہیں۔ اصولی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں میں سے کوئی ایک ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کا چیئرمین جبکہ سرکاری اہلکار ’وائس چیئرمین‘ ہونا چاہئے تاکہ یہ پیغام منتقل ہو سکے کہ ’’فیصلہ سازی میں عوام کی نمائندگی اعلیٰ و بالا ہے اور ترجیحات عوام کے نمائندوں پر مسلط یا اُن کے سامنے محض منظوری کے لئے پیش نہیں کی جاتیں بلکہ وہ سوچ اور فیصلے کرنے میں بااختیار ہیں!‘‘
اِس لمحۂ فکر پر ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ انتخابات کے فوراً بعد تیس مئی کو ہوئے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی اِداروں (مقامی حکومتوں کے قیام) کے لئے اِنتخابات کا ذکر بھی ہو جائے کے بارے میں الیکشن کمیشن نے (تاخیر سے) آٹھ جولائی کو حتمی پارٹی پوزیشن جاری کی ہے اور سرکاری و حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے ضلع کونسلوں کی 978نشستوں میں سے 256 حاصل کرکے پہلی‘ عوام نیشنل پارٹی نے 106 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ دوسری اُور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 105 نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ان کے علاؤہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے 87‘ جماعت اسلامی نے 71‘ پیپلزپارٹی نے 43 اُور قومی وطن پارٹی نے 12نشستیں حاصل کیں جبکہ 165 آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے اور ضلع کونسل کی 122 جبکہ تحصیل کونسل کی 120نشستوں کے لئے دوبارہ انتخابات ہوں گے جو معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ تحصیل کی سطح پر بھی تحریک انصاف 273 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے لیکن یہ برتری اور نمائندگی اُس وقت تک ’کارآمد‘ نہیں ہو سکتی‘ جب تک منتخب نمائندے فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے!
No comments:
Post a Comment