Friday, July 10, 2015

Jul2015: Quds Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
یوم قدس: مسلمان کدھر جائے!؟
دنیا بھر کے ’روزہ دار مسلمانوں‘ نے بناء کسی تفریق رنگ و نسل اور عقائد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ’عالمی یوم القدس‘ بھرپور جوش و خروش سے منایا اور اِس موقع پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار میں جس اخلاص پر مبنی ’اتحادواتفاق‘ کا شاندار مظاہرہ کیاگیا‘ اگر وہ اخلاص برقرار رہتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ’اتحاد بین المسلمین‘ جیسا ہدف حاصل ہونے کے ساتھ اِسلام دشمن طاقتوں بالخصوص اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی ’اَمریکی و برطانوی لابی‘ کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی عالمی نام نہاد طاقتوں کو یقیناًیہ پیغام مل چکا ہے کہ انہیں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وجبر ختم کرنا ہوگا بصورت دیگر اُن کایہ عمل مسلم امہ کو اس طرح یک جان کر دے گا‘ کہ اس تحریک کو پھر پٹھو حکمران کے ذریعے نہ تو دبایا اُور نہ کچلا جا سکے گا۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو‘ شاہ فیصل اور امام خمینی جیسے خیرخواہوں کی قیادت مسلم اُمہ کو پھر سے میسر آ جائے!

مسلم دنیا کو ’’مرگ بر امریکہ اُور مرگ بر اسرائیل‘‘ جیسی مدبرانہ سوچ دینے والے بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی نے رمضان المبارک کے ہر آخری جمعے کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور اِس مرتبہ چونکہ آخری جمعہ پاکستان میں اُنتیس اور بیشتر ممالک میں یکم شوال کو ہوگا‘ اِس لئے رہبر اسلامی ایران سیّد علی خامنہ آئی نے ’عالمی یوم قدس‘ ایک ہفتہ قبل یعنی دس جولائی کو منانے کا اعلان کیا جس پر پوری دنیا میں لبیک کہا گیا۔

اللہ تعالیٰ کی توحید اور آخری پیغمبر کی رسالت پر یقین رکھنے والا اگر کسی دوسرے ’کلمہ گو‘ پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر خاموش رہتا ہے تو اِس عمل کو ایک حدیث پاک کے مفہوم میں دعائیں قبول نہ ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹ قراردیا گیا ہے لہٰذا ’یوم قدس‘ کو کسی ایک ملک کی ایجاد نہیں بلکہ یہ ہر ایک مسلمان اور کلمہ گو کی آواز ہونی چاہئے۔ ’’اِس بات کو اب فاش کر اے روح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): آیات الٰہی کا نگہباں کدھر جائے؟ (علامہ اقبالؒ )‘‘۔۔۔ یہ بات ہمارے اِیمان کا حصہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے اِسلامی بھائی کے دکھ درد اور مشکلات میں اُس کی مدد کرے۔ ہمارے سامنے ہجرت مدینہ کے موقع پر ’مؤاخات‘ کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح مسلمان ایک دوسرے کے دست و بازو بن گئے! کیا اسلامی تاریخ میں ہمارے لئے تفکر کے ابواب موجود نہیں؟ کیا ہمیں اپنی ہی تاریخ پر غور و خوض نہیں کرنا چاہئے؟ اگر فلسطین کے مسلمانوں کو اِس مرحلے پر تنہا چھوڑ دیا گیا تو اسلام دشمن طاقتیں عرب دنیا اور بعدازاں مسلمانوں کی اکثریت والے ممالک کو حیلوں بہانوں سے یکے بعد دیگرے ظلم وستم کا نشانہ بنائیں گے اُور ایک خدا و ایک رسول کو ماننے والوں پر ’عرصۂ حیات‘ تنگ کردیا جائے گا! دنیا کی نظروں میں اگر پاکستان کی جوہری صلاحیت اور ایران کے جوہری عزائم کھٹک رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ’غاصب اسرائیل‘ کے دفاع کے علاؤہ کچھ نہیں۔یوم القدس ’سوچ اُور عمل کی ترغیب‘ کا دوسرا نام ہے کہ ماننے والوں کو اسلام کے جسد واحد سے منسلک ہر ایک عضو کی حفاظت کے لئے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیءں۔ یاد رہے کہ ’روز جہانی قدس‘ کا آغاز 1979ء میں انقلاب جمہوری اسلامی ایران کی کامیابی کے ساتھ ہی کیا گیا‘ جو تاحال ہرسال باقاعدگی سے منایا جاتاہے۔

یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’یوم القدس‘ غاصبوں کے لئے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ رواں سال بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا‘ جسے صرف مغرب ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں کے خود فریب‘ مغرب نواز ذرائع ابلاغ نے زیادہ توجہ اُور اہمیت نہیں دی‘ تو اِس کی وجہ اور پس پردہ محرک منطقی ہے۔ عالمی یوم القدس نامی تحریک کے جلوسوں کے لئے نعرے کا انتخاب ’’علاقائی صورتحال اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش حالات‘‘ کے مد نظر کیا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ رواں برس ’’عالمی یوم القدس‘ فلسطینی اہداف کا مظہر‘ ماڈرن (یک طرفہ جدیدیت کی دلدادہ) جاہلیت اور غزہ سے یمن و کشمیر تک بچوں کے قتل عام کے خلاف ملت اسلامیہ کے اتحاد کی آواز‘‘ کے نعرے لگائے گئے جن سے اسلام دشمنوں کے مظالم کے بارے میں بیداری عام کی گئی۔ پرجوش ’یوم القدس‘ سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اسلامی ممالک کے عوام کی اکثریت امریکہ اور صیہونی حکومت کو ہی اپنا مشترکہ دشمن سمجھتی ہے اور عراق‘ شام‘ یمن و کشمیر سمیت بعض اسلامی ممالک کے المناک حالات اسے اسلامی دنیا کے سب سے اہم مسئلے اور عالم اسلام کی ترجیح یعنی مسئلہ فلسطین سے غافل نہیں کر سکے اور نہ کبھی غافل کر سکیں گے!

عالمی یوم القدس فلسطینیوں کی حد تک ہی مختص نہیں اُور نہ ہی اسے محدود کر کے پیش کیا جانا چاہئے بلکہ اِس اہم دن کا تعلق ساری اسلامی دنیا سے ہے اور اسلام کے دشمن اور بالخصوص صیہونی اسی بات سے ہراساں ہیں کہ قدس کہیں مسلم امہ کے اتحاد کی تحریک ہی نہ بن جائے! بانی انقلاب اسلامی نے بیت المقدس کو اس وجہ سے اہمیت دی تھی کہ ’’بیت المقدس اور فلسطین ملت اسلامیہ کی طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ اُور یہ دن صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے جملہ حریت پسندوں کی جانب سے ظلم اور ناانصافی کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ اگر ’یوم القدس‘ کی روح کو سمجھ لیا جاتا ہے تو فلسطین کی مظلوم قوم اور دوسری مظلوم اقوام کی حمایت سے متعلق تحریک نہ صرف ’نتیجہ خیز‘ ثابت ہوگی بلکہ انشاء اللہ عزوجل مظلوم فلسطینی آزادی کی نعمت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔

 سوچئے کہ اگر اسلام دشمن طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کے لئے اعلانیہ و غیراعلانیہ طور پر متحد ہوسکتی ہیں تو مسلم اُمہ کو کس بات‘ کس مجبوری اور کس مصلحت نے ’اتحاد واتفاق‘ سے روک رکھا ہے؟ ’’جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل۔۔۔تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقد دشوار۔ ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر۔۔۔بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار! (علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ) ‘‘

No comments:

Post a Comment