ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ناممکن‘ ممکن!
ناممکن‘ ممکن!
مقام شکر اور خوش آئند تو ہے کہ ۔۔۔’خیبرپختونخوا میں دہشت گرد واقعات میں
’غیرمعمولی کمی‘ تو آئی ہے لیکن کیا شمال مغربی سرحدی صوبے کے رہنے والے
سکھ کی نیند اور بے فکری کی معاشرت کر رہے ہیں؟‘ اگر ہم محکمۂ پولیس کے
اعدادوشمار پر بھروسہ کریں تو رواں برس کے پہلے چھ کا موازنہ سال 2014ء کے
ابتدائی چھ ماہ سے کیا گیا ہے اور اس میں بہتری واضح آثار دکھائی دے رہیں
ہیں۔ محکمۂ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مرتب کردہ نتائج کے مطابق ’’ماہ
جنوری سے جون کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے کل 131 واقعات پیش
آئے جن میں کم از کم 63 افراد ہلاک ہوئے اور اِن میں 23 پولیس اہلکار شامل
تھے۔‘‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’’دہشت گرد واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں
کی تعداد میں 70فیصد کمی آئی ہے۔‘‘ رواں برس تیس جون تک دہشت گردی کے
واقعات میں 156 لوگ زخمی ہوئے جبکہ سال گذشتہ میں 590 اور اس سے قبل 2013
میں 1077 افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ کمی تناسب کے لحاظ سے 74فیصد بنتی ہے۔
غیرقانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کاروائیوں میں بھی پولیس کو
خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور مذکورہ چھ ماہ کے دوران 10 ہزار 175
افغان باشندوں کو قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا
ہے۔ اسی طرح 2 ہزار 648 ایسے پاکستانی باشندوں کو بھی حراست میں لیا گیا
جنہوں نے افغان مہاجرین کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کی تھی جو بعدازاں
قومی شناختی کارڈز حاصل کرنے کے استعمال کی گئی۔
خیبرپختونخوا میں پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرنے کے اقدامات نمائشی ہی نہیں بلکہ اِن میں صداقت بھی ہے اور یہی سبب ہے کہ کچھ شعبوں میں مثبت نتائج دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن کیا اسی پر اکتفا کر لیا جائے؟ کیا بہتری کی گنجائش موجود نہیں؟ کیا ایسے اہلکار اب بھی انتظامی عہدوں پر فائز نہیں جن کے نام ماضی میں مالی بدعنوانیوں حتی کہ پولیس کے لئے سازوسامان اور اسلحہ جیسی خریداری میں ہوئی خردبرد سے جڑے دکھائی دیئے!؟ اگر دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ پشاور سے متصل قبائلی علاقہ جات میں ہوئی پے در پے فوجی کاروائیاں ہیں‘ جس کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں اور پشاور میں اُن کی ایک یادگار قائم ہونی چاہئے کیونکہ اگر فوج نہ ہوتی تو عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز تباہ اور اُن کی طاقت یوں منتشر نہ ہوتی۔ اب کوئی خود کو فخریہ طور پر عسکریت پسند اور دہشت گرد نہیں کہہ سکتا جبکہ ایک وقت تھا کہ پشاور کی گلی کوچوں اور منبر سے عسکریت پسندوں کی حمایت میں تقاریر کی جاتی تھیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کو دہشت گرد واقعات میں کمی کا سہرا اپنے سر نہیں سجانا چاہئے کیونکہ اب بھی پولیس ایسے علاقوں میں جانے سے کتراتی ہے‘ جہاں کے روائتی و غیرروائتی راستے قریبی قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں! دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا ذکر کرنے والے مسرور ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز پولیس اہلکار سے جب اس بارے رائے پوچھی گئی کہ ’’چونکہ عسکریت پسندوں کے پاس وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ سہ ماہی‘ شش ماہی اور سالانہ رپورٹیں بھی مرتب نہیں کرتے اور نہ ہی اعدادوشمار کی بنیادپر کاروائیوں پر فیصلہ کرتے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ وقفہ میں کسی زیادہ بڑے حملے کی منصوبہ بندی جاری ہو؟ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ’جرائم میں 55 فیصد کمی آئی ہے۔‘ تو کیا اِس بیان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی تعداد میں بھی اتنی یا کم از کم پچاس فیصد کمی آئی ہے؟‘‘ جواب صرف خاموشی ملا۔
توجہ طلب ہے کہ دہشت گرد جن اکا دکا اہداف کو آج بھی نشانہ بنا رہے ہیں وہ معمولی عسکری تربیت کاروں کا کام نہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی دہشت گردی یا منظم جرائم پیشہ گروہوں کا نشانہ ببنے والوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جو موبائل فون نمبر‘ لینڈ لائن فون نمبر‘ بینک اکاونٹس‘ زیراستعمال گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل کردہ کوائف یا زیرتعلیم اہل خانہ کے علاؤہ روزمرہ معلومات کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔ کمپیوٹرائزیشن کی خوشی میں سرکاری محکموں میں دھرا دھر ڈیجیٹل ڈیٹابیسیز بنائی جانے لگی ہیں لیکن اِس نجی ڈیٹا (امور معلومہ) کی حفاظت کرنے کا خاطرخواہ انتظام یا اس بارے حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔ صرف ایک موبائل فون ہی کی مدد سے کسی صارف کے چوبیس گھنٹوں میں ہر ایک منٹ کی نقل و حرکت اور رابطوں کا ریکارڈ حاصل کرنا بالکل اسی طرح بظاہر ناممکن لیکن ممکن ہے جس طرح ’ڈی این اے‘ تجزئیات کے لئے ارسال کئے جانے والے نمونوں کے نتائج میں ردوبدل کا امکان ہوتا ہے۔
آخر کیوں خیبرپختونخوا کی اپنی ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid) لیبارٹری کا قیام تعطل کا شکار ہے؟ اور جب اِس سلسلے میں متعلقہ فیصلہ سازوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک ’مالیکیولر بائیولوجسٹ‘ کے عہدے پر کسی تجربہ کار شخص کو بھرتی نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ‘ڈی این اے‘ لیبارٹری کا قیام ممکن نہیں! یہ بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علم میں بھی لائی جا چکی ہے تو کیا یہ امر باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ طب کے ایک تدریسی حکومتی کالج میں امریکہ سے جدید ترین آلات خرید کر نصب کئے جا چکے ہیں۔ عمارت اور دیگر انفراسٹکچر کی ضروریات بھی پوری کر دی گئی ہیں لیکن ستمبر 2014ء سے صرف اور صرف ’مولیکیولر بائیولوجسٹ‘ کی عدم موجودگی کے سبب ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہوسکی ہے! 4 کروڑ پچاس لاکھ (45ملین) روپے کے آلات کی خریداری کے بعد اُس کا ضمانتی عرصہ (وارنٹی پیریڈ) بھی آلات کے بناء استعمال ہی گزر چکا ہے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں حکومت نے ’ڈی این اے‘ لیبارٹری کے قیام کی منظوری اور مالی وسائل فراہم کئے تھے‘ مالی وسائل تو پوری توجہ و انہماک سے خرچ کر دیئے گئے لیکن ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہو سکی کیونکہ اس میں فیصلہ سازوں کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا اور بلاوجہ تو نیکی بھی نہیں کی جاتی!
جنگ چاہے جرائم پیشہ منظم و غیرمنظم گروہوں کے خلاف ہو یا تخریبی ذہنیت رکھنے والوں سے معاملہ ہو‘ یقینی کامیابی کے لئے نہ صرف ہمیں صارفین کی نجی معلومات پر مبنی ڈیٹا کی کماحقہ حفاظت کرنا ہوگی بلکہ ’ڈی این اے‘ تجزیہ گاہ کو بھی جلد اَز جلد فعال کرنا ہوگا‘ جس کی مدد سے سماج دشمنوں کے مراکز تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سنگین جرائم کے رونما ہونے سے قبل اُن کی ’روک تھام‘ اُور ایسے منظم گروہوں کے خلاف بھی کاروائی کریں جو ماضی کی طرح آج بھی سہولت کار کا کردار اَدا کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرنے کے اقدامات نمائشی ہی نہیں بلکہ اِن میں صداقت بھی ہے اور یہی سبب ہے کہ کچھ شعبوں میں مثبت نتائج دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن کیا اسی پر اکتفا کر لیا جائے؟ کیا بہتری کی گنجائش موجود نہیں؟ کیا ایسے اہلکار اب بھی انتظامی عہدوں پر فائز نہیں جن کے نام ماضی میں مالی بدعنوانیوں حتی کہ پولیس کے لئے سازوسامان اور اسلحہ جیسی خریداری میں ہوئی خردبرد سے جڑے دکھائی دیئے!؟ اگر دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ پشاور سے متصل قبائلی علاقہ جات میں ہوئی پے در پے فوجی کاروائیاں ہیں‘ جس کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں اور پشاور میں اُن کی ایک یادگار قائم ہونی چاہئے کیونکہ اگر فوج نہ ہوتی تو عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز تباہ اور اُن کی طاقت یوں منتشر نہ ہوتی۔ اب کوئی خود کو فخریہ طور پر عسکریت پسند اور دہشت گرد نہیں کہہ سکتا جبکہ ایک وقت تھا کہ پشاور کی گلی کوچوں اور منبر سے عسکریت پسندوں کی حمایت میں تقاریر کی جاتی تھیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کو دہشت گرد واقعات میں کمی کا سہرا اپنے سر نہیں سجانا چاہئے کیونکہ اب بھی پولیس ایسے علاقوں میں جانے سے کتراتی ہے‘ جہاں کے روائتی و غیرروائتی راستے قریبی قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں! دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا ذکر کرنے والے مسرور ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز پولیس اہلکار سے جب اس بارے رائے پوچھی گئی کہ ’’چونکہ عسکریت پسندوں کے پاس وقت کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ سہ ماہی‘ شش ماہی اور سالانہ رپورٹیں بھی مرتب نہیں کرتے اور نہ ہی اعدادوشمار کی بنیادپر کاروائیوں پر فیصلہ کرتے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ وقفہ میں کسی زیادہ بڑے حملے کی منصوبہ بندی جاری ہو؟ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ’جرائم میں 55 فیصد کمی آئی ہے۔‘ تو کیا اِس بیان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی تعداد میں بھی اتنی یا کم از کم پچاس فیصد کمی آئی ہے؟‘‘ جواب صرف خاموشی ملا۔
توجہ طلب ہے کہ دہشت گرد جن اکا دکا اہداف کو آج بھی نشانہ بنا رہے ہیں وہ معمولی عسکری تربیت کاروں کا کام نہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی دہشت گردی یا منظم جرائم پیشہ گروہوں کا نشانہ ببنے والوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جو موبائل فون نمبر‘ لینڈ لائن فون نمبر‘ بینک اکاونٹس‘ زیراستعمال گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل کردہ کوائف یا زیرتعلیم اہل خانہ کے علاؤہ روزمرہ معلومات کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔ کمپیوٹرائزیشن کی خوشی میں سرکاری محکموں میں دھرا دھر ڈیجیٹل ڈیٹابیسیز بنائی جانے لگی ہیں لیکن اِس نجی ڈیٹا (امور معلومہ) کی حفاظت کرنے کا خاطرخواہ انتظام یا اس بارے حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔ صرف ایک موبائل فون ہی کی مدد سے کسی صارف کے چوبیس گھنٹوں میں ہر ایک منٹ کی نقل و حرکت اور رابطوں کا ریکارڈ حاصل کرنا بالکل اسی طرح بظاہر ناممکن لیکن ممکن ہے جس طرح ’ڈی این اے‘ تجزئیات کے لئے ارسال کئے جانے والے نمونوں کے نتائج میں ردوبدل کا امکان ہوتا ہے۔
آخر کیوں خیبرپختونخوا کی اپنی ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid) لیبارٹری کا قیام تعطل کا شکار ہے؟ اور جب اِس سلسلے میں متعلقہ فیصلہ سازوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک ’مالیکیولر بائیولوجسٹ‘ کے عہدے پر کسی تجربہ کار شخص کو بھرتی نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ‘ڈی این اے‘ لیبارٹری کا قیام ممکن نہیں! یہ بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علم میں بھی لائی جا چکی ہے تو کیا یہ امر باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے کہ طب کے ایک تدریسی حکومتی کالج میں امریکہ سے جدید ترین آلات خرید کر نصب کئے جا چکے ہیں۔ عمارت اور دیگر انفراسٹکچر کی ضروریات بھی پوری کر دی گئی ہیں لیکن ستمبر 2014ء سے صرف اور صرف ’مولیکیولر بائیولوجسٹ‘ کی عدم موجودگی کے سبب ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہوسکی ہے! 4 کروڑ پچاس لاکھ (45ملین) روپے کے آلات کی خریداری کے بعد اُس کا ضمانتی عرصہ (وارنٹی پیریڈ) بھی آلات کے بناء استعمال ہی گزر چکا ہے۔ یاد رہے کہ سال 2013ء میں حکومت نے ’ڈی این اے‘ لیبارٹری کے قیام کی منظوری اور مالی وسائل فراہم کئے تھے‘ مالی وسائل تو پوری توجہ و انہماک سے خرچ کر دیئے گئے لیکن ’ڈی این اے لیب‘ فعال نہیں ہو سکی کیونکہ اس میں فیصلہ سازوں کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا اور بلاوجہ تو نیکی بھی نہیں کی جاتی!
جنگ چاہے جرائم پیشہ منظم و غیرمنظم گروہوں کے خلاف ہو یا تخریبی ذہنیت رکھنے والوں سے معاملہ ہو‘ یقینی کامیابی کے لئے نہ صرف ہمیں صارفین کی نجی معلومات پر مبنی ڈیٹا کی کماحقہ حفاظت کرنا ہوگی بلکہ ’ڈی این اے‘ تجزیہ گاہ کو بھی جلد اَز جلد فعال کرنا ہوگا‘ جس کی مدد سے سماج دشمنوں کے مراکز تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سنگین جرائم کے رونما ہونے سے قبل اُن کی ’روک تھام‘ اُور ایسے منظم گروہوں کے خلاف بھی کاروائی کریں جو ماضی کی طرح آج بھی سہولت کار کا کردار اَدا کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment