Wednesday, July 8, 2015

Jul2015: Misconceptions about Right to Information

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تاریکیاں!
چھ جولائی کو اُن ’توقعات‘ کے بارے عرض کیا گیا کہ کس طرح دنیا کا بہترین قانون بنا لینا کافی نہیں بلکہ ’معلومات تک رسائی‘ پر آمادگی کے ساتھ اِس پر کماحقہ عمل درآمد ضروری ہے اُور کوئی ایک بھی حکومتی ادارہ‘ شخصیات یا سرکاری اہلکار قانون سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ علاؤہ ازیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین و ایوان کی کارکردگی سے متعلق بھی اگر کوئی بھی عام یا خاص کچھ بھی جاننا چاہے تو اُسے اِس بات کا حق ہونا چاہئے۔ اگلے روز یعنی سات جولائی کو ’اپنا گریباں چاک‘ کے زیرعنواں اُن چند تکنیکی نہیں بلکہ مصلحتوں بھرے روئیوں اور رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا جو وفاقی حکومت کی سطح پر ’معلومات تک رسائی‘ سے متعلق قانون سازی کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ ایک نازک مرحلۂ فکر ہے جو قانون سازی سے اطلاق تک کے مراحل میں نہ صرف سنجیدہ توجہ چاہتا ہے بلکہ اِس میں ’شفافیت‘ کے عنصر کو غالب و ترجیح (قبلہ) بنانا بھی ضروری ہے۔

توجہ کیجئے کہ خیبرپختونخوا میں ’معلومات تک رسائی‘ کے عمل کی نگرانی کے لئے قائم ہونے والے نئے سرکاری محکمے میں گریڈ گیارہ سے سترہ تک کی بھرتیاں رواں برس ماہ مارچ میں مشتہر کی گئیں جس کے لئے درخواستوں کی وصولی کی حتمی تاریخ سولہ مارچ مقرر کی گئی تھی۔ اِس اشتہار کے بعد کمیشن کو حسب توقع سینکڑوں کی تعداد میں درخواستیں بذریعہ ڈاک و دیگر ذرائع سے موصول ہوئیں۔ درخواستوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں اہلیت کی بنیاد پر ترتیب دینے میں مزید چند ماہ کا وقت لگ گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ بھرتیوں میں شفافیت کے لئے صوبائی حکومت کے ادارے ’ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایولوایشن ایجنسی (ایٹا)‘ کی وساطت سے ایک تحریری امتحان لیا جائے جس کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں۔

یہ ایک درست فیصلہ تھا لیکن ہوا یہ کہ جب ’ایٹا‘ کو تحریری امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تو اُنہوں ٹیسٹ کے لئے 14جون کی تاریخ مقرر کی اور جنہیں ٹیسٹ کے لئے مدعو کیا گیا اُنہیں بذریعہ موبائل فون ’ایس ایم ایس‘ پیغامات 12جون کو مطلع کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ محض دو دن کا یہ وقت کافی نہیں تھا اور بہت سے اُمیدواروں کو ’ایس ایم ایس‘ پیغامات اِس لئے نہیں مل سکے کہ اُن کے فون آف تھے یا کوئی دیگر تکنیکی مسئلہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جن اُمیدواروں کو انٹرویو کے لئے طلب کیا گیا اُن میں سے صرف 45فیصد ہی امتحان دینے کے لئے وقت مقررہ پر حاضر ہو سکے۔ یہ عجیب منطق تھی کہ جس تحریری امتحان کے لئے اُمیدواروں کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کیا گیا اُن کی اکثریت کا تعلق دور دراز علاقوں سے تھا اور اگر پشاور سے بھی ہوتا تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دو دن کے بعد اچانک امتحان کے لئے طلب کیا جائے؟

کیا فیصلہ ساز خود بھی ایسے ہی شارٹ نوٹس اور اہلیت کی سخت جانچ کے بعد سرکاری ملازم ہوئے تھے؟ المیہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے لئے جو سہولیات و مراعات چاہتے ہیں وہ دوسروں کو مرحمت فرمانا نہیں چاہتے۔ بہرکیف ہنگامی بنیادوں پر طلبی کے سبب قانونی مشیر کے لئے درخواست گزاروں میں سے صرف ایک ہی اُمیدوار آ سکا اور ظاہر ہے کہ اُسے ہی نوکری ملنی تھی! بعدازاں ایک تجویز یہ دی گئی کہ مذکورہ ’ایٹا‘ امتحان منسوخ کرکے دوبارہ سے ملازمتیں مشتہر کی جائیں اور درخواستیں طلب کی جائیں اور اِمتحان کا انعقاد پھر سے کیا جائے۔ ایک شکایت یہ بھی موصول ہوئی کہ جن درخواست گزاروں کو ’شارٹ لسٹ‘ کیا گیا اُن میں ایسے بھی تھے جنہیں باوجود موبائل فون کے ’ایکٹو کنکشن‘ بھی ’ایٹا‘ کی جانب سے ’ایس ایم ایس‘ موصول نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ بذریعہ ’ایٹا‘ بھرتی کا یہ طریقۂ کار اِس طرح ہے کہ 8 فیصد نمبر اِنٹرویو جبکہ باقی تحریری ٹیسٹ کے ہوتے ہیں اور اَصولی طریقۂ کار یہ ہے کہ نوکری کے اِس امتحان کے لئے اُمیدواروں کو ’کال لیٹرز‘ مقررہ تاریخ سے دو ہفتے قبل جاری کئے جاتے ہیں تاکہ ایک تو وہ تیاری کر لیں اور دوسرا دور دراز علاقوں سے آنے والے اپنی سفر کے بارے میں منصوبہ بندی کر لیں۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ خیبرپختونخوا میں کئی ایک ایسے علاقے ہیں جہاں موبائل فون کے سگنلز کام نہیں کرتے۔ حال ہی میں مجھے خود ہری پور کے قریب بھیڑ نامی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں کے رہنے والے موبائل فون پر بات کرنے کے لئے ایک قریبی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر جاتے دیکھے گئے اور یوں وہ بیرون ملک عزیز و اقارب کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں! صوبائی دارالحکومت پشاور کے آرام دہ‘ پرتعیش کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ سازوں کو احساس تک نہیں کہ جنوبی اور ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں کی صورتحال کیا ہے! کون جاننا پسند کرے گا کہ مرکزی شہروں سے دور رہنے والوں کی زندگی میں کتنے سکھ ہیں اور وہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غربت و کسمپرسی کی حالت میں شب روز بسر کرنے والوں پر کیا گزر رہی ہے!

خیبرپختونخوا میں ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون پہلے ہی خطرے میں ہے جس کا مفصل بیان چھ جولائی کے کالم میں ہو چکا لیکن اگر اِس انتظامی طریقۂ کار میں بہتری کے لئے دانستہ کوششیں کرتے ہوئے وہ تحفظات دور نہیں کئے جاتے‘ جس کی وجہ سے یہ ’انقلابی قانون سازی‘ اپنی روح و مقصد سے فاصلے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے تو اِس صورتحال میں تبدیلی کے لئے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو دلچسپی لینا ہوگی بصورت دیگر اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘ جس میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے اور ہاتھوں سے ٹٹول کر صرف ٹھوکریں لگتی رہیں گے اور اگرچہ سفر طے ہوگا لیکن منزل سے دوری اور راستے کا تعین نہیں ہو سکے گا۔ تاریکیوں کو بدلنے کے لئے دانستہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ’سوچ کے آلاؤ‘ روشن کرنا ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment