ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اندیشہ ہائے دور دراز
اندیشہ ہائے دور دراز
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد نے خبر دی ہے کہ رواں برس (دو ہزار
پندرہ) کے دوران اب تک 27 بچوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی
ہے۔ چھ جولائی کو سامنے آنے والا کیس میرا کچوری کے علاقے میں سامنے آیا
ہے جو پشاور کا ایک مضافاتی علاقہ ہے جہاں اٹھارہ ماہ کے ابوبکر کو لاحق
پراسرار بیماری کا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹروں نے جب خون کا نمونہ پولیو تصدیق
کے لئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں صحت کے قومی مرکز کو ارسال کیا گیا
تو جانچ کے بعد تصدیق ہوگئی ہے کہ مذکورہ بچہ پولیو وائرس سے متاثر ہے۔
یاد رہے کہ پشاور میں پولیو وائرس کا یہ ساتواں جبکہ خیبرپختونخوا میں ظاہر
ہونے والے پولیو کا گیارہواں شکار ہے! انسداد پولیو کی جنگ ہارنے کی بڑی
وجہ ’امن و امان‘ کی غیریقینی صورتحال ہے۔
یہ حقیقت کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن سچ تو یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی طرح پشاور کے مضافات میں آج بھی عسکریت پسندوں کا راج ہے‘ جہاں گھر گھر پولیو مہمات صرف کاغذی طور پر مکمل کی جاتی ہیں اور طبی عملہ ایسے تمام علاقوں میں نہیں جاتا جو رنگ روڈ یا قبائلی علاقوں سے متصل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر کسی علاقے میں پولیو سے متاثر ایک بچہ پایا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے وہاں اوسطاً مزید دس بچوں میں پولیو وائرس موجود ہوگا! چونکہ ہمارے ہاں نہ تو ایسے علاقوں میں رہنے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ادویات دی جاتی ہیں اور نہ ہی بڑے پیمانے پر بچوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے لئے تجزیئے کرائے جاتے ہیں‘ اِس لئے ایک مرحلے پر ’پشاور کو پولیو فری‘ قرار دے کر جس خوشی اُور فخر کا اظہار کیا گیا وہ پائیدار ثابت نہین ہوسکا ہے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ انسداد پولیو مہمات میں حصہ لینے والے طبی عملے کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اُن کے گھروں پر دھمکی آمیز خطوط ارسال کئے جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے خود کو انسداد پولیو کی مہمات سے الگ نہ کیا تو بال بچوں سمیت قتل کر دیئے جائیں گے۔
پشاور کا گنجان آباد شہری علاقے سیٹھی ٹاؤن ٗکے رہائشی کامران الیاس (سابق ڈسپنسر‘ لیڈی ریڈنگ ہسپتال) کی ایک مثال دی جاسکتی ہے‘ جنہیں اپنے علاقے میں انسداد پولیو کی وکالت‘ مقررہ طبی عملے کی مدد اور ایک جوش و جذبے کے ساتھ گھر گھر جا کر پولیو قطرے پلانے میں جوش و خروش سے حصہ لینے پر اِس قدر دھمکیاں دی گئیں کہ اُنہوں نے گذشتہ ماہ بہ امر مجبوری سرکاری ملازمت سے علیحدگی (ریٹائرمنٹ) لے لی اور بیوی بچوں کے ساتھ پشاور چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ اپنے خلاف دھمکی آمیز خطوط اور ٹیلی فونز کالز کے بارے میں اُنہوں نے تھانہ پہاڑی میں ’ایف آئی آر‘ بھی درج کروائی‘ لیکن یہ حربہ بجائے کارگر ثابت ہونے کے اُنہیں پہلے سے زیادہ سخت گیر لہجے میں دھمکیاں ملنے لگیں‘ حتیٰ کہ ’ایف آئی آر‘ کے اندراج کے بعد ابھی گھر بھی نہیں پہنچ پائے تھے کہ اُنہیں پولیس سے رجوع کرنے کی غلطی کے الگ سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں ملنے لگیں! یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جس پر جس قدر افسوس اُور تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ جانی و مالی نقصانات کی دھمکی کیا ہوتی ہے اور اِس کے کسی خاندان پر کس قدر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ دکھ صرف اور صرف وہی بہتر جانتے ہیں جن پر گزر رہی ہوتی ہے۔ اپنا گھر‘ اجداد کا قبرستان‘ دوست اقارب‘ کاروبار‘ سماجی رابطے اور معاشرت کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر کسی انجان دیس پناہ لینے والوں کے دل پر کیا گزرتی ہے یہ اُن کا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے! کتنی سسکیاں‘ کتنی آہیں اور کتنے ہی آنسو اپنے آبائی شہر کے لئے اِس طرح بہہ چکے ہیں جن کی اہمیت کا احساس نہیں کیا گیا اور رائیگاں چلے گئے!
قانون نافذ کرنے والوں کی موجودگی سے زیادہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مضافاتی علاقوں میں حکومت کی رٹ چیلنج کرنے والی منظم قوتوں کا راج جب اُور پشاور کے جس حصے میں چاہے کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن قوتوں کے پاس نہ تو معلومات کی کمی ہے اور نہ ہی یونین کونسلوں اور محلوں کی سطح پر فعال وغیرفعال اراکین کی کمی ہے۔ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت کی اگر صورتحال یہ ہے تو دور دراز اضلاع کے برسرزمین حقائق بارے اندازہ لگانا مشکل نہیں! امن وامان کی صورتحال میں واضح بہتری کے باوجود منظم جرائم پیشہ عناصر سمیت عسکریت پسندوں کی ایسی نپی تلی کاروائیاں اُس اعتماد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ بحال کرنے کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں‘ جس کی بحالی کے لئے محکمۂ پولیس کے فرض شناس اہلکار محدود و ناکافی وسائل کے باوجود‘ کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ مسئلے کی جڑ یعنی اُس بنیادی محرک کا خاتمہ ترجیحات کا حصہ نہیں‘ اِس لئے اندیشہ ہے کہ جاری دوڑ دھوپ کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہوں یقیناًعام آدمی کو جان و مال کے تحفظ کا عملی طور پر احساس دلانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے جملہ اداروں کو زیادہ مستعدی و فرض شناسی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ دشمن شاطر ہونے کے ساتھ شہری و دیہی علاقوں میں تہہ در تہہ سرایت کر چکا ہے لیکن کچھ توجہ انتہاء پسندی پھیلانے والوں پر بھی مرکوز کرنا پڑے گی جن کی ارتقائی شکل ’عسکریت پسند‘ کہلاتی ہے اور اِن کے سہولت کار یا کالعدم قرار دی گئی مسلح تنظیمیں پہلے سے زیادہ منظم اور فعال دکھائی دے رہی ہیں! کہیں اِس کی وجہ ’پولیس ذرائع کے مطابق‘ وہ بااثر سیاسی افراد تو نہیں‘ جو کسی نہ کسی صورت ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے لئے سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی‘ قربانیاں اور اِس بظاہر تبدیل امن و امان کے منظرنامے میں جو ایک طبقہ سب سے زیادہ پریشان حال‘ اپنے گھر‘ ملازمت یا کاروبار کی حد تک محصور و محدود اُور مجبور دکھائی دیتا ہے اُن افراد پر مشتمل ہے جو معاشرے کے لئے کسی نہ کسی صورت ’کارآمد‘ ہیں۔ پھولوں کا شہر اُور امن کے گہوارے پشاور کی سردست حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے صاحب ثروت افراد سے بھتے کا مطالبہ کرنے والے افغانستان کے موبائل فون نمبروں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ فون نمبر ’انٹرنیشنل رومنگ‘ کی سہولت کے باعث نہ صرف خریدے بلکہ ان سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پشاور کے تین اطراف میں پھیلے قبائلی علاقوں میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں افغانستان کے موبائل فون سگنلز موصول کرکے پاکستان میں جرائم و تخریب کاری کے دھندے کو قائم و دائم رکھا گیا ہے۔ بھتے کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو ڈرانے کے لئے اُن کی رہائشگاہوں یا دفاتر کے باہر بم دھماکے ماضی کی طرح آج بھی ہو رہے ہیں لیکن انتہائی تعلیم یافتہ‘ جرائم کی باریکیوں کے آگاہ اور جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی سے لیس ’پولیس‘ ہونے کے باوجود ایسے افراد تک اگر رسائی نہیں ہو پا رہی تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ اجتماعی یا انفرادی طور پر معاشرے کے لئے خطرہ بننے والوں سے نمٹنے کے لئے غیرروائتی طریقۂ کار اختیار کیا جائے‘ بصورت دیگر چوہے اور بلی کے کارٹون (ٹام اینڈ جیری) کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک کہانی سے لطف اندوز ہونے والوں پر بھی افتاد پڑ سکتی ہے۔’’آئے ہے بیکسئ عشق پہ رونا غالب۔۔۔کس کے گھر جائے گا‘ سیلاب بلا‘ میرے بعد!‘‘
یہ حقیقت کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن سچ تو یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی طرح پشاور کے مضافات میں آج بھی عسکریت پسندوں کا راج ہے‘ جہاں گھر گھر پولیو مہمات صرف کاغذی طور پر مکمل کی جاتی ہیں اور طبی عملہ ایسے تمام علاقوں میں نہیں جاتا جو رنگ روڈ یا قبائلی علاقوں سے متصل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر کسی علاقے میں پولیو سے متاثر ایک بچہ پایا جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے وہاں اوسطاً مزید دس بچوں میں پولیو وائرس موجود ہوگا! چونکہ ہمارے ہاں نہ تو ایسے علاقوں میں رہنے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ادویات دی جاتی ہیں اور نہ ہی بڑے پیمانے پر بچوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے لئے تجزیئے کرائے جاتے ہیں‘ اِس لئے ایک مرحلے پر ’پشاور کو پولیو فری‘ قرار دے کر جس خوشی اُور فخر کا اظہار کیا گیا وہ پائیدار ثابت نہین ہوسکا ہے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ انسداد پولیو مہمات میں حصہ لینے والے طبی عملے کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اُن کے گھروں پر دھمکی آمیز خطوط ارسال کئے جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے خود کو انسداد پولیو کی مہمات سے الگ نہ کیا تو بال بچوں سمیت قتل کر دیئے جائیں گے۔
پشاور کا گنجان آباد شہری علاقے سیٹھی ٹاؤن ٗکے رہائشی کامران الیاس (سابق ڈسپنسر‘ لیڈی ریڈنگ ہسپتال) کی ایک مثال دی جاسکتی ہے‘ جنہیں اپنے علاقے میں انسداد پولیو کی وکالت‘ مقررہ طبی عملے کی مدد اور ایک جوش و جذبے کے ساتھ گھر گھر جا کر پولیو قطرے پلانے میں جوش و خروش سے حصہ لینے پر اِس قدر دھمکیاں دی گئیں کہ اُنہوں نے گذشتہ ماہ بہ امر مجبوری سرکاری ملازمت سے علیحدگی (ریٹائرمنٹ) لے لی اور بیوی بچوں کے ساتھ پشاور چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ اپنے خلاف دھمکی آمیز خطوط اور ٹیلی فونز کالز کے بارے میں اُنہوں نے تھانہ پہاڑی میں ’ایف آئی آر‘ بھی درج کروائی‘ لیکن یہ حربہ بجائے کارگر ثابت ہونے کے اُنہیں پہلے سے زیادہ سخت گیر لہجے میں دھمکیاں ملنے لگیں‘ حتیٰ کہ ’ایف آئی آر‘ کے اندراج کے بعد ابھی گھر بھی نہیں پہنچ پائے تھے کہ اُنہیں پولیس سے رجوع کرنے کی غلطی کے الگ سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں ملنے لگیں! یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جس پر جس قدر افسوس اُور تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ جانی و مالی نقصانات کی دھمکی کیا ہوتی ہے اور اِس کے کسی خاندان پر کس قدر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ دکھ صرف اور صرف وہی بہتر جانتے ہیں جن پر گزر رہی ہوتی ہے۔ اپنا گھر‘ اجداد کا قبرستان‘ دوست اقارب‘ کاروبار‘ سماجی رابطے اور معاشرت کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر کسی انجان دیس پناہ لینے والوں کے دل پر کیا گزرتی ہے یہ اُن کا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے! کتنی سسکیاں‘ کتنی آہیں اور کتنے ہی آنسو اپنے آبائی شہر کے لئے اِس طرح بہہ چکے ہیں جن کی اہمیت کا احساس نہیں کیا گیا اور رائیگاں چلے گئے!
قانون نافذ کرنے والوں کی موجودگی سے زیادہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مضافاتی علاقوں میں حکومت کی رٹ چیلنج کرنے والی منظم قوتوں کا راج جب اُور پشاور کے جس حصے میں چاہے کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن قوتوں کے پاس نہ تو معلومات کی کمی ہے اور نہ ہی یونین کونسلوں اور محلوں کی سطح پر فعال وغیرفعال اراکین کی کمی ہے۔ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت کی اگر صورتحال یہ ہے تو دور دراز اضلاع کے برسرزمین حقائق بارے اندازہ لگانا مشکل نہیں! امن وامان کی صورتحال میں واضح بہتری کے باوجود منظم جرائم پیشہ عناصر سمیت عسکریت پسندوں کی ایسی نپی تلی کاروائیاں اُس اعتماد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ بحال کرنے کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں‘ جس کی بحالی کے لئے محکمۂ پولیس کے فرض شناس اہلکار محدود و ناکافی وسائل کے باوجود‘ کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ مسئلے کی جڑ یعنی اُس بنیادی محرک کا خاتمہ ترجیحات کا حصہ نہیں‘ اِس لئے اندیشہ ہے کہ جاری دوڑ دھوپ کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہوں یقیناًعام آدمی کو جان و مال کے تحفظ کا عملی طور پر احساس دلانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے جملہ اداروں کو زیادہ مستعدی و فرض شناسی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ دشمن شاطر ہونے کے ساتھ شہری و دیہی علاقوں میں تہہ در تہہ سرایت کر چکا ہے لیکن کچھ توجہ انتہاء پسندی پھیلانے والوں پر بھی مرکوز کرنا پڑے گی جن کی ارتقائی شکل ’عسکریت پسند‘ کہلاتی ہے اور اِن کے سہولت کار یا کالعدم قرار دی گئی مسلح تنظیمیں پہلے سے زیادہ منظم اور فعال دکھائی دے رہی ہیں! کہیں اِس کی وجہ ’پولیس ذرائع کے مطابق‘ وہ بااثر سیاسی افراد تو نہیں‘ جو کسی نہ کسی صورت ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے لئے سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی‘ قربانیاں اور اِس بظاہر تبدیل امن و امان کے منظرنامے میں جو ایک طبقہ سب سے زیادہ پریشان حال‘ اپنے گھر‘ ملازمت یا کاروبار کی حد تک محصور و محدود اُور مجبور دکھائی دیتا ہے اُن افراد پر مشتمل ہے جو معاشرے کے لئے کسی نہ کسی صورت ’کارآمد‘ ہیں۔ پھولوں کا شہر اُور امن کے گہوارے پشاور کی سردست حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے صاحب ثروت افراد سے بھتے کا مطالبہ کرنے والے افغانستان کے موبائل فون نمبروں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ فون نمبر ’انٹرنیشنل رومنگ‘ کی سہولت کے باعث نہ صرف خریدے بلکہ ان سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پشاور کے تین اطراف میں پھیلے قبائلی علاقوں میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں افغانستان کے موبائل فون سگنلز موصول کرکے پاکستان میں جرائم و تخریب کاری کے دھندے کو قائم و دائم رکھا گیا ہے۔ بھتے کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو ڈرانے کے لئے اُن کی رہائشگاہوں یا دفاتر کے باہر بم دھماکے ماضی کی طرح آج بھی ہو رہے ہیں لیکن انتہائی تعلیم یافتہ‘ جرائم کی باریکیوں کے آگاہ اور جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی سے لیس ’پولیس‘ ہونے کے باوجود ایسے افراد تک اگر رسائی نہیں ہو پا رہی تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ اجتماعی یا انفرادی طور پر معاشرے کے لئے خطرہ بننے والوں سے نمٹنے کے لئے غیرروائتی طریقۂ کار اختیار کیا جائے‘ بصورت دیگر چوہے اور بلی کے کارٹون (ٹام اینڈ جیری) کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک کہانی سے لطف اندوز ہونے والوں پر بھی افتاد پڑ سکتی ہے۔’’آئے ہے بیکسئ عشق پہ رونا غالب۔۔۔کس کے گھر جائے گا‘ سیلاب بلا‘ میرے بعد!‘‘
No comments:
Post a Comment