Monday, July 6, 2015

Jul2015: RTI & Self accountability

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اپنا گریباں چاک
جان لیجئے کہ وفاق کی سطح پر ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون جو سال 2014ء میں تیار کرنے کے بعد ایوان بالا (سینٹ) کے سامنے غور کے لئے پیش کیا گیا تاحال منظور نہیں کیا جاسکا! اِس سلسلے میں تین جولائی کو وفاقی حکومت کی جانب سے سینیٹ کی اُس ’سٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن و براڈکاسٹنگ‘ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں ’رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2014ء‘ منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا چونکہ اس قسم کی یقین دہانی پہلی مرتبہ نہیں کرائی جا رہی اِسی لئے سینیٹ کی مذکورہ ’اسٹینڈنگ کمیٹی‘ کے سربراہ سینیٹر کامل علی آغا اور دیگر اراکین اس بات پر شدید قسم کے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ شفاف طرز حکمرانی کے قیام کے لئے قانون کی منظوری میں غیرضروری تاخیر کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر ماہر قانون داں ہیں اور اِس مسودۂ قانون کی منظوری کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے علاؤہ رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی پیش پیش ہیں‘ جن کا کہنا ہے کہ ’’سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے یہ بل 15جولائی 2014ء کو منظور کر دیا تھا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وفاقی وزارت اطلاعات نے اِسے 17 نومبر 2014ء کو ہوئے کابینہ کے اجلاس میں پیش نہیں کیا جہاں سے اِس کی منظوری ہونے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے سامنے بطور حکومتی بل پیش ہونا ہے جو ایک آئینی تقاضا (طریقۂ کار) ہے۔یہ مسودۂ قانون عرصہ دو برس سے التوأ کا شکار ہے‘ جس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آ رہی۔‘‘ ملاحظہ کیجئے کہ جنہیں دنیا جہان کی ہر منطق سمجھ آتی ہے اُنہیں یہ سیدھی سادی منطق سمجھ نہیں آ رہی کہ کوئی ’اپنا گریباں چاک‘ کرنا کیوں چاہے گا!

جہاں تک شفاف طرز حکمرانی کی اصولی بات ہے تو اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے جس میں شامل ہر وزیر اور مشیر ’تعصبات سے بالاتر حکمرانی‘ کے قیام کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو چاہے وہ موجودہ حکومت ہو یا ماضی کی سیاسی و آمرانہ حکومتیں ہر دور میں اِس بات کی کوششیں ہوتی رہی کہ عام آدمی کو اُن خاص باتوں کا علم نہ ہوسکے جو اقتدار و اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ’دن کی تاریکیوں اور رات کے اجالوں میں‘ طے کی جاتی ہیں۔ اِس مرحلۂ فکر پر یہ بات سمجھ لیجئے کہ بُرائی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص بھی اِس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص غرور و تکبر میں مبتلا ہے‘ تو وہ اپنے قول سے ہمیشہ اِس کی مخالفت میں وعظ و نصیحت کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ اسی طرح اگر کوئی اعلیٰ و ادنی حکومتی اہلکار رشوت لیتا ہے تو وہ اِس حرام کام کا سب سے بڑا مخالف دکھائی دے گا۔ ہم قسمیہ جھوٹ بولتے ہیں اور بیک وقت جھوٹ سے نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہم محض اپنے فائدے کے لئے ظالم کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں امانت و دیانت کے معیار مشکوک ہیں۔ ہم نے کرنسی نوٹوں پر تحریر تو کر دیا ہے کہ ’رزق حلال عین عبادت ہے‘ لیکن کتنے ہیں جو کرنسی نوٹ کی پشت پر لکھی ہوئی اِس عبارت اور سگریٹ کی ڈبی پر لکھے ہوئے اُس خطرے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ جس کا تعلق آخرت و دنیا کی زندگی میں کامیابی یا ناکامی سے ہے۔ ہم ’ملک خدا‘ میں ’خدا کا نظام‘ نافذ نہیں کرسکے اور سوائے اللہ کے بتائے ہوئے دیگر ہر ایک طرز حکمرانی کے اصولوں کو آزما آزما کر اُس غلطی کو دُہرا رہے ہیں جس کے ’منفی نتائج‘ ہر شعبہ ہائے زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں!

اسلام کے بتائے ہوئے طرز حکمرانی میں کوئی بھی شخص حاکم وقت سے کھڑے ہوکر پوچھ سکتا ہے کہ اُس کے تن پر کپڑے کہاں سے آئے اور یہی وہ احتساب ہے جس سے خوفزدہ اسلام دشمن طاقتوں نے ایسے حکمرانوں کو مسلط کر رکھا ہے جو ہمیں اسلام کو عبادات کی حد تک محدود اور قبول کرنے کی مشورہ دیتے ہیں۔ عالم کفر نہیں چاہتا کہ اسلام کا بطور طرز حکمرانی نفاذ ہو۔

اللہ کی حاکمیت پر یقین ہونا اور ملک خدا میں اللہ سبحانہ کی حاکمیت نافذ کرنا دو الگ الگ (متضاد) باتیں ہیں اور دونوں کے الگ الگ عملی تقاضے بھی ہیں۔ مغربی دنیا کو ایک ایسا اسلام تو قبول ہے جس میں ریاست کے فیصلوں اور وسائل پر شاہی خاندان نسل در نسل ’قابض‘ ہو لیکن اُسے نہ تو خلافت اور نہ ہی شوریٰ جیسے انقلابی طرز حکمرانی کے نظریات پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے نام پر اُس نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اربوں ڈالر کی امداد دی جاتی ہے‘ جس میں شفافیت اور احتساب آئین کی شقوں میں تو کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنے کی اختیار بھی خود حکمرانوں ہی کے پاس ہوتا ہے!

تصور کیجئے ایک ایسے نظام کا جس نے کم و بیش چودہ سو برس قبل نہ صرف حکمراں اور عام آدمی کو قانون کی نظر میں ایک قرار دیا بلکہ ’معلومات تک رسائی‘ کا تصور بھی متعارف کرایا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 8جون632ء کو دنیا سے پردہ فرماتے ہیں اور اپنی اکسٹھ یا باسٹھ برس کی زندگی میں تجارت اور محنت مزدوری پر مبنی معاشرت کی مثالیں اپنی ذات کی صورت کچھ اِس طرح پیش کرتے ہیں کہ مخالف بھی اُن کے صادق و امین ہونے کی گواہی دے اُٹھیں تو کیا صرف یہی ایک معجزہ کافی نہیں؟

آج ہم اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی حکومت ’فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002ء‘ کی جگہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2014ء‘ منظور کرے جس کے تحت حکومتی امور و فیصلہ سازی میں رازداری کا غالب عنصر ختم ہو جائے گا اور کسی حکومتی ادارے یا اہلکار کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنا یا معلومات کو ضائع کرنا ایک جرم تصور ہوگا۔ یہاں تک کہ حکومت کی انتہائی خفیہ دستاویزات کو بھی عرصہ 20برس کے بعد عام آدمی دیکھ سکے گا۔

طرز حکمرانی اور مالی و انتظامی امور میں شفافیت کے لئے فیصلہ سازی اور حکومتی کارکردگی کے بارے میں ہرقسم کی ’معلومات تک رسائی‘ سے کم از کم جمہوریت کا ثمر عام آدمی تک پہنچ سکتا ہے لیکن یہ قانون اگر کابینہ کی منظوری سے لاگو ہو بھی جاتا ہے تو کسی بھی صورت اُس طرز حکمرانی کا نعم البدل نہیں ہوسکتا‘ جس میں حکمراں اِس تصور ہی سے کانپ اُٹھتے تھے کہ اُن کی ریاست میں انسان تو کیا اگر کوئی جانور بھی پیاسا مر گیا‘ تو اِس کے لئے انہیں رب تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا! جس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو ایک وقت کا کھانا میسر آنے کی اُمید نہ ہو‘ جہاں کی اکثریت پینے کے صاف پانی سے محروم ہو‘ جہاں حکومت ساٹھ لاکھ سے زائد بچوں کے لئے تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری ادا نہ کر رہی ہو‘ وہاں محض معلومات پر منحصر کسی قانون سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا ’خودفریبی‘ ہوگی۔’’اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں۔۔۔ ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے!‘‘

No comments:

Post a Comment