ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اَجنبی خواب!
اَجنبی خواب!
نامعلوم مقام سے سادہ لوح قاری ’سہراب یوسف صاحب‘ بذریعہ برقی مکتوب (اِی
میل) بارہا تجویز دے چکے ہیں کہ ’’تمام سرکاری ملازمین کو بذریعہ قانون اِس
بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو صرف اُور صرف سرکاری
اِداروں میں تعلیم دلوائیں۔‘‘ اُن کے خیال میں یہی ایک صورت باقی بچی ہے کہ
ہم تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کو سہارا دے سکیں۔ سرکاری درسگاہوں کے نتائج
کو دیکھتے ہوئے یہ ایک موزوں حل ہے جو کئی ایک ماہرین کی جانب سے پہلے بھی
پیش کیا جاچکا ہے لیکن اِس تجویز کو قابل عمل بنانے کی راہ میں دو پہاڑ
جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک تو وہ سرکاری ملازم جن کے بچے اعلیٰ تعلیمی
اداروں میں زیرتعلیم ہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ عام آدمی کی طرح
قربانی کا بکرا بنیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں سے رجوع کرنے والے مجبور و لاچار ہوتے ہیں اور سرکاری ملازمین تو خود کو حکمرانی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا استحقاق بلندوبالا ہوتا ہے۔ سرکاری گاڑی اور وسائل استعمال کرنے والوں کو خوداعتمادی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جو عوام کے ملازم ہونے کے بجائے خود کو اعلیٰ و ارفع تصور کرتے ہیں۔ اُن کا رعب و دبدبہ اور ناک پر رکھا ہوا غصہ عوام کے لئے اجنبی نہیں رہا۔ بھلا وہ کیسے اپنے بال بچوں کو عوام کے ساتھ گھلنے ملنے دیں گے! اس طرز عمل کا محرک یہ نہیں کہ سرکاری درسگاہوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں یا اُن کی تعمیرات اس حد تک ناقص ہیں کہ بچوں کا ایسے کانپتے ہوئے درودیوار کے سائے میں بیٹھنا بھی محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا یا تمام سرکاری سکولوں میں پینے کا صاف پانی‘ بیت الخلاء‘ کتب خانہ‘ سائنس کے مضامین کی تجربہ گاہیں‘ جسمانی و ذہنی نشوونما کے لئے ضروری کھیل کود‘ ہم نصابی سرگرمیاں کہ جن کے ذریعے زیرتعلیم بچوں کی خداداد صلاحیتیں اُجاگر ہوں‘ چاردیواری‘ حفاظتی انتظامات و دیگر بنیادی سہولیات یا وہاں پڑھایا جانے والا نصاب عصری تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں بلکہ مسئلہ اُس معلم کاہے جس کی بھرتی ایک واجبی تعلیمی معیار اور سفارش سے کر تو لی گئی لیکن اکثریت کی قابلیت و اہلیت ’مشکوک‘ ہے۔ ایسے سینکڑوں معلم پائے گئے جن کی تعلیمی اسناد جعلی تھیں۔ اب بھلا کون چاہے گا کہ وہ اپنے بچوں کو کسی ایسی درسگاہ بھیجے جہاں کے معلم کی قابلیت‘ مطالعہ اور علوم منتقل کرنے کی صلاحیت کے ساتھ تدریس کے شعبے سے خاطرخواہ دلی لگاؤ بھی نہ ہو؟ ہمیں سرکاری معلم کا سب سے کارآمد استعمال عام انتخابات کے موقع پر ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ وہ انتخابی عمل کا نگران مقرر کئے جاتے ہیں اور یہ کام اُن کے علاؤہ کوئی دوسرا کر بھی نہیں سکتا۔ گویا ہم نے قومی خزانے پر اُستادوں کو صرف اِس لئے پال رکھا ہے تاکہ اُن سے عام انتخابات کرائیں اور ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب کے دوران ہونے والے وقفے میں وہ کبھی کبھار سکول بھی تشریف لے جایا کریں تو یہ اُن کی مہربانی ہوگی‘ ورنہ اُن سے کون پوچھنے والا ہے کہ آپ کیا نتائج دے رہے ہیں!
ضرورت اگر ’معیار تعلیم‘ بلند کرنے کی ہے تو اس کے لئے صرف اساتذہ کو ہی پابند کر دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو وہاں تعلیم دلوائیں جہاں خود پڑھاتے ہیں یا اُن درسگاہوں میں‘ جو سرکار کی زیرنگرانی ہیں۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ خیبرپختونخوا کے تمام سرکاری ملازمین کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں کم وبیش ’دو لاکھ‘ افراد محکمۂ تعلیم کے ملازم اُور ان میں اکثریت اُساتذہ کی ہے۔ جب مالی سال کا بجٹ تشکیل دیا جا رہا ہوتا ہے تو اِن چار لاکھ ملازمین کے کئی ایک گروہ موقع محل کی مناسبت سے سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اُور اب تو یہ روایت بن چکی ہے کہ سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ اور درجات میں سالانہ اِضافہ اُس محکمانہ ترقیوں و شرائط کے علاؤہ کر دیا جاتا ہے‘ جس کے تحت وہ ملازم ہوتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ خیبرپختونخوا کی چار کروڑ آبادی کے مقابلے صوبائی حکومت کے لئے چار لاکھ اَفراد کا مفاد زیادہ اہم رہتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سرکاری ملازمین ایک ایسا ’منظم گروہ‘ ہے جس کے مفادات پر نہ تو ضرب لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُن کے ’خلاف‘ کوئی ایسا قانون یا قاعدہ منظور کیا جاسکتا ہے جسے وہ ’امتیازی‘ سمجھتے ہوں!
سرکاری درسگاہوں میں جملہ سرکاری ملازمین کے بال بچوں کی لازمی تعلیم سے متعلق ’قانون سازی‘ سماعتوں کے لئے خوشگوار ہے لیکن اس کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ سیاسی فیصلہ ساز ہیں کیونکہ اگر ایسا کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے تو اگلا منطقی و لازمی مطالبہ یہ ہو گا کہ خود سیاستدان بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں ہی سے تعلیم دلوائیں اور سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی ایک بھی شق نہیں جو سیاست دانوں کے مفادات پر ضرب لگاتی ہو۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو آئین کے تحت آمرانہ اختیارات حاصل ہیں اُور وہ سبھی سیاسی جماعتیں جو دن رات جمہوریت کے گیت الاپتی ہیں اگر اُن کی قیادت کی فہرست مرتب کی جائے تو پارٹی کی سربراہی اور کلیدی عہدوں پر ایک ہی خاندان کے لوگ مسلط دکھائی دیں گے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ ہمارے ہاں قوانین و قواعد کی کمی نہیں مسئلہ اُن پر عمل درآمد کرانے کا ہے۔ جہاں قانون عوام کے لئے اور انصاف صرف خواص کے لئے مخصوص ہو‘ وہاں اِس قسم کے اجنبی خواب نہیں دیکھا کرتے‘ کیونکہ اِس سے کئی قسم کی ’نفسیاتی بیماریاں‘ لاحق ہوسکتی ہیں۔ احساس محرومی بڑھ سکتا ہے اور اگر دماغ کی شریانیں بلندفشار خون برداشت نہ بھی کر سکیں تو لامحالہ طبعیت کے بوجھ سے زندگی بے معنی دکھائی دینے لگے گی۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ عام انتخابات میں امانت و دیانت کے حوالے سے جو اہلیت کے قواعد تشکیل دیئے گئے ہیں اُن پر عمل نہیں کیا جاتا؟ الیکشن کمیشن اپنی ساخت میں کتنا آزاد‘ خودمختار اور بااختیار ہے‘ اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اگر ’انتخابی اہلیت کے قواعد‘ ہی پیش نظر رکھے جائیں کہ جن کے مطابق کسی بھی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کرکے اُسے معاف کرانے والا‘ ٹیکس چوری (دروغ گوئی) میں ملوث یا کسی جرم میں سزا یافتہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ نہیں لے سکتا تو صوبائی و قومی اور ایوان بالا کے موجودہ اراکین کی فہرست میں جانے پہچانے کئی نام منہا کرنے پڑ جائیں گے؟
عوام (ہم عوام) کے لئے مشورہ ہے کہ اپنی اُوقات سے زیادہ بڑے اور کھلی آنکھوں سے خواب نہ دیکھیں اُور نہ ہی موجودہ استحصالی‘ طبقاتی اور تعصبات سے لبالب طرزحکمرانی میں تبدیلی کے لئے ایسے مطالبات یا حل پیش کریں کہ جن سے اعلیٰ و ادنی سرکاری ملازمین یا برسرحکومت یا حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سیاسی خاندانوں کے مفادات پر ضرب لگتی ہو۔
سرکاری تعلیمی اداروں سے رجوع کرنے والے مجبور و لاچار ہوتے ہیں اور سرکاری ملازمین تو خود کو حکمرانی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اُن کا استحقاق بلندوبالا ہوتا ہے۔ سرکاری گاڑی اور وسائل استعمال کرنے والوں کو خوداعتمادی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جو عوام کے ملازم ہونے کے بجائے خود کو اعلیٰ و ارفع تصور کرتے ہیں۔ اُن کا رعب و دبدبہ اور ناک پر رکھا ہوا غصہ عوام کے لئے اجنبی نہیں رہا۔ بھلا وہ کیسے اپنے بال بچوں کو عوام کے ساتھ گھلنے ملنے دیں گے! اس طرز عمل کا محرک یہ نہیں کہ سرکاری درسگاہوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں یا اُن کی تعمیرات اس حد تک ناقص ہیں کہ بچوں کا ایسے کانپتے ہوئے درودیوار کے سائے میں بیٹھنا بھی محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا یا تمام سرکاری سکولوں میں پینے کا صاف پانی‘ بیت الخلاء‘ کتب خانہ‘ سائنس کے مضامین کی تجربہ گاہیں‘ جسمانی و ذہنی نشوونما کے لئے ضروری کھیل کود‘ ہم نصابی سرگرمیاں کہ جن کے ذریعے زیرتعلیم بچوں کی خداداد صلاحیتیں اُجاگر ہوں‘ چاردیواری‘ حفاظتی انتظامات و دیگر بنیادی سہولیات یا وہاں پڑھایا جانے والا نصاب عصری تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں بلکہ مسئلہ اُس معلم کاہے جس کی بھرتی ایک واجبی تعلیمی معیار اور سفارش سے کر تو لی گئی لیکن اکثریت کی قابلیت و اہلیت ’مشکوک‘ ہے۔ ایسے سینکڑوں معلم پائے گئے جن کی تعلیمی اسناد جعلی تھیں۔ اب بھلا کون چاہے گا کہ وہ اپنے بچوں کو کسی ایسی درسگاہ بھیجے جہاں کے معلم کی قابلیت‘ مطالعہ اور علوم منتقل کرنے کی صلاحیت کے ساتھ تدریس کے شعبے سے خاطرخواہ دلی لگاؤ بھی نہ ہو؟ ہمیں سرکاری معلم کا سب سے کارآمد استعمال عام انتخابات کے موقع پر ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ وہ انتخابی عمل کا نگران مقرر کئے جاتے ہیں اور یہ کام اُن کے علاؤہ کوئی دوسرا کر بھی نہیں سکتا۔ گویا ہم نے قومی خزانے پر اُستادوں کو صرف اِس لئے پال رکھا ہے تاکہ اُن سے عام انتخابات کرائیں اور ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب کے دوران ہونے والے وقفے میں وہ کبھی کبھار سکول بھی تشریف لے جایا کریں تو یہ اُن کی مہربانی ہوگی‘ ورنہ اُن سے کون پوچھنے والا ہے کہ آپ کیا نتائج دے رہے ہیں!
ضرورت اگر ’معیار تعلیم‘ بلند کرنے کی ہے تو اس کے لئے صرف اساتذہ کو ہی پابند کر دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو وہاں تعلیم دلوائیں جہاں خود پڑھاتے ہیں یا اُن درسگاہوں میں‘ جو سرکار کی زیرنگرانی ہیں۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ خیبرپختونخوا کے تمام سرکاری ملازمین کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں کم وبیش ’دو لاکھ‘ افراد محکمۂ تعلیم کے ملازم اُور ان میں اکثریت اُساتذہ کی ہے۔ جب مالی سال کا بجٹ تشکیل دیا جا رہا ہوتا ہے تو اِن چار لاکھ ملازمین کے کئی ایک گروہ موقع محل کی مناسبت سے سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اُور اب تو یہ روایت بن چکی ہے کہ سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ اور درجات میں سالانہ اِضافہ اُس محکمانہ ترقیوں و شرائط کے علاؤہ کر دیا جاتا ہے‘ جس کے تحت وہ ملازم ہوتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ خیبرپختونخوا کی چار کروڑ آبادی کے مقابلے صوبائی حکومت کے لئے چار لاکھ اَفراد کا مفاد زیادہ اہم رہتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سرکاری ملازمین ایک ایسا ’منظم گروہ‘ ہے جس کے مفادات پر نہ تو ضرب لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُن کے ’خلاف‘ کوئی ایسا قانون یا قاعدہ منظور کیا جاسکتا ہے جسے وہ ’امتیازی‘ سمجھتے ہوں!
سرکاری درسگاہوں میں جملہ سرکاری ملازمین کے بال بچوں کی لازمی تعلیم سے متعلق ’قانون سازی‘ سماعتوں کے لئے خوشگوار ہے لیکن اس کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ سیاسی فیصلہ ساز ہیں کیونکہ اگر ایسا کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے تو اگلا منطقی و لازمی مطالبہ یہ ہو گا کہ خود سیاستدان بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں ہی سے تعلیم دلوائیں اور سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی ایک بھی شق نہیں جو سیاست دانوں کے مفادات پر ضرب لگاتی ہو۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو آئین کے تحت آمرانہ اختیارات حاصل ہیں اُور وہ سبھی سیاسی جماعتیں جو دن رات جمہوریت کے گیت الاپتی ہیں اگر اُن کی قیادت کی فہرست مرتب کی جائے تو پارٹی کی سربراہی اور کلیدی عہدوں پر ایک ہی خاندان کے لوگ مسلط دکھائی دیں گے۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ ہمارے ہاں قوانین و قواعد کی کمی نہیں مسئلہ اُن پر عمل درآمد کرانے کا ہے۔ جہاں قانون عوام کے لئے اور انصاف صرف خواص کے لئے مخصوص ہو‘ وہاں اِس قسم کے اجنبی خواب نہیں دیکھا کرتے‘ کیونکہ اِس سے کئی قسم کی ’نفسیاتی بیماریاں‘ لاحق ہوسکتی ہیں۔ احساس محرومی بڑھ سکتا ہے اور اگر دماغ کی شریانیں بلندفشار خون برداشت نہ بھی کر سکیں تو لامحالہ طبعیت کے بوجھ سے زندگی بے معنی دکھائی دینے لگے گی۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ عام انتخابات میں امانت و دیانت کے حوالے سے جو اہلیت کے قواعد تشکیل دیئے گئے ہیں اُن پر عمل نہیں کیا جاتا؟ الیکشن کمیشن اپنی ساخت میں کتنا آزاد‘ خودمختار اور بااختیار ہے‘ اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اگر ’انتخابی اہلیت کے قواعد‘ ہی پیش نظر رکھے جائیں کہ جن کے مطابق کسی بھی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کرکے اُسے معاف کرانے والا‘ ٹیکس چوری (دروغ گوئی) میں ملوث یا کسی جرم میں سزا یافتہ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ نہیں لے سکتا تو صوبائی و قومی اور ایوان بالا کے موجودہ اراکین کی فہرست میں جانے پہچانے کئی نام منہا کرنے پڑ جائیں گے؟
عوام (ہم عوام) کے لئے مشورہ ہے کہ اپنی اُوقات سے زیادہ بڑے اور کھلی آنکھوں سے خواب نہ دیکھیں اُور نہ ہی موجودہ استحصالی‘ طبقاتی اور تعصبات سے لبالب طرزحکمرانی میں تبدیلی کے لئے ایسے مطالبات یا حل پیش کریں کہ جن سے اعلیٰ و ادنی سرکاری ملازمین یا برسرحکومت یا حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سیاسی خاندانوں کے مفادات پر ضرب لگتی ہو۔
No comments:
Post a Comment