ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نعمت متروکہ!
نعمت متروکہ!
ضرورت ایجاد کی ماں تو مجبوری اُس خاندان کے سربراہ کا کردار ادا کرتی ہے‘
جسے پینے کا صاف پانی میسر نہیں! یہی وجہ ہے کہ وسائل رکھنے والے پاکستانی
’بوتل بند (بنام منرل) پانی‘ خریدنے پر مجبور ہیں لیکن بار بار کے لیبارٹری
ٹیسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بھی معیار اورتحفظ کی کوئی ضمانت نہیں!
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی کے تقریباً
پینتیس فیصد حصے کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ پاکستان کی نیشنل
ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009ء کے مطابق پانی‘ صفائی اور حفظان صحت سے متعلق
بیماریوں کے باعث قومی خزانے پر ہر سال ایک سو بارہ ارب روپے کے اخراجات کا
بوجھ پڑتا ہے! تعجب خیز امر ہے کہ حکومت علاج معالجے پر تو فراخدلی کے
ساتھ مالی وسائل خرچ کرتی ہے لیکن پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن نہیں
بناتی!
سال 2011ء میں ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق پانی سے متعلق اخراجات کا اُنتیس فیصد بوتل بند پانی کی کھپت پر خرچ ہوجاتا ہے جو کہ کل معاشی قیمت کا ایک اعشاریہ چار فیصد ہے۔ استعمال ہونے والے بوتل بند پانی کی لاگت چار ارب روپے سے زیادہ تھی۔
حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی بوتل بند پانی کے معیار پر رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ ادارہ شہری و دیہی اور زیرِ زمین پانی کے حوالے سے تحقیق اور ملک کے چاروں صوبوں میں اُنیس تجزیہ گاہوں کے ذریعے نگرانی جیسے متعدد کام کرتا ہے اُور سہ ماہی کی بنیاد پر ٹیسٹ ’وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ کو جمع کرواتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں مارکیٹ میں دستیاب 71برانڈز میں سے ہر ایک کی چار بوتلوں کے نمونے جمع کیے گئے اور موقع ہی پر انہیں شناختی کوڈ الاٹ کر کے سیل کر دیا گیا۔ یہ نمونے پاکستان کے تین صوبوں کے سات بڑے شہروں اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ٹنڈو جام‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ سیالکوٹ اور کراچی سے جمع کیے گئے جہاں فروخت ہونے والے آٹھ برانڈز انسانی استعمال کے لئے حتمی طور پر غیر محفوظ پائے گئے! کیونکہ ان میں آرسینِک‘ سوڈیم اور پوٹاشیم کی مقدار قومی معیاراتی ادارے کی منظور شدہ سطح سے کہیں زیادہ تھی! اگر آرسینک کی سطح مقرر کردہ معیار سے بڑھ جائے تو وہ رفتہ رفتہ اعصابی نظام‘ جگر اور گردوں کو تباہ کر سکتی ہے اور تولیدی اعضا کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ پوٹاشیم کی بڑھی ہوئی مقدار گردوں‘ دل‘ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس (شوگر) کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ تین مزید برانڈز کے تجزیوں میں بیکٹیریائی آلودگیاں پائی گئیں۔ جراثیمی آلودگی ہیضہ‘ اسہال‘ پیچش‘ یرقان‘ ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے!
’’نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009ء‘‘ کے مطابق پینے کے صاف پانی تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ پالیسی 2010ء میں منظور کیے گئے پینے کے پانی کی کوالٹی کے قومی معیار کے نفاذ پر زور دیتی ہے لیکن عمل درآمد کے حوالے سے حقائق کچھ اور ہیں۔ یونیسیف کی 2009ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53 ہزار 300 سے زائد بچے غیر محفوظ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے ڈائیریا کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ غیر معیاری پانی بیچنے سے متعلق قوانین و قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم پچاس ہزار روپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن عدالتی نظام کی سست رفتاری کی وجہ سے آلودہ پانی فروخت کرنے والوں کو فوری طور پر سزائیں نہیں ہوتیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو جتنا بڑا جرم کرتا ہے اُسے قانون سے بچنے کی اُتنی ہی راہیں مل جاتی ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ غیرصحت مند پانی فروخت کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نجی سطح پر پانی صاف کرنے کے ’ریورس اوسموسس پلانٹس‘ نصب کرا لئے گئے ہیں۔ افسوسناک ہے کہ پینے کے پانی کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ گراوٹ کا شکار ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ملک کے چوبیس بڑے شہروں میں رہنے والوں کی اکثریت آلودہ پانی استعمال کر رہی ہے اور آلودگی کی تعریف ہے کہ اس میں منظور شدہ معیار سے زیادہ مقدار میں تحلیل شدہ ٹھوس اجزأ پائے جاتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور بھی انہی شہروں میں شامل ہے جہاں پینے کا صاف پانی ایک نعمت متروکہ ہے۔ آپ پانی چاہے ٹیوب ویل سے حاصل کر رہے ہوں یا کسی دوسرے ذریعے سے صارفین کو صاف پانی کے حصول کے لئے خود کوششیں کرنا ہوں گی۔
امریکہ کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) نے پشاور میں پانی کے ترسیلی نظام کی اصلاح اور نئے پائپ لائن بچھانے کے لئے امداد کا اعلان کر رکھا ہے‘ جس پر اکتفا کئے بناء وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جناب پرویز خٹک سے درخواست ہے کہ نئے مالی سال میں اُنہوں نے پشاور کے لئے جس اربوں روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ہے اُس کے استعمال کا آغاز پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے کریں کیونکہ جو حکومت ایک بوند صاف پانی نہیں دے سکتی وہ زیادہ بڑے اور مشکل کام بھلا کیسے پایہ تکمیل تک پہنچا پائیگی۔ ابتدأ اگر پشاور کی بانوے یونین کونسلوں سے کی جائے اور سوچا جائے کہ خیبرپختونخوا کے ہر باسی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کم سے کم وقت میں کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے تو یہ صرف ’کارہائے نمایاں‘ ہی نہیں بلکہ کارنامہ اور دیگر صوبوں کے لئے فقیدالمثال عمل ہوگا۔
سال 2011ء میں ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق پانی سے متعلق اخراجات کا اُنتیس فیصد بوتل بند پانی کی کھپت پر خرچ ہوجاتا ہے جو کہ کل معاشی قیمت کا ایک اعشاریہ چار فیصد ہے۔ استعمال ہونے والے بوتل بند پانی کی لاگت چار ارب روپے سے زیادہ تھی۔
حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی بوتل بند پانی کے معیار پر رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ ادارہ شہری و دیہی اور زیرِ زمین پانی کے حوالے سے تحقیق اور ملک کے چاروں صوبوں میں اُنیس تجزیہ گاہوں کے ذریعے نگرانی جیسے متعدد کام کرتا ہے اُور سہ ماہی کی بنیاد پر ٹیسٹ ’وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ کو جمع کرواتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں مارکیٹ میں دستیاب 71برانڈز میں سے ہر ایک کی چار بوتلوں کے نمونے جمع کیے گئے اور موقع ہی پر انہیں شناختی کوڈ الاٹ کر کے سیل کر دیا گیا۔ یہ نمونے پاکستان کے تین صوبوں کے سات بڑے شہروں اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ٹنڈو جام‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ سیالکوٹ اور کراچی سے جمع کیے گئے جہاں فروخت ہونے والے آٹھ برانڈز انسانی استعمال کے لئے حتمی طور پر غیر محفوظ پائے گئے! کیونکہ ان میں آرسینِک‘ سوڈیم اور پوٹاشیم کی مقدار قومی معیاراتی ادارے کی منظور شدہ سطح سے کہیں زیادہ تھی! اگر آرسینک کی سطح مقرر کردہ معیار سے بڑھ جائے تو وہ رفتہ رفتہ اعصابی نظام‘ جگر اور گردوں کو تباہ کر سکتی ہے اور تولیدی اعضا کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ پوٹاشیم کی بڑھی ہوئی مقدار گردوں‘ دل‘ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس (شوگر) کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ تین مزید برانڈز کے تجزیوں میں بیکٹیریائی آلودگیاں پائی گئیں۔ جراثیمی آلودگی ہیضہ‘ اسہال‘ پیچش‘ یرقان‘ ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے!
’’نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009ء‘‘ کے مطابق پینے کے صاف پانی تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ پالیسی 2010ء میں منظور کیے گئے پینے کے پانی کی کوالٹی کے قومی معیار کے نفاذ پر زور دیتی ہے لیکن عمل درآمد کے حوالے سے حقائق کچھ اور ہیں۔ یونیسیف کی 2009ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53 ہزار 300 سے زائد بچے غیر محفوظ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے ڈائیریا کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ غیر معیاری پانی بیچنے سے متعلق قوانین و قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم پچاس ہزار روپے جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن عدالتی نظام کی سست رفتاری کی وجہ سے آلودہ پانی فروخت کرنے والوں کو فوری طور پر سزائیں نہیں ہوتیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو جتنا بڑا جرم کرتا ہے اُسے قانون سے بچنے کی اُتنی ہی راہیں مل جاتی ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ غیرصحت مند پانی فروخت کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نجی سطح پر پانی صاف کرنے کے ’ریورس اوسموسس پلانٹس‘ نصب کرا لئے گئے ہیں۔ افسوسناک ہے کہ پینے کے پانی کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ گراوٹ کا شکار ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ملک کے چوبیس بڑے شہروں میں رہنے والوں کی اکثریت آلودہ پانی استعمال کر رہی ہے اور آلودگی کی تعریف ہے کہ اس میں منظور شدہ معیار سے زیادہ مقدار میں تحلیل شدہ ٹھوس اجزأ پائے جاتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور بھی انہی شہروں میں شامل ہے جہاں پینے کا صاف پانی ایک نعمت متروکہ ہے۔ آپ پانی چاہے ٹیوب ویل سے حاصل کر رہے ہوں یا کسی دوسرے ذریعے سے صارفین کو صاف پانی کے حصول کے لئے خود کوششیں کرنا ہوں گی۔
امریکہ کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) نے پشاور میں پانی کے ترسیلی نظام کی اصلاح اور نئے پائپ لائن بچھانے کے لئے امداد کا اعلان کر رکھا ہے‘ جس پر اکتفا کئے بناء وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جناب پرویز خٹک سے درخواست ہے کہ نئے مالی سال میں اُنہوں نے پشاور کے لئے جس اربوں روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ہے اُس کے استعمال کا آغاز پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے کریں کیونکہ جو حکومت ایک بوند صاف پانی نہیں دے سکتی وہ زیادہ بڑے اور مشکل کام بھلا کیسے پایہ تکمیل تک پہنچا پائیگی۔ ابتدأ اگر پشاور کی بانوے یونین کونسلوں سے کی جائے اور سوچا جائے کہ خیبرپختونخوا کے ہر باسی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کم سے کم وقت میں کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے تو یہ صرف ’کارہائے نمایاں‘ ہی نہیں بلکہ کارنامہ اور دیگر صوبوں کے لئے فقیدالمثال عمل ہوگا۔
No comments:
Post a Comment