Friday, July 3, 2015

Jul2015: The tale

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ایک کہانی
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا پختہ یقین ہے کہ ’دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی لیکن اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے خاطرخواہ ثبوت و شواہد موجود نہیں۔ ایک عرصے تک صوبہ پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کے کردار کا بطور خاص حوالہ دیتے ہوئے بار بار دہرایا جاتا رہا ہے کہ اُنہوں نے 35 حلقوں کے انتخابی نتائج تبدیل کرائے لیکن یکایک اِس بیان کو سیاسی قرار دیتے ہوئے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’وہ ایک سنی سنائی بات تھی‘ جس سے متعلق شواہد اُن کے پاس نہیں!‘‘ تو کیا ہم کسی سیاسی جماعت کی قیادت سے اِس قدر غیرذمہ دارانہ طرز عمل کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ کہیں تحریک انصاف اور نجم سیٹھی کے درمیان معاملات طے تو نہیں پا گئے اور تحریک انصاف اپنی توانائیاں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے ناجائز ہونے پر خرچ کرنے کی بجائے چاہتی ہے کہ پنجاب میں قدم مضبوط کرے اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اُن رہنماؤں کو بطور خاص تحریک انصاف میں شامل کیا جارہا ہے جو اپنے اپنے انتخابی حلقے جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک اصولی مؤقف کی شکست ہے۔ آج کی تحریک انصاف میں ملک کی سبھی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے اور زیادہ تر کا تعلق اُسی گروہ کے اراکین سے ہے جن کی مبینہ بدعنوانیوں کا قوم کے سامنے رونا رویہ جاتا رہا ہے!

پاکستان کی سیاست کا المیہ اور مرکزی خیال و خلاصہ یہی ہے کہ اس میں نہ تو ایک دوسرے کے بارے میں برداشت پائی جاتی ہے اور نہ ہی بالغ النظری۔ جو عوام کے دلوں میں اپنے بیانات کے ذریعے جس قدر زیادہ شکوک و شبہات ڈال سکے اُسے زیادہ بڑا رہنما کہا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاست نام ہی مصلحتوں کے تحت دروغ گوئی کا ہے اور اس میں سبھی سیاسی جماعتیں ایک جیسا طرز عمل رکھتی ہیں۔ ہم کسی ایک سیاسی جماعت کو دروغ گوئی کے مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ سبھی نے کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی سیاسی بیانات کے ذریعے شکوک و شبہات کی گرد اُڑائی ہے۔ علاؤہ ازیں ہمارے ہاں اقتدار کو طول دینے یا اقتدار تک رسائی کے لئے سازشوں اور گٹھ جوڑ کی سیاست میں کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ فوجی آپریشنز‘ نجکاری کے مشکوک سودوں اور مشرف کی قسمت کے بارے میں افواہوں کے ساتھ ساتھ یہاں ’پینتیس پنکچروں‘ کی کہانی نے بھی ایک عرصے تک دھوم مچائی اور ان سے متعلق نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر مباحثے ہوئے‘ جس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مہارت کا ایک سے بڑھ کر ایک بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔

پینتیس پنکچروں والی بات گذشتہ برس دس فروری سے زیرگردش ہے جب عمران خان نے سپرئم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے جو کچھ کہا بعدازاں وہ خود کو اُن الفاظ سے پیدا ہوئے تنازعہ سے الگ نہ رکھ سکے اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئٹر کی سرگوشیوں بھی محدود نہ رہ سکیں۔ اُن کا یہ دعویٰ بھی رہا کہ نجم سیٹھی کی بطور پی سی بی چیئرمین تقرری ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کا انعام ہے۔ بقول وزیراعظم کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید پی ٹی آئی رہنماؤں نے نجم سیٹھی میں نقص اس وقت تلاش کرنے شروع کئے جب انہیں ’کرکٹ بورڈ‘ کا چیئرمین مقرر کیا گیا!

تحریک انصاف کی انتخابی دھاندلی سے متعلق کہانی کا آغاز چار حلقوں (این اے ایک سو بائیس‘ ایک سو پچیس‘ ایک سو دس اور ایک سو چوون) میں ہوئی مبینہ دھاندلی سے ہوتا ہے اور اس پوری کہانی کے پیچھے کوئی ایسی بدنیتی نہیں تھی جو عموماً سیاسی جماعتیں اختیار کرتی ہیں تاکہ وہ برسراقتدار آ سکیں۔ ظاہر ہے کہ اگر تحریک انصاف کی جانب سے چار انتخابی حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات بروقت کرائی جاتیں تو آج سیاسی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ شاید پی ٹی آئی کو آخر تک اس تنازعے کے طول پکڑ جانے کی توقع نہیں تھی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے‘ کہ یہ پنکچر کی داستان کے بارے میں پارٹی کی مرکزی قیادت بھی میں شامل ہر کردار آگاہ بھی نہ ہو کیونکہ بنی گالہ سے آنے والے بہت سے فیصلے آمرانہ مزاج رکھتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہوجاتا ہے یا نہیں‘ پینتیس پنکچر کے طوفان کا مقصد بس یہی تھا کہ نواز لیگ حکومت کے جائز ہونے پر سوالات اُٹھائیں جائیں اور اس مقصد کے حصول میں ’پی ٹی آئی‘ بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔

جب ہمارے ہاں معمولی جرائم کرنے والے اپنے پیچھے سراغ نہیں چھوڑتے تو بھلا ایک دو نہیں تیس سے زائد انتخابی حلقوں میں دھاندلی کا منصوبہ اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے والے کیا اِس قدر سادہ لوح تھے کہ دھرے جا سکیں گے۔ انتخابی مراحل میں دھاندلی کے امکانات درجنوں ہیں اور اگرچہ الیکشن کمیشن کے سخت سے سخت قواعد موجود ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ سچ حسب ضرورت اور کم سے کم بولنے کی رسم نے صرف سیاسی ہی نہیں سماجی اقدار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو پنجاب کے لئے بطور ایک متبادل قیادت دیکھتی ہے اور اگر یہ اگلے عام انتخابات میں ایک اہم انتخابی حریف کے طور پر اُبھرنا چاہتی ہے‘ اور اسے پینتیس پنکچروں کی طرح بہت سی ایسی کہانیاں تلاش کرنا پڑیں گی‘ جن پر قوم یقین کر لے اور اگر وہ شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصولی سیاست کرتی ہے تو ایسے ٹھنڈے مزاج کی قیادت اور سیاست کی موجودہ سیاسی نظام میں گنجائش نہیں۔

No comments:

Post a Comment