Saturday, July 4, 2015

Jul2015: MDGs Targets Target

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اہداف کا ہدف!
نئی صدی کے آغاز پر ترقی یافتہ ممالک نے یہ بات اپنے ضمیر پر ’بوجھ‘ کی صورت محسوس کی کہ ایک ہی دنیا میں رہتے ہوئے اِس قدر ’اونچ نیچ‘ پائی جاتی ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور غربت کے شکار ممالک کی مدد کرنے کے لئے کچھ شعبوں کی نشاندہی کرکے ’ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز‘ کے نام سے اہداف مقرر کئے گئے اور ترقی یافتہ ممالک نے مالی وسائل فراہم کرنے کا بیڑا اُٹھایا لیکن اصل کام یعنی تعلیم وصحت سمیت پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب جیسی ضروریات کی منصوبہ بندی اور عملی اقدامات ممالک نے خود کرنا تھے۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان اُن پچانوے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے کہ جس نے نکاسی آب کے ’ملینیئم ڈویلپمنٹ گول (ایم جی ڈی)‘ کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف‘ کے مشترکہ مانیٹرنگ پروگرام نے ’ایم جی ڈی‘ کے ایک ہدف پر پاکستان میں ہوئی ترقی کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے اسے سراہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی کو نکاسی آب کی سہولیات میسر ہیں جبکہ سال 1990ء میں یہ تناسب صرف چوبیس فیصد تھا‘ یہ وہ نمایاں پیشرفت ہے جو اب تک صرف پچانوے ممالک میں ہی سامنے آئی ہے۔ پاکستان کو ان 77ممالک میں بھی شامل کیا گیا ہے جنہوں نے پینے کے پانی اور نکاسی آب کے ایم جی ڈی کے اہداف کو حاصل کیا ہے۔اسی طرح گزشتہ دہائی کھلے آسمان تلے رفع حاجت کرنے والے افراد کی تعداد چار کروڑ ساٹھ لاکھ سے کم ہوکر ڈھائی کروڑ رہ گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کے باسیوں کے درمیان پانی اور نکاسی آب کی خدمات تک بہتر رسائی کے معاملے میں خلا میں کمی نہیں آئی جس کی وجہ عدم مساوات ہے۔

ٹائلٹ کا استعمال دیہی علاقوں متعارف کرانے کے ساتھ ایک معمول بن چکا ہے تاہم جن شہری علاقوں میں بیت الخلاء کے حوالے سے ترقی کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی وہاں کی صورتحال بھی توجہ چاہتی ہے۔ عمومی رویہ یہی ہے کہ گھروں کی نکاسی آب نالے نالیوں یا نہروں میں بہا دی جاتی ہے۔ ماضی میں جو نہری نظام کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا اب اس کا ایک مقصد نکاسی آب سے جوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کھیتوں کو ملنے والا آلودہ پانی مضر صحت سبزی کی پیداوار کے لئے ذمہ دار ہے۔ ہمارے شہر‘ دیہات اور کھیت آلودہ ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں ماحول آخری سانسیں لے رہا ہے۔

نوے کی دہائی کے بعد سے ہونے والی پیشرفت کے باوجود رپورٹ میں دنیا بھر کے دو ارب سے زائد افراد کے لئے مزید کام کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جنہیں تاحال نکاسی آب کی سہولیات میسر نہیں جبکہ اس تناظر سے بڑے پیمانے پر عدم مساوات پر بھی فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی ایشیاء وہ خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں یعنی لگ بھگ نو کروڑ سے زائد افراد بہتر نکاسی آب تک رسائی نہیں رکھتے!

’ملینیئم ڈویلمپنمٹ گولز‘ میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ’عرب نیوز‘ میں لکھے مضمون میں کہا ہے کہ ’’پاکستان میں ساٹھ لاکھ بچوں کو سکولوں تک رسائی حاصل نہیں!‘‘ یاد رہے کہ ایک طرف ہم نکاسی آب کا ’ملینیئم ڈویلپمنٹ گول‘ حاصل کرنے پر مسرور ہیں لیکن دوسری جانب اسی حکمت عملی کے تحت مقرر کردہ ایک ہدف ہماری نظروں سے اُوجھل ہے۔

کیا ہم اِس عالمی تصور کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ کوئی ملک اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں ہر شعبے میں پسماندگی کا سبب شرح خواندگی کا شرمناک حد تک کم ہونا ہے۔ میٹرک کو بھی خواندہ تسلیم کر لیا جائے تو شرح خواندگی بیس فیصد سے بھی کم ہے۔ حکومت کی دلچسپی کے بغیر تعلیمی میدان میں ترقی ممکن نہیں۔ گزشتہ اور آج کی حکومتوں کی تعلیمی شعبے میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ سب سے کم توجہ اسی شعبے پر دی جاتی ہے۔ تعلیم کے لئے بجٹ محض دو فیصد مختص کیا جاتا ہے اور پھر تعلیمی میدان میں پسماندگی کی وجہ دہرا نظام تعلیم بھی۔ وزیراعظم اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں ساٹھ لاکھ بچوں کو سکولوں تک رسائی حاصل نہیں۔ بچوں کی سکولوں تک رسائی کو ممکن بنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری خود اُسی پر عائد ہوتی ہے جو یہ بات دنیا کو بتا رہا ہے! میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ان کی جماعت کی سات سال سے حکومت ہے۔ اکیسویں صدی کی ڈیڑھ دہائی گزر گئی اس دور میں بھی لاکھوں بچوں کا سکولوں سے الگ رہنا لمحہ فکریہ ہونا چاہئے لیکن چونکہ یہ معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہو رہا ہے اِس لئے فوری حل کے لئے مختلف و منفرد طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ اگر ہم روائتی سکول اور درس و تدریس کا نظام بنانے کی کوشش کرتے رہے تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساٹھ لاکھ بچوں کا عدد بڑھتا چلا جائے گا۔ ہمیں کم سے کم وقت میں فوری حل تلاش کرنا ہے اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ سکول سے باہر پچاس فیصد بچوں کی تعداد خیبرپختونخوا سے ہے۔ یہ تعداد اس قدر بڑی ہے کہ دنیا کے 9ممالک کی آبادی سے زیادہ بچے ہمارے ہاں صرف سکولوں سے باہر ہیں! ترجیحات کا تعین کرنے اور اُن پر عمل درآمد یقینی بنانے کے مراحل زیادہ توجہ‘ سنجیدگی اور دستیاب وسائل کے دانشمندانہ استعمال کے متقاضی ہیں۔
MDG target is acheieved but number of others still missing

No comments:

Post a Comment