ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
توقعات
توقعات
خیبرپختونخوا کی قانون ساز اسمبلی کے معزز اراکین نہ صرف شایان شان مغلیہ
’حفظ مراتب‘ رکھتے ہیں بلکہ کانچ سے بھی نازک استحقاق رکھنے والوں کا ایوان
بھی خاص ہے جس کی کارکردگی سے متعلق اگر کوئی عام آدمی جاننا چاہے تو اُس
کی راہ میں ایک نہیں بلکہ دو قانون رکاوٹ بنیں گے۔ پہلا قانون 1975ء میں
منظور ہوا تھا جس میں اراکین اسمبلی کی مراعات طے کرتے ہوئے (شاید روانی
میں) یہ بات بھی لکھ دی گئی کہ اسمبلی کی کاروائی ’صیغہ راز‘ میں رکھی جائے
گی۔ پھر ’پرویلیجیز ایکٹ‘ سے متصادم ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ یعنی معلومات تک
رسائی کا وہ عمومی قانون بنا جس کا اطلاق صوبائی حکومت کے ہر محکمے پر کر
دیا گیا لیکن اِسے 1975ء کے آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے 23جون کو ایک
آئینی ترمیم پیش کی گئی جس کا لب لباب یہ ہے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے
قانون سے صوبائی اسمبلی اور اس کے اراکین مستثنیٰ ہوں گے۔ ’’اک لہر مجھے
کھینچ کے لے آئی بھنور میں۔۔۔ وہ لہر‘ جسے میں نے کنارے سے اُٹھایا۔‘‘ یادش
بخیر 31 اکتوبر 2013ء کو خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین نے جب ’معلومات تک
رسائی‘ کا قانون منظور کیا تو اس کا مقصد واضح تھا اور وہ یہ کہ ’’ماضی کی
طرح حکمرانی کے راز‘ راز نہیں رہیں گے۔ شفاف طرز حکمرانی اُور جمہوریت کو
توانا بنانے کے لئے کسی بھی شخص یا ادارے سے متعلق معلومات محدود نہیں رکھی
جائیں گی۔‘‘ عوام کو یہ مشروط حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی حکومتی فیصلے
اور عمل کے بارے میں جب کبھی بھی جاننا چاہیں تو متعلقہ سرکاری محکمہ حسب
منشاء‘ حسب تشفی معلومات فراہم کریں۔ یہی وجہ تھی کہ اِس قانون کو دنیا کے
چند بہترین قوانین میں شمار کیا گیا اور خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت کے
مرکزی قائدین ہر تقریب میں اِس قانون (اعزاز) کا فخریہ ذکر کرنے لگے لیکن
آخر ایسا کیا ہوا کہ صوبائی قانون سازوں کی 31 اکتوبر 2013ء والی سوچ 23جون
2015ء تک آتے آتے یکسر تبدیل ہو گئی؟ آخر 600 دن بعد اِس بات کی ضرورت ہی
کیوں پیش آئی کہ صوبائی اسمبلی کی کاروائی اور اس کے اراکین کے بارے میں
معلومات خفیہ ہوں تو بہتر ہوگا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ 1 سال 7ماہ اُور 23
دن کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہو کہ اگر ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون پر
عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے اور ہر خاص و عام اِس کا استعمال شروع کر دیتا
ہے تو اس سے اراکین صوبائی اسمبلی کی کارکردگی کا عام انتخابات سے قبل ہی
احتساب ہونا شروع ہو جائے گا؟
خیبرپختونخوا کی پیروی کرتے ہوئے ’معلومات تک رسائی کا قانون ایک مختلف نام کے ساتھ پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے 12 دسمبر 2013ء کے روز منظور کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہونے والی یہ قانون سازی وفاقی حکومت کی جانب سے 2002ء‘ بلوچستان حکومت کی جانب سے 2005ء اور سندھ حکومت کی جانب سے 2006ء میں منظور کئے جانے والے ایکٹ سے کہیں گنا زیادہ طاقتور اُور جامع تھی کیونکہ اِس میں نہ صرف ہر حکومتی محکمے کی کارکردگی یا فیصلوں اور حکومتی حکمت عملیوں سے متعلق معلومات طلب کی جاسکتی تھیں بلکہ ادنی و اعلیٰ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اُور مراعات کی بابت بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کون کیا ہے‘ کیا خرچ کر رہا ہے‘ کیا خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ کسی ترقیاتی منصوبے کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کئے گئے‘ کسی ایک یا بہت سے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے کن افراد کو دیئے گئے‘ سرکاری محکموں میں ملازمتیں کس اہلیت کی بنیاد پر دی گئیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات شاہانہ مزاج رکھنے والوں کو کہاں ہضم ہو سکتی تھی اور یہی سبب تھا کہ صوبائی اسمبلی کو مستثنیٰ قرار دینے کے لئے ایک ترمیم لائی گئی جو آناً فاناً بناء اختلافی نوٹ منظور کر لی گئی۔ کاش عوام کے مفاد کا کوئی قانون بھی منظور کرانے میں بھی اِسی قدر مستعدی کا مظاہرہ موجود ہونے کی کوئی مثال موجود ہوتی! یقیناًاراکین اسمبلی کے بعد سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور فیصلہ سازی کو بھی مستثنیٰ قرار دینے کی ترمیم زیرغور ہو گی کیونکہ بدعنوانی کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی بلکہ اس میں سیاسی حکمرانوں کے ساتھ افسرشاہی کی شراکت داری سانجھی ہوتی ہے!
عام آدمی کو جان و مال کا تحفظ اُور انصاف جیسے اُوجھل بنیادی تقاضے کے علاؤہ پینے کے صاف پانی جیسی بظاہر معمولی دکھائی دینے والی ضرورت تک رسائی چاہئے۔ حکومت کی سرپرستی میں بلاامتیاز‘ غیرطبقاتی‘ یکساں نصابی نظام تعلیم کب اور کیسے رائج ہوگا۔ مالی وسائل نہ رکھنے والوں کو علاج کی معیاری سہولیات کب میسر آئیں گی۔ رشوت‘ سفارش اور سیاسی تعصب سے پاک طرز حکمرانی کے قیام کا وعدہ کس کا تھا اُور اِسے کون ایفاء کرے گا۔ اِس خواب کو حقیقت کا جامہ کون پہنائے گا کہ ’آئندہ ذاتی و سیاسی مفادات حکومتی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔‘ منتخب نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری ہونے میں مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔ سرکاری وسائل کے استعمال میں احتیاط کیا محض انتخابی وعدہ تھا۔ جان لیجئے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کے قول و فعل سے امانت و دیانت اور صداقت کی بوندیں اُس وقت تک نہیں ٹپکیں گی‘ جب تک وہ اپنی ہی خواہشات اور خودفریبی کے حصار سے باہر نہیں آ جاتے۔ اس صورت میں بس ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ دوسروں کا قبلہ درست کرنے والے اصلاح و تبدیلی کا آغاز اپنی ذات گرامی و کارکردگی کے احتساب سے کریں۔ اگر دال میں کچھ بھی کالا نہیں تو پھر سرکاری محکموں بشمول صوبائی اسمبلی کے ہر رکن کے ایک سے زیادہ چہرے کیوں ہیں۔ کیا وقت کا تقاضا نہیں کہ افراد اور محکموں کی کارکردگی‘ سرخ فیتے اور کار سرکار سے جڑی رازداری جیسی روایات کا تسلسل ختم ہونا چاہئے۔’’ایسا کرتے ہیں اُلٹ دیتے ہیں زنبیل حیات۔۔۔ اُور اس میں سے کوئی کام کا پل ڈھونڈتے ہیں!‘‘
خیبرپختونخوا کی پیروی کرتے ہوئے ’معلومات تک رسائی کا قانون ایک مختلف نام کے ساتھ پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے 12 دسمبر 2013ء کے روز منظور کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہونے والی یہ قانون سازی وفاقی حکومت کی جانب سے 2002ء‘ بلوچستان حکومت کی جانب سے 2005ء اور سندھ حکومت کی جانب سے 2006ء میں منظور کئے جانے والے ایکٹ سے کہیں گنا زیادہ طاقتور اُور جامع تھی کیونکہ اِس میں نہ صرف ہر حکومتی محکمے کی کارکردگی یا فیصلوں اور حکومتی حکمت عملیوں سے متعلق معلومات طلب کی جاسکتی تھیں بلکہ ادنی و اعلیٰ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اُور مراعات کی بابت بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کون کیا ہے‘ کیا خرچ کر رہا ہے‘ کیا خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ کسی ترقیاتی منصوبے کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کئے گئے‘ کسی ایک یا بہت سے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے کن افراد کو دیئے گئے‘ سرکاری محکموں میں ملازمتیں کس اہلیت کی بنیاد پر دی گئیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات شاہانہ مزاج رکھنے والوں کو کہاں ہضم ہو سکتی تھی اور یہی سبب تھا کہ صوبائی اسمبلی کو مستثنیٰ قرار دینے کے لئے ایک ترمیم لائی گئی جو آناً فاناً بناء اختلافی نوٹ منظور کر لی گئی۔ کاش عوام کے مفاد کا کوئی قانون بھی منظور کرانے میں بھی اِسی قدر مستعدی کا مظاہرہ موجود ہونے کی کوئی مثال موجود ہوتی! یقیناًاراکین اسمبلی کے بعد سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور فیصلہ سازی کو بھی مستثنیٰ قرار دینے کی ترمیم زیرغور ہو گی کیونکہ بدعنوانی کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی بلکہ اس میں سیاسی حکمرانوں کے ساتھ افسرشاہی کی شراکت داری سانجھی ہوتی ہے!
عام آدمی کو جان و مال کا تحفظ اُور انصاف جیسے اُوجھل بنیادی تقاضے کے علاؤہ پینے کے صاف پانی جیسی بظاہر معمولی دکھائی دینے والی ضرورت تک رسائی چاہئے۔ حکومت کی سرپرستی میں بلاامتیاز‘ غیرطبقاتی‘ یکساں نصابی نظام تعلیم کب اور کیسے رائج ہوگا۔ مالی وسائل نہ رکھنے والوں کو علاج کی معیاری سہولیات کب میسر آئیں گی۔ رشوت‘ سفارش اور سیاسی تعصب سے پاک طرز حکمرانی کے قیام کا وعدہ کس کا تھا اُور اِسے کون ایفاء کرے گا۔ اِس خواب کو حقیقت کا جامہ کون پہنائے گا کہ ’آئندہ ذاتی و سیاسی مفادات حکومتی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔‘ منتخب نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری ہونے میں مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔ سرکاری وسائل کے استعمال میں احتیاط کیا محض انتخابی وعدہ تھا۔ جان لیجئے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کے قول و فعل سے امانت و دیانت اور صداقت کی بوندیں اُس وقت تک نہیں ٹپکیں گی‘ جب تک وہ اپنی ہی خواہشات اور خودفریبی کے حصار سے باہر نہیں آ جاتے۔ اس صورت میں بس ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ دوسروں کا قبلہ درست کرنے والے اصلاح و تبدیلی کا آغاز اپنی ذات گرامی و کارکردگی کے احتساب سے کریں۔ اگر دال میں کچھ بھی کالا نہیں تو پھر سرکاری محکموں بشمول صوبائی اسمبلی کے ہر رکن کے ایک سے زیادہ چہرے کیوں ہیں۔ کیا وقت کا تقاضا نہیں کہ افراد اور محکموں کی کارکردگی‘ سرخ فیتے اور کار سرکار سے جڑی رازداری جیسی روایات کا تسلسل ختم ہونا چاہئے۔’’ایسا کرتے ہیں اُلٹ دیتے ہیں زنبیل حیات۔۔۔ اُور اس میں سے کوئی کام کا پل ڈھونڈتے ہیں!‘‘
No comments:
Post a Comment