ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
موسلادھار آفات
موسلادھار آفات
پندرہ اگست کی شام جب پوری قوم کے جذبات و احساسات پر ’جنون‘ سوار تھا۔
اچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں بسائے بستروں پر دراز ہونے سے قبل یہ
افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ طوفان بادوباراں سے پشاور کے نواحی علاقے میں
ایک قیامت صغری برپا ہے جہاں سولہ قیمتی جانیں ضائع جبکہ اسی سبب دیگر
واقعات میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔ محکمہ موسمیات پشاور مرکز کے ڈائریکٹر
مشتاق علی شاہ کے مطابق ’’شام چار بجے سے پانچ بجکر تیس منٹ (کم و بیش ایک
گھنٹہ تیس منٹ) کی بارش غیرمتوقع تھی جس میں مجموعی طورپر 42 ملی میٹر پانی
برسا۔‘‘ پشاور کی وادی میں اگرچہ اس سے کہیں زیادہ ملی میٹر بارش کے
ریکارڈ موجود ہیں لیکن محض 90منٹ کی بارش نے اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی
پھیلائی تو اِس پر توجہ دینے اور وجوہات پر نظر کرنے کی ضرورت ہے۔
پندرہ اگست کی شام پشاور کے مختلف علاقوں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ ٹریفک کی روانی گھنٹوں بحال نہ ہوسکی اور طویل بجلی کا تعطل الگ سے پریشانی کاباعث بنا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں معمولی زخمیوں کا لانے کا سلسلہ بھی دیر رات تک جاری رہا۔ اِس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پشاور کے تین بنیادی مسائل کو سمجھیں جو ماہرین موسمیات اور ماہرین ماحولیات کے بقول ’’درحقیقت تغیرپذیر موسم کے محرکات ہیں اور اِنہیں نظرانداز کیاگیا‘ تو آنے والے دنوں میں (خدانخواستہ) اس کے زیادہ خطرناک (جانی و مالی نقصانات کی صورت) نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔‘‘ سب سے پہلی بات اندرون پشاور کے بوسیدہ مکانات ہیں‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہے اور اِن گھروں کے رہنے والے مجبوری کے عالم میں رہائش پذیر ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ایسے تمام بوسیدہ گھروں کو مسمار کرنے کے قواعد تو موجود ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بوسیدہ مکانات کی بحالی اور انہیں قابل استعمال حالت میں ڈھالنے کے لئے امداد دینے کا قانون موجود نہیں۔ کشادہ سڑکیں اور چوراہوں پر نمائشی محرابیں‘ فوراے اور رنگ برنگی ڈیجیٹل ناچتی روشنیاں نصب کرنے پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کو ’کچے اور بوسیدہ مکانات میں قید‘ زندگیوں کی اہمیت کا اگراحساس ہوتا تو یہ سطور لکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ دوسری اہم بات پشاور شہر سے باغات‘ سبزہ زاروں اور گرین بیلٹس کا خاتمہ ہے۔ پھولوں کے شہر میں باغات کی بے قدری اور انہیں کمرشل سرگرمیوں کے لئے دینے کی غلطی کرنے والوں کو کوسنے کی بجائے اصلاح کے طور پر پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جا سکتے ہیں۔ باغات میں ہر قسم کی پختہ تعمیرات (بطور تجاوزات) ختم کی جانی چاہئے تاکہ زیرزمین پانی کا ذخیرہ جو کہ تیزی سے کم ہورہا ہے اور کئی ایک علاقوں میں زیرزمین واٹر ٹیبل (water table) میں کمی پر تشویش کا اظہار عملی اقدامات میں نظر آنا چاہئے۔ مسئلہ یہ رہا ہے کہ ارباب اختیار اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں اور اعلیٰ تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت کے بہانے یورپ و امریکہ میں زیادہ وقت بسر کرتے ہیں‘ وہیں اُنہوں نے سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے اور دہری شہریت کی وجہ سے اُنہیں اپنا اور اپنے بچوں کا روشن مستقبل وہیں دکھائی دیتا ہے۔
مسئلہ میرا اور آپ کا یعنی ’ہم عوام‘ کا ہے‘جن کی اکثریت نے اِسی مٹی کے خمیر سے اُٹھ کر اِسی میں دفن ہونا ہے تو درخواست ہے کہ ایسے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جائیں جن سے ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کی اشکال کا علاج کیا جا سکے۔ موسم میں تبدیلی کاتیسرا محرک توانائی کا غیرضروری‘ غیرمحتاط اور انتہائی غیرذمہ دارانہ استعمال بھی ہے۔ اگر چولہا جل رہا ہے تو اِس کی پرواہ نہیں کی جاتی اور پانی بہہ رہا ہے تو اِسے روکنے پر لائق نہیں دی جاتی۔ غیرضروری روشنیاں حسب ضرورت نہیں بلکہ فخریہ طور پر جلانا‘ شان وشوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا رہن سہن ماحول دوست نہیں۔ ہماری سوچ ماحول دوست نہیں اور اپنے قول‘ نصابی علم یا ذرائع ابلاغ سے تلقین یا ترغیب نہیں ملتی کہ کرہ ارض پر رہنے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ جرمن حکومت پاکستان میں توانائی کے پیداواری نہیں بلکہ اُنہیں بچانے کے منصوبوں کی تکنیکی و مالی معاونت کر رہی ہے اور اِس سلسلے میں چھوٹی بڑی صنعتوں حتی کہ یونین کونسل کی سطح پر انتظامی اہلکاروں کی تربیت اور اُنہیں ماحول دوست اقدامات کرنے پر راغب کیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے جاری اِن کوششوں کے خاطرخواہ نتائج اُس وقت تک ظاہر نہیں ہوں گے‘ جب تک ہم اپنے ماحول کے خود محافظ بنتے ہوئے اِسے اپنی ضرورت نہیں سمجھیں گے‘ جب تک گردوپیش کا ادراک نہیں کریں گے موسلادھار آفات کا نزول یونہی ہوتا رہے گا۔ نشیبی علاقے زیرآب آتے رہیں گے اور ہم اپنے ہی شہر میں ڈوب یا دب کر مرتے رہیں گے!’’تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے:دُھواں دُھواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی۔۔۔ہر ایک سمت سے چیخیں سنائی دیتی ہیں:صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی۔ (افتخار عارف)‘‘
پندرہ اگست کی شام پشاور کے مختلف علاقوں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ ٹریفک کی روانی گھنٹوں بحال نہ ہوسکی اور طویل بجلی کا تعطل الگ سے پریشانی کاباعث بنا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں معمولی زخمیوں کا لانے کا سلسلہ بھی دیر رات تک جاری رہا۔ اِس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پشاور کے تین بنیادی مسائل کو سمجھیں جو ماہرین موسمیات اور ماہرین ماحولیات کے بقول ’’درحقیقت تغیرپذیر موسم کے محرکات ہیں اور اِنہیں نظرانداز کیاگیا‘ تو آنے والے دنوں میں (خدانخواستہ) اس کے زیادہ خطرناک (جانی و مالی نقصانات کی صورت) نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔‘‘ سب سے پہلی بات اندرون پشاور کے بوسیدہ مکانات ہیں‘ جن کی طبعی عمریں پوری ہو چکی ہے اور اِن گھروں کے رہنے والے مجبوری کے عالم میں رہائش پذیر ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ایسے تمام بوسیدہ گھروں کو مسمار کرنے کے قواعد تو موجود ہیں لیکن حکومت کی جانب سے بوسیدہ مکانات کی بحالی اور انہیں قابل استعمال حالت میں ڈھالنے کے لئے امداد دینے کا قانون موجود نہیں۔ کشادہ سڑکیں اور چوراہوں پر نمائشی محرابیں‘ فوراے اور رنگ برنگی ڈیجیٹل ناچتی روشنیاں نصب کرنے پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کو ’کچے اور بوسیدہ مکانات میں قید‘ زندگیوں کی اہمیت کا اگراحساس ہوتا تو یہ سطور لکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ دوسری اہم بات پشاور شہر سے باغات‘ سبزہ زاروں اور گرین بیلٹس کا خاتمہ ہے۔ پھولوں کے شہر میں باغات کی بے قدری اور انہیں کمرشل سرگرمیوں کے لئے دینے کی غلطی کرنے والوں کو کوسنے کی بجائے اصلاح کے طور پر پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جا سکتے ہیں۔ باغات میں ہر قسم کی پختہ تعمیرات (بطور تجاوزات) ختم کی جانی چاہئے تاکہ زیرزمین پانی کا ذخیرہ جو کہ تیزی سے کم ہورہا ہے اور کئی ایک علاقوں میں زیرزمین واٹر ٹیبل (water table) میں کمی پر تشویش کا اظہار عملی اقدامات میں نظر آنا چاہئے۔ مسئلہ یہ رہا ہے کہ ارباب اختیار اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں اور اعلیٰ تعلیم یا پیشہ ورانہ تربیت کے بہانے یورپ و امریکہ میں زیادہ وقت بسر کرتے ہیں‘ وہیں اُنہوں نے سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے اور دہری شہریت کی وجہ سے اُنہیں اپنا اور اپنے بچوں کا روشن مستقبل وہیں دکھائی دیتا ہے۔
مسئلہ میرا اور آپ کا یعنی ’ہم عوام‘ کا ہے‘جن کی اکثریت نے اِسی مٹی کے خمیر سے اُٹھ کر اِسی میں دفن ہونا ہے تو درخواست ہے کہ ایسے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جائیں جن سے ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کی اشکال کا علاج کیا جا سکے۔ موسم میں تبدیلی کاتیسرا محرک توانائی کا غیرضروری‘ غیرمحتاط اور انتہائی غیرذمہ دارانہ استعمال بھی ہے۔ اگر چولہا جل رہا ہے تو اِس کی پرواہ نہیں کی جاتی اور پانی بہہ رہا ہے تو اِسے روکنے پر لائق نہیں دی جاتی۔ غیرضروری روشنیاں حسب ضرورت نہیں بلکہ فخریہ طور پر جلانا‘ شان وشوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا رہن سہن ماحول دوست نہیں۔ ہماری سوچ ماحول دوست نہیں اور اپنے قول‘ نصابی علم یا ذرائع ابلاغ سے تلقین یا ترغیب نہیں ملتی کہ کرہ ارض پر رہنے کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ جرمن حکومت پاکستان میں توانائی کے پیداواری نہیں بلکہ اُنہیں بچانے کے منصوبوں کی تکنیکی و مالی معاونت کر رہی ہے اور اِس سلسلے میں چھوٹی بڑی صنعتوں حتی کہ یونین کونسل کی سطح پر انتظامی اہلکاروں کی تربیت اور اُنہیں ماحول دوست اقدامات کرنے پر راغب کیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے جاری اِن کوششوں کے خاطرخواہ نتائج اُس وقت تک ظاہر نہیں ہوں گے‘ جب تک ہم اپنے ماحول کے خود محافظ بنتے ہوئے اِسے اپنی ضرورت نہیں سمجھیں گے‘ جب تک گردوپیش کا ادراک نہیں کریں گے موسلادھار آفات کا نزول یونہی ہوتا رہے گا۔ نشیبی علاقے زیرآب آتے رہیں گے اور ہم اپنے ہی شہر میں ڈوب یا دب کر مرتے رہیں گے!’’تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے:دُھواں دُھواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی۔۔۔ہر ایک سمت سے چیخیں سنائی دیتی ہیں:صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی۔ (افتخار عارف)‘‘
No comments:
Post a Comment