Saturday, August 1, 2015

Aug2015: Flaws in decision making!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فراغتی مصروفیات
بھارت کی معروف فلمی اداکارہ رانی مکھر جی اچانک نمودار ہو کر اپنے مداحوں کے لئے پیغام دیا ہے کہ وہ ’’فی الحال اپنی شادی شدہ زندگی اور فراغت پر مبنی مصروفیت سے لطف اُٹھا رہی ہیں۔‘‘ بیک وقت فراغت اور مصروفیت سے ’لطف اندوز‘ ہونا صرف اِس بھارتی اداکارہ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہمارے اردگرد ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جنہیں کوئی کام بھی نہیں ہوتا اور وہ انتہائی مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹریفک کاحال دیکھیں۔ ہر ایک سوار اور سواری تیزرفتاری کے نئے ریکارڈ بنانے کے کوشاں دکھائی دیتا ہے لیکن اگر آپ اُن سے پوچھیں کہ کیا کسی ہنگامی یا زندگی و موت جیسی صورتحال سے واسطہ ہے تو وہ نفی میں سرہلائیں گے۔ ٹریفک کی تین سرخ بتیاں زرد ہوتے ہی ہارن بجانے والوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے کہ اُن کے غیرضروری جلدبازی کے مظاہرے سے ناقابل تلافی جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے!

بیک وقت مصروفیت اور فراغت کے حوالے سے ہماری سیاسی جماعتیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں میں جنہیں اِمداد کی ضرورت تھی‘ اُن کا تماشا کرنے والوں نے مدد سے زیادہ اپنی نیک نامی اور تشہیر پر زیادہ توانائیاں اور وسائل خرچ کئے۔ رواں برس کا تو ذکر ہی کیا ماضی میں آفات سے متاثرین تاحال بحالی کے منتظر ہیں۔ زلزلے سے تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کی تعمیر و مرمت کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ۔ خرابی کی بنیادی وجہ ہمارا ہاں کا طرز حکمرانی ہے‘ جس میں کامیاب ہونے والوں کی پہلی ترجیح ذاتی کاروباری مفادات‘ اور دوسرے مرحلے میں ’ووٹ بینک‘ محفوظ بنانے کی کوشش ہوتی ہے جس کے لئے قومی خزانے کا غیرمحتاط و غیرضروری اِستعمال کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا مرحلہ بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا‘ لیکن شکوک وشبہات کے بادل ہنوز باقی ہیں۔ بلدیاتی ضمنی انتخابات ہوئے اور نتائج آنے کے بعد بھی صورتحال واضح نہیں کہ مقامی حکومتیں کب سے فعال ہوں گی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ’سپیڈ بریکر‘ موجود ہیں جو اختیارات کی گاڑی کو حکمرانی کی شاہراہ پر روانی سے چلنے نہیں دے رہے کہ وہ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کی منزل (منطقی انجام) تک پہنچ سکے! ہم حسب ضرورت اور حسب حال نہیں بلکہ جن نمائشی اقدامات و انتظامات میں الجھے ہوئے ہیں اُس سے سرخرو ہو کر نکلنے کی واحد صورت ’سیاست اور مفادات‘ کے درمیان قائم تعلق کو ختم کرنا ہے۔ تاہم یہ مفادات صرف مالی نہیں بلکہ اِن کا تانے بانے جرائم سے بھی جڑے ملتے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک طرز حکمرانی کا خلاصہ یہ ہے سرکاری اداروں اور سرکاری اہلکاروں کو سیاسی بنا دیا گیا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم نااہلی کی صورت بھگت رہی ہے اور اُس وقت تک بھگتی رہے گی جب تک مسلط کردہ انتخابی و سیاسی نظام میں اصلاحات کرکے فیصلہ سازوں کے کرداروں اور ذمہ داریوں کا ازسرنو تعین نہیں کر لیا جاتا۔ قانون سازی اور ترقیاتی کاموں میں بھلا ربط ہی کیا ہے؟ جس ملک میں پانی بجلی‘ گیس اور تعلیم وصحت جیسی ہر ایک ضرورت کی کمی بحران کی شکل بھیانک وجود رکھتی ہو‘ وہاں اِن محکموں کے وزیر و مشیر رکھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و مراعات کا حجم (غیرترقیاتی اخراجات) اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ماہانہ ادائیگیاں کرنے کے بعد‘ اکثریتی محکموں کے پاس بہبود کے لئے دس فیصد سے بھی کم مالی وسائل رہ جاتے ہیں!

اِس سے زیادہ بابرکت کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی کہ ’عوام کی اکثریت اپنے متعلق ہونے والی فیصلہ سازی کے عمل میں براہ راست شریک ہو جائے‘ لیکن (جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ) یہ بات استحصال و تعصب پر یقین رکھنے والے روایت پسند طبقات کے حق میں مفید نہیں اور مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں سب سے زیادہ وہی قوتیں حائل ہیں جو بادلنخواستہ اِس نظام کو ایک مرتبہ پھر ایک دلدلی زمین پر قدم جمانے کا موقع دے رہی ہیں۔ اِس نتیجۂ فکر کو ذہن نشین رکھئے کہ مقامی حکومتوں کے عملاً قیام و فعالیت میں جس قدر اور جتنی بھی ممکنہ تاخیر ہوگی‘ مالی وسائل کی لوٹ مار اور اُن کا ضیاع اُتنی ہی شدت و تسلسل (دھرلے) سے جاری و ساری رہے گا۔ مالی و انتظامی شفافیت کے بغیر ’جمہوریت‘ کا تصور اَدھورا تھا اور ادھورا رہے گا‘ جس کی تکمیل بصورت فعالیت بناء تاخیر ہونی چاہئے کیونکہ ہر ادھوری بات‘ ہر ادھوری کہانی‘ ہر ادھوری شخصیت اور ہر ادھورے حل کا حاصل تعمیر کی بجائے تخریب ہوتا ہے! ایک ایسی تخریب جس میں ہر اربوں روپے تعمیراتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے باوجود بھی اُن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ ایک ایسی تخریب جس میں رشوت ستانی‘ تعصب اور اقرباء پروری کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ایک ایسی تخریب جس میں استحصال کو حق اور ذاتی استحقاق کو دوسروں کے حقوق سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ ہم شعوری طور پر اُس منزل کے قریب آ چکے ہیں‘ جہاں بقاء و ترقی آنکھوں سے اوجھل نہیں لیکن دیکھنے کی بنیادی شرط بصارت نہیں بلکہ بصیرت کی بھی اشد ضرورت ہے!

No comments:

Post a Comment