ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زے ہم پختونخوا
زے ہم پختونخوا
جنگل ہو یا شہر‘ جہاں کہیں اور جب کبھی بھی مور ناچتا ہے تو اُسے دیکھنے
والا کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہوتا ہے لیکن گمان ہے کہ اپنے حسن و جمال پر
نازاں رنگ برنگے پنکھوں والے پرندے ’مور‘ کی نظر اپنے بدھے پاؤں پر پڑتے ہی
اُس کی دلی کیفیت یکسر خوشی سے غم میں تبدیل ہو جاتی ہے!
خیبرپختونخوا آفات کی زد میں ہے اور یہ بات اگر کوئی نہیں جانتا تو اُن کے لئے عرض ہے کہ ہر سال وارد ہونے والے سانحات کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کی بحالی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ جیسا کہ زلزلے سے جو علاقے متاثر ہوئے وہاں کی معیشت و معاشرت مکمل بحال ہو۔ قبائلی علاقوں کی سرزمین کو انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا مرکز بنانے والوں کے خلاف کاروائی کے سبب نقل مکانی کرنے والوں کی آبائی علاقوں کو واپسی یا اُنہیں باعزت قیام و طعام کی سہولیات فراہم ہوں۔ حالیہ مون سون بارشوں کے نہ تھمنے والے سلسلے اور چترال سے ہوتی ہوئی بارش کا سلسلہ خیبرپختونخوا کے جن دیگر اضلاع میں نظام حیات تہہ و بالا کر رہا ہے تو اِس اتفاقیہ یا ہنگامی حالات میں حکومتی اداروں کو اپنی نااہلی تسلیم کرنی چاہئے اور ماضی میں اگر اُن سے کوتاہیاں سرزد ہوئی بھی ہیں (جنہیں وہ تسلیم نہیں کرتے) تو کم از کم آئندہ کے لئے اپنی کارکردگی (پرفارمنس) بہتر تو بنا ہی سکتے ہیں! مور کی طرح ناچنے کی بجائے ذرا اپنے پاؤں (اُن طبقات پر نظر ڈالیں‘ جو اِس گھڑی آفت زدہ ہیں یا جن کے ہاں آفت زدگی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں)۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی نااہلیوں اُور کرۂ ارض کے ماحولیاتی تقاضوں کو سمجھنے میں ہوئی کوتاہیوں پر مبنی رویہ اور سوچ ترک کرنا ہو گی اور قدرت کو موردالزام ٹھہرانا کی بجائے اِس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ مقامی طور پر ماحول دشمن طرز فکر و عمل ہو یا ایسے موسمیاتی تغیرات کہ جن کا سبب کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت‘ جملہ منفی اثرات سے آگہی کے باوجود اگر ہم اُن سے نمٹنے کے لئے تدابیر اختیار نہیں کرتے اور اپنے مالی وافرادی وسائل حسب حال ضروریات کے لئے مختص نہیں کرتے تو یہ کسی بھی صورت ’دانشمندی‘ نہیں ہوگی۔ برسرزمین حالات متقاضی ہیں کہ خیبرپختونخوا جس ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے‘ اُس میں نمائشی و تفریحی ترجیحات کو کسی اُور موقع اور فرصت کے لئے اُٹھا رکھا جائے اور گردوپیش کے حقائق سے آنکھیں چرا کر ’جھوم برابر جھومنے‘ کی بجائے اُن زیردست‘ مصائب میں متبلا افراد کے بارے میں سوچیں‘ جنہیں اِس آزمائش کی گھڑی ہم میں سے ہر ایک کی مدد یا کم سے کم ’توجہ و دعا‘ کی ضرورت ہے!
انسانیت کا اِس سے بڑھ کر کوئی دوسرا المیہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کم اَز کم اتنے حساس تو ہوں کہ اپنے ہی ہم وطنوں کے دکھ درد کو بانٹ سکیں یا کم از کم اپنے قول و فعل سے ایسا تاثر نہ دیں کہ جسے دیکھ کر مصائب و آلام میں مبتلا افراد خود کو الگ تھلگ اُور ایک دوسرے سے جدا سمجھنے لگیں! خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف کلچر (فروغ سیاحت و ثقافت) کے فیصلہ سازوں نے ’زہ یم پختونخوا‘ کے نام سے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کا مقصد ملک کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے مقامی اقدار‘ روایات‘ رہن سہن‘ بول چال سمیت جملہ طرز معاشرت کی خوبیوں اُجاگر کرنا ہیں۔ تحصیل کی سطح پر متعارف کی جانے والی اِس ’مجوزہ حکمت عملی‘ میں 43 پروگرام شامل کئے گئے ہیں جن میں موسیقی‘ اسٹیج ڈرامے اور مزاحیہ خاکوں کے علاؤہ معاشرتی و سماجی بہبود کے لئے اصلاحی پیغامات بھی عام کئے جائیں گے۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ’روائتی میلے‘ بھی بطور خاص منعقد کئے جائیں گے۔ لوک ناچ گانے پر مشتمل میلوں کا مقصد ماضی کی روایات کو زندہ کرنا اُور ملک کے ثقافتی نقشے پر خیبرپختونخوا کو نمایاں کرنا ہے تاہم کیا ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرنے کا یہی موزوں وقت ہے؟
پشتو زبان کے لفظ ’زہ یم پختونخوا‘ کا چناؤ کرکے ثقافت و سیاحت کا فروغ کرنے والوں نے موضوع کو محدود کر دیا ہے۔ کیا خیبرپختونخوا کی دیگر زبانیں بولنے والے اِن تفریحی تقریبات کا حصہ نہیں ہوں گے؟ اِس حکمت عملی کو اگر کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھنے کے ساتھ اگر اِس کا نام ’زہ یم پختونخوا (میں پختونخوا ہوں)‘ کی بجائے ’زے ہم پختونخوا (میں بھی پختونخوا ہوں)‘ کر دیا جائے تو اس سے ’مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان وحدت‘ کا وہ پیغام اُبھرے گا‘ جس موجودہ حکمت عملی میں یقیناًغیردانستہ طور پر کم ترین ترجیح پر دکھائی دیتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ’اَمن و اَمان کی صورتحال‘ بھی ہے جس میں بہتری کے آثار مستقل سمجھنے والوں کو خفیہ اِداروں کی اُن رپورٹوں تک رسائی ہونی چاہئے‘ جو مسلسل خاموشی کو کسی بڑے خطرے کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ انسانی جان کا تحفظ ہر تفریحی مقصد اور ثقافت کے اُجاگر کرنے سے زیادہ اہم ہے اور اس ضرورت کو مقدم سمجھ کر ہی فیصلہ سازی ہونی چاہئے۔ اگر ہم کسی کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی خالق کائنات کے حضور سجدۂ ریز ہو کر اپنی نافرمانیوں اور بغاوت بھرے قول و فعل سے توبہ تائب نہیں ہونے جیسی توفیقات نہیں رکھتے۔ اگر ہم بیدار تو ہیں لیکن فکری طور پر نہیں تو اِس ’مردۂ دل کیفیت‘ کی اصلاح (تبدیلی) کے بارے ہم میں سے ہرایک کو ’پہلی فرصت میں‘ اپنے اپنے ضمیر سے بات چیت ضرور کرنی چاہئے۔
خیبرپختونخوا آفات کی زد میں ہے اور یہ بات اگر کوئی نہیں جانتا تو اُن کے لئے عرض ہے کہ ہر سال وارد ہونے والے سانحات کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کی بحالی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ جیسا کہ زلزلے سے جو علاقے متاثر ہوئے وہاں کی معیشت و معاشرت مکمل بحال ہو۔ قبائلی علاقوں کی سرزمین کو انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا مرکز بنانے والوں کے خلاف کاروائی کے سبب نقل مکانی کرنے والوں کی آبائی علاقوں کو واپسی یا اُنہیں باعزت قیام و طعام کی سہولیات فراہم ہوں۔ حالیہ مون سون بارشوں کے نہ تھمنے والے سلسلے اور چترال سے ہوتی ہوئی بارش کا سلسلہ خیبرپختونخوا کے جن دیگر اضلاع میں نظام حیات تہہ و بالا کر رہا ہے تو اِس اتفاقیہ یا ہنگامی حالات میں حکومتی اداروں کو اپنی نااہلی تسلیم کرنی چاہئے اور ماضی میں اگر اُن سے کوتاہیاں سرزد ہوئی بھی ہیں (جنہیں وہ تسلیم نہیں کرتے) تو کم از کم آئندہ کے لئے اپنی کارکردگی (پرفارمنس) بہتر تو بنا ہی سکتے ہیں! مور کی طرح ناچنے کی بجائے ذرا اپنے پاؤں (اُن طبقات پر نظر ڈالیں‘ جو اِس گھڑی آفت زدہ ہیں یا جن کے ہاں آفت زدگی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں)۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی نااہلیوں اُور کرۂ ارض کے ماحولیاتی تقاضوں کو سمجھنے میں ہوئی کوتاہیوں پر مبنی رویہ اور سوچ ترک کرنا ہو گی اور قدرت کو موردالزام ٹھہرانا کی بجائے اِس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ مقامی طور پر ماحول دشمن طرز فکر و عمل ہو یا ایسے موسمیاتی تغیرات کہ جن کا سبب کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت‘ جملہ منفی اثرات سے آگہی کے باوجود اگر ہم اُن سے نمٹنے کے لئے تدابیر اختیار نہیں کرتے اور اپنے مالی وافرادی وسائل حسب حال ضروریات کے لئے مختص نہیں کرتے تو یہ کسی بھی صورت ’دانشمندی‘ نہیں ہوگی۔ برسرزمین حالات متقاضی ہیں کہ خیبرپختونخوا جس ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے‘ اُس میں نمائشی و تفریحی ترجیحات کو کسی اُور موقع اور فرصت کے لئے اُٹھا رکھا جائے اور گردوپیش کے حقائق سے آنکھیں چرا کر ’جھوم برابر جھومنے‘ کی بجائے اُن زیردست‘ مصائب میں متبلا افراد کے بارے میں سوچیں‘ جنہیں اِس آزمائش کی گھڑی ہم میں سے ہر ایک کی مدد یا کم سے کم ’توجہ و دعا‘ کی ضرورت ہے!
انسانیت کا اِس سے بڑھ کر کوئی دوسرا المیہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کم اَز کم اتنے حساس تو ہوں کہ اپنے ہی ہم وطنوں کے دکھ درد کو بانٹ سکیں یا کم از کم اپنے قول و فعل سے ایسا تاثر نہ دیں کہ جسے دیکھ کر مصائب و آلام میں مبتلا افراد خود کو الگ تھلگ اُور ایک دوسرے سے جدا سمجھنے لگیں! خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف کلچر (فروغ سیاحت و ثقافت) کے فیصلہ سازوں نے ’زہ یم پختونخوا‘ کے نام سے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کا مقصد ملک کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے مقامی اقدار‘ روایات‘ رہن سہن‘ بول چال سمیت جملہ طرز معاشرت کی خوبیوں اُجاگر کرنا ہیں۔ تحصیل کی سطح پر متعارف کی جانے والی اِس ’مجوزہ حکمت عملی‘ میں 43 پروگرام شامل کئے گئے ہیں جن میں موسیقی‘ اسٹیج ڈرامے اور مزاحیہ خاکوں کے علاؤہ معاشرتی و سماجی بہبود کے لئے اصلاحی پیغامات بھی عام کئے جائیں گے۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ’روائتی میلے‘ بھی بطور خاص منعقد کئے جائیں گے۔ لوک ناچ گانے پر مشتمل میلوں کا مقصد ماضی کی روایات کو زندہ کرنا اُور ملک کے ثقافتی نقشے پر خیبرپختونخوا کو نمایاں کرنا ہے تاہم کیا ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرنے کا یہی موزوں وقت ہے؟
پشتو زبان کے لفظ ’زہ یم پختونخوا‘ کا چناؤ کرکے ثقافت و سیاحت کا فروغ کرنے والوں نے موضوع کو محدود کر دیا ہے۔ کیا خیبرپختونخوا کی دیگر زبانیں بولنے والے اِن تفریحی تقریبات کا حصہ نہیں ہوں گے؟ اِس حکمت عملی کو اگر کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھنے کے ساتھ اگر اِس کا نام ’زہ یم پختونخوا (میں پختونخوا ہوں)‘ کی بجائے ’زے ہم پختونخوا (میں بھی پختونخوا ہوں)‘ کر دیا جائے تو اس سے ’مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان وحدت‘ کا وہ پیغام اُبھرے گا‘ جس موجودہ حکمت عملی میں یقیناًغیردانستہ طور پر کم ترین ترجیح پر دکھائی دیتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ’اَمن و اَمان کی صورتحال‘ بھی ہے جس میں بہتری کے آثار مستقل سمجھنے والوں کو خفیہ اِداروں کی اُن رپورٹوں تک رسائی ہونی چاہئے‘ جو مسلسل خاموشی کو کسی بڑے خطرے کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ انسانی جان کا تحفظ ہر تفریحی مقصد اور ثقافت کے اُجاگر کرنے سے زیادہ اہم ہے اور اس ضرورت کو مقدم سمجھ کر ہی فیصلہ سازی ہونی چاہئے۔ اگر ہم کسی کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی خالق کائنات کے حضور سجدۂ ریز ہو کر اپنی نافرمانیوں اور بغاوت بھرے قول و فعل سے توبہ تائب نہیں ہونے جیسی توفیقات نہیں رکھتے۔ اگر ہم بیدار تو ہیں لیکن فکری طور پر نہیں تو اِس ’مردۂ دل کیفیت‘ کی اصلاح (تبدیلی) کے بارے ہم میں سے ہرایک کو ’پہلی فرصت میں‘ اپنے اپنے ضمیر سے بات چیت ضرور کرنی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment