Sunday, August 2, 2015

TRANSLATION: 3 world records

Three world records
تین عالمی اعزازات
گیارہ مئی دوہزار تیرہ: عام انتخابات میں کل 1کروڑ 48 لاکھ افراد نے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں نواز لیگ نے ڈالے گئے ووٹوں کے کل تناسب کا 33 فیصد حصہ اپنے نام کرکے اکثریتی جماعت کی حیثیت پائی۔ قانون ساز ایوان میں نواز لیگ کی موجودہ ’پارٹی پوزیشن‘ یہ ہے کہ اس کے 147 اراکین قومی اسمبلی کے رکن ہیں جن میں 35 مخصوص اور 6 اقلیتی اراکین کو شامل کرکے یہ تعداد 188 بن جاتی ہے۔

پانچ جون دوہزار تیرہ: میاں محمد نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 18ویں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

پہلا عالمی اعزاز: چھبیس مارچ دو ہزار پندرہ کے روز مائع گیس (ایل این جی) کی پہلی کھیپ جس کا حجم ایک لاکھ سینتالیس ہزار کیوبک فٹ تھا کراچی بندرگاہ پہنچی تو حکومت اور متعلقہ اداروں نے ’ایل این جی‘ کی قیمت خرید یا فروخت اور اِس درآمدی سودے کی تفصیلات کو صیغۂ راز میں رکھا۔ حکومت نے یہ بھی نہیں بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ مائع گیس کا خریدار کون ہوگا۔ بعدازاں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے معلوم ہوا کہ ’پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ نے یہ مائع گیس خریدی۔ ذرائع ابلاغ کی کھوج کرنے پر بتایا گیا کہ ’8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (mmBTU)‘ کی شرح سے مائع گیس فروخت کی گئی۔

عالمی سطح پر مائع گیس کی فی ’ایم ایم بی ٹی یو‘ قیمت 6.90 ڈالر ہے جبکہ پاکستان نے اِسی جنس کی اضافی قیمت ادا کی جو 30 لاکھ ڈالر زیادہ بنتی ہے۔ پاکستان نے مارکیٹ قیمت سے انتہائی زیادہ پر مائع گیس خرید کر ’عالمی اعزاز‘ حاصل کیا۔

پاکستان حکومت اس بات کی پابند ہے کہ کسی بھی قسم کی خریداری کے لئے شفاف طریقہ کار اپنائے اور خریداری سے قبل ’ٹینڈرز‘ طلب کئے جائیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حکومت کے مفاد میں یہ بات بھی تھی کہ وہ نجی شعبے کو اپنی ضرورت کے مطابق مائع گیس کی درآمد کی اجازت دیتی۔ نجی ادارے سستی گیس درآمد کرتے اور کوشش کرتے کہ وہ کم سے کم قیمت پر خریداری کے لئے بات چیت کریں۔ یاد رہے کہ پہلی کھیپ کہ جس میں 30لاکھ ڈالر اضافی ادا کئے گئے‘ اس کے بعد مزید 6 درآمدی سودے کئے گئے اور یوں مہنگے داموں مائع گیس کی خریداری کا سودا کر کے قومی خزانے سے ’1 کروڑ 80 لاکھ امریکی ڈالر‘ زیادہ ادا کئے گئے!

دوسرا عالمی ریکارڈ: پانچ مئی دو ہزار پندرہ کے روز وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے پہلے شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی کے پیداواری منصوبے ’’قائد اعظم سولر پاور پارک‘‘ کا افتتاح کیا۔ اِس منصوبے کی صلاحیت 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی ہے جس کے لئے مالی وسائل پنجاب حکومت کی بینک نے ادا کئے اور یہ صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔ اس منصوبے کی اُور اہم و خاص بات یہ ہے کہ اس کا جملہ تعمیراتی کام ریکارڈ مختصر وقت میں مکمل کرکے اسے فعال کردیا گیا۔ جب ہم جلدبازی میں کوئی خریداری کر رہے ہوتے ہیں تو مارکیٹ ریٹ سے بڑھ کر قیمت ادا کرنا پڑتی ہے کیونکہ کم وقت کی وجہ سے سودے بازی ممکن نہیں رہتی۔

 یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا جب فیصلہ سازوں نے غیرضروری جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مائع گیس کی خریداری اور درآمدی سودے کئے بلکہ شمسی توانائی کی طاقت سے بجلی کے ایک پیداواری منصوبے پر بھی مارکیٹ ریٹ سے زیادہ خرچ کر بیٹھے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں ایک ادارہ 8.5سینٹس فی کلوواٹ کے حساب سے شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی خریدتا ہے جبکہ بھارت میں 10.28سینیٹس‘ برازیل میں 8.7سینٹس اُور متحدہ عرب امارات میں 5.98 سینٹس فی کلوواٹ بجلی خریدی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں 18.28سینٹس کے حساب سے بجلی کی خریداری کا سودا پہلے دس برس کے لئے کیا گیا ہے۔ مہنگی مائع گیس کے بعد مہنگی بجلی خریدنے کا سودا پاکستان کے دوسرا عالمی اعزاز ہے۔

تیسرا عالمی ریکارڈ: چار جون دوہزار پندرہ کو روالپنڈی اسلام آباد موٹروے منصوبے کا افتتاح کیا گیا۔ 22.6کلومیٹر والا یہ تیزرفتار بس منصوبہ ریکارڈ وقت یعنی 15ماہ میں مکمل کیا گیا اور اس پر مجموعی طور پر 44.94ارب روپے لاگت آئی۔ اس قدر لاگت کی وجہ یہ تھی کہ حکومت جلدبازی کا مظاہرہ کر رہی تھی جس سے تعمیراتی کمپنیوں اور خدمات فراہم کرنے والوں نے فائدہ اُٹھایا۔ اگر ہم پاکستان میں بننے والی میٹرو بس منصوبوں کا اسی نوعیت کے دیگر ممالک میں منصوبوں سے کریں تو ہمارے ہاں اِس کی قیمت کئی سو گنا زیادہ ہے۔ لاہور میٹرو بس پر 1 کروڑ 10لاکھ ڈالر فی کلومیٹر لاگت آئی جبکہ روالپنڈی اسلام آباد کی میٹرو بس پر 2 کروڑ ڈالر فی کلومیٹر لاگت انتہائی زیادہ ہے جبکہ بھارت کے شہر احمد آباد میں بننے والی میٹرو بس منصوبے پر 24لاکھ ڈالر فی کلومیٹر لاگت آئی!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

No comments:

Post a Comment