Monday, August 3, 2015

Aug2015: Beautification of Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خوش رنگ کثافتیں
صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے ’پھولوں‘ اور ’خوشبوؤں‘ جیسے محسور کن استعاروں کا تذکرہ کتابوں اور اخبارات کے صفحات تک محدود دکھائی دیتا ہے جبکہ برسرزمین حقائق باوجود اعلانات بھی تبدیل نہیں ہو رہے لیکن اگر بات سماجی رابطہ کاری کے وسائل کی بات ہو تو پشاور کا نقشہ یکسر مختلف ہے جہاں پیالی میں ہنگامہ برپا دکھائی دیتا ہے۔

اگست کا آغاز ہوتے ہی پشاور کی دیواروں پر رنگ برنگے نقش و نگار اور شوخ رنگوں کے استعمال سے مصوری کرنے والے بیس نوجوانوں پر مشتمل ’ودان‘ نامی گروہ سامنے آیا جنہوں کی بنائی ہوئی تخلیقات ’ٹوئٹر‘ اُور ’فیس بک‘ پر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اور ’خوبصورت پشاور‘ کے عنوان سے زیرگردش پیغامات میں ہر دوسرا اظہار خیال انہی سے متعلق یا انہی کے بارے ہوتا ہے۔ دیواروں پر رنگ روغن کرنے کی یہ روایت مغربی معاشرے کا حصہ ہے جہاں اِسے گریفیٹی (Graffiti) کہا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ گریفیٹی کو کثافت سمجھنے والے مغربی معاشرے کی اکثریت اسے معیوب سمجھتی ہے اور بطور خاص دیواروں پر زیادہ مقدار میں وارنش ملے روغن کی تہہ لگائی جاتی ہے تاکہ اُن پر مصوری و نقش ونگاری نہ کی جاسکے۔ ہمارے ہاں دیواروں پر اشتہارات لکھنے کی روایت پشاور سے کراچی تک ایک قومی عادت ہے اور نامور سیاسی جماعتیں بھی اس مکروہ فعل (وال چاکنگ) کی مرتکب ہوتی ہیں۔ چونکہ دیگر تشہیری ذرائع کے مقابلے دیواروں پر لکھائی یا تصاویر بنانا زیادہ دیرپا ہوتا ہے‘ اِس لئے ’کم خرچ بالا نشین‘ طریقہ اپنایا جاتا ہے۔

نشوونما اُور ارتقاء سے اخذ ’ودان تحریک‘ کے بیس اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے وسائل سے پشاور کو کسی نہ کسی صورت خوبصورت بنانے کی ایک ایسی مخلص کوشش کی‘ جو تاریکی کے ماحول میں اُمید کی کرن سے کم نہیں اور یہی سوچ پشاور کے رہنے والے ہر ایک فرد کی ہونی چاہئے کہ اُس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ’علم و ہنر‘ ہے وہ اِس کا مثبت اِستعمال کرتے ہوئے ’پشاور کی خدمت‘ کا حق اَدا کرنے کی کوشش کرے۔ پشاور کو ایسے ہی بیدار ضمیروں کی ضرورت ہے لیکن اگر جنون‘ جوش اور جذبے کو قیادت و رہنمائی میسر آ جائے تو بہت کچھ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

دیواروں پر نقاشی کا بنیادی مقصد عام انتخابات میں کی گئی ’وال چاکنگ‘ اور پھٹے پرانے ’پوسٹروں‘ سے ’پشاور کو نجات‘ دلانا ہے جس کا پہلا تجربہ کم و بیش ایک برس قبل یونیورسٹی ٹاؤن میں کیا گیا تھا۔ پھر 30مئی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد ماضی کے تجربے کو پھرسے دُہرایا گیا اور اب زیادہ بڑے پیمانے پر دیواروں کو رنگین بنایا جارہا ہے۔ اصولی طور پر یہ ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی بنتی ہے کہ وہ عام انتخابات کے بعد دیواروں کی بدصورتی ختم کرے۔ پشاور کا شاید ہی کوئی کھمبہ ایسا ہوگا‘ جہاں رسیوں اور پھٹے ہوئے بینروں کی باقیات معلق نہ ہوں‘ تو کیا یہ پشاور کا ظاہری حسن مانند کرنے کا سبب نہیں؟ انتخابی ضابطۂ اخلاق میں یہ بات بھی خصوصی طور پر شامل ہونی چاہئے کہ ہر اُمیدوار چاہے وہ جیتے یا ہارے اپنی تشہیری مہم میں لگائے گئے تمام پوسٹر اور وال چاکنگ انتخابات کے بعد صاف کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ اگر ضابطۂ اخلاق میں یہ شق شامل کرنا ممکن نہیں تو ہر انتخابی اُمیدوار سے کم از کم پانچ ہزار روپے پوسٹر صفائی کی مد میں وصول کئے جائیں اور انہیں ایک الگ اکاونٹ میں جمع کروایا جائے۔ اِس رقم کا استعمال بعدازاں کسی نجی ادارے کو منتقل کرکے پشاور کی پوسٹروں و بینروں اور وال چاکنگ سے صفائی کے لئے ہونا چاہئے۔

ایک سعی کہ پشاور کسی طرح خوبصورت و جاذب دکھائی دے‘ معنوی لحاظ سے اعلیٰ و ارفع ہے تاہم نمائشی اقدامات کی تشہیر سے نیک نامی کمانے کی بجائے ٹھوس و قوئ عملی اقدامات کی اَشد ضرورت ہے۔ کیا صوبائی حکومت اور متعلقہ فیصلہ ساز اِس جانب توجہ فرمائیں گے کہ ’’پشاور کے باغات کا رقبہ جن جن سرکاری و نجی اداروں کے قبضے میں ہے‘ اُسے واگزار کرایا جائے اور بناء مزید تاخیر پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جائیں؟‘‘ اس سے بڑھ کر دشمنی اُور کیا ہو گی کہ مرکزی باغات کا رقبہ کم ہوتا چلا گیا اور اس سے بڑھ کر دلی محبت (وابستگی) کا ثبوت اُور کیا ہوگا کہ اگر وزیرباغ‘ شاہی باغ‘ جناح پارک اُور چاچا یونس پارک کے رقبہ جات واگزار کرکے ’پشاور‘ کو واپس کر دیئے جائیں!

No comments:

Post a Comment