ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آزادی : تقاضے‘ ذمہ داریاں
آزادی : تقاضے‘ ذمہ داریاں
چلتے چلتے ہم اُس ’مقام شکر و تفکر‘ تک آ پہنچے ہیں‘ جہاں چند لمحے ٹھہر کر
شعوری فیصلوں اور تجدید عہد کی ضرورت ہے کہ ’پاکستان کی آزادی‘ اس کی
سالمیت اُور اس کے نظریاتی مقصد کا تحفظ وبقاء کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہے کہ ’پاکستانی‘ ہونے کا قومی تشخص و شناخت رکھنے کے ساتھ ہم
میں سے ہر ایک کی فرائض کیا ہیں‘ پاکستانی کی صورت غلامی سے ملنے والی
آزادی کے تقاضے اور ذمہ داریوں کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غلامی‘ نسلی
اِمتیازات اور غیرمذہبوں کے اِستحصال سے نجات تو حاصل کر لی گئی لیکن ہم
اُس بدترین نظام کا حصہ بن گئے ہیں جس میں ایک قلیل تعداد خود کو اکثریت
سمجھ کر کلیدی فیصلہ سازی کے منصب پر قابض ہو جاتی ہے۔ انسانوں کا اپنی عقل
اور سمجھ بوجھ کے مطابق مرتب کردہ طرزحکمرانی ’جمہوریت‘ کہلاتا ہے جس میں
اکثریت کی رائے ’افضل‘ سمجھی جاتی ہے لیکن ہم جانتے ہوئے بھی کہ صرف احمق
ہی کسی ایک بات پر متفق ہو سکتے ہیں‘ دانشمند اور دانشور ہمیشہ سے مختلف
النظریات ہوتے ہیں۔ اُن کی بصیرت پر مبنی رائے اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی
ہوتی ہے اور وہ بناء بصیرت ہجوم سے خود کو الگ رکھتے ہیں۔ جمہوری نظام کی
تمام تر خامیوں کے باجود ہم اِس کے بار بار کے تجربے اُور ہر بار ہی مختلف
نتیجے کے برآمد ہونے کی توقعات وابستہ کر بیٹھے ہیں! تو سب سے پہلی ضرورت
طرز حکمرانی کی نہیں بلکہ اُس انتخابی عمل کی اصلاح کرنے کی ہے‘ جس میں کسی
اُمیدوار اور رائے دہندہ کے لئے امانت و دیانت کے تصورات دھندلے ہیں۔ ابھی
ہم نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ کسی انتخابی حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کا کتنے
فیصد اگر ووٹ نہیں ڈالے گا تو وہاں کا انتخابی نتیجہ قابل قبول قرار نہیں
دیا جائے گا۔ اسی طرح خواتین کی ووٹوں میں کم سے کم نمائندگی کتنے فیصد تک
انتخابی عمل کے جائز ہونے کے لئے لازمی تصور ہوگی۔ ووٹ دینے کے عمل میں
شناخت کا طریقۂ کار بھی توجہ طلب ہے جس میں ٹیکنالوجی پر مبنی ’بائیومیٹرکس
حل‘ کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور کرنی ہیں۔ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں
جنہیں طے کئے بغیر نہ تو الیکشن کمیشن کا غیرسیاسی ہونا سودمند ثابت ہو
سکتا ہے اور نہ ہی بظاہر شفاف دکھائی دینے والے انتخابی عمل سے راحت بصورت
ثمرات حاصل ہو پائے گی۔
قومی دن منانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کسی ایسے فعل کے کرنے میں کوئی قباحت ہے کہ جس سے ’ملی وحدت و یکجہتی‘ اجاگر ہو لیکن اگر ہم شعوری طور پر اپنے وجود اور زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔ روایات پسندی اور رسومات کے تابع نمودونمائش کے دلدادہ نہ ہوں تو یہی عمل ’بامقصد‘ ’خرافات سے پاک‘ اور ’قومی وسائل کے دانشمندانہ استعمال پر مبنی ’تجدید عہد‘ کا ’سنہرا موقع‘ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی کوتاہیوں‘ خامیوں اور اُن ناکامیوں کو شمار کر سکتے ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ ہم اُن مصائب و مشکلات میں پھنسے ہم وطنوں کے زخموں کے لئے ’مرہم پٹی‘ کا بندوبست کرسکتے ہیں‘ جو کسی نہ کسی سانحے یا آفت سے متاثر ہیں یقیناًآزادی کسی نعمت سے کم نہیں اور اس کے ملنے پر جس قدر بھی خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہوگا لیکن کیا محض خوشی منانے پر ہی اکتفا کر لیا جائے۔ آزادی کے مفہوم و معانی کا ادراک کرنا بھی ایک ایسی ضرورت ہے جس کا جھلک ہمارے ہاں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم سے لے کر روزمرہ معمولات میں دکھائی دے۔ ہماری سرخروئی ’آزادی کی نعمت‘ ملنے پر اظہار خوشی کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ ’آزادی کی حفاظت‘ اور اِس کے ’ارتقائی مراحل‘ کو پیش نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ گھڑی قوم کو ’حب الوطنی‘ کا درس دینے والے سیاسی رہنماؤں کے لئے بھی ’نادر موقع‘ ہے کہ وہ اپنے قول و فعل پر نظر کریں۔ اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اُنہوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ کیا اُن سے وابستہ عام آدمی کی توقعات پوری ہوئیں؟ جمہوریت ہو یا آمریت کس نے کیا کمایا اور قوم کو کیا دیا؟ ’’یہ نام ممکن نہیں رہے گا‘ مقام ممکن نہیں رہے گا: غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا۔‘‘یاد رہے کہ انگریزی زبان کا لفظ ’ٹریژن‘ جس کا مطلب ’غداری‘ ہوتا ہے اُس کا اصل منبع ’ٹریژر‘ ہے جس کے مطالب ’خزانہ اور مالی امور‘ سے متعلق ہیں یعنی وہ شخص جو مالی امور میں کسی بھی طرح کا ’خردبرد‘ ہیرپھیر‘ کرتا ہے وہ ’غداری‘ کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اگر ہم ’غداری‘ کے اِس اصطلاحی مفہوم کی روشنی میں اپنے ہاں کی جملہ سیاسی قیادت کے کردار کا جائزہ لیں تو شدید نوعیت کی مایوسی اُور دکھ ہوتا ہے کہ جنہیں معاملات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی وہی نفوس عالیہ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے اسیر نکلے۔
عام آدمی سے ٹیکس وصول کرنے والے خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ شاہانہ زندگی بسر کرنے والوں کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی جب کسی کے ہاں بھوک پیاس اور افلاس ڈیرے ڈالے تو ریاست اُس سے منہ پھیر لے لیکن جب اُسی شخص کے پاس ایک مقررہ حد سے زیادہ مالی وسائل آ جائیں تو اُس پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ کیا ٹیکسوں (محصولات) کا نظام یہی ہوتا ہے کہ حکومت صرف وصول کرے؟ کیا ٹیکس ادا کرنے والوں کو یہ حق بھی دیا جائے گا کہ وہ اپنے پیسے کے استعمال (مصرف) کے بارے میں سوال پوچھ سکیں؟ عوام اگرچہ غلام نہیں لیکن مسلط کردہ غلامی کو سمجھ بھی نہیں پا رہے‘ جو ایک الگ موضوع ہے! سردست قیادت و سیادت کی سطح پر غلطیوں کا شمار تو ممکن نہیں لیکن ان کا سرسری احاطہ ممکن کہ کہاں سے ذاتی و سیاسی مفادات ہماری قومی ترجیحات پر غالب آنا شروع ہوئے اور یہ عمل کن انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ یوم آزادی کی مبارک ساعتیں قریب آنے اور اِس نادر موقع پر اِن جملہ امور پر اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر قوم کی ہر ایک اکائی کو غوروفکر کی ’دعوت عام‘ ہے!’’دن نہیں چڑھتا‘ یہاں رات نہیں ہوتی ہے۔۔۔ بات اتنی ہے کہ ’بس‘ بات نہیں ہوتی ہے!‘‘
قومی دن منانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کسی ایسے فعل کے کرنے میں کوئی قباحت ہے کہ جس سے ’ملی وحدت و یکجہتی‘ اجاگر ہو لیکن اگر ہم شعوری طور پر اپنے وجود اور زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔ روایات پسندی اور رسومات کے تابع نمودونمائش کے دلدادہ نہ ہوں تو یہی عمل ’بامقصد‘ ’خرافات سے پاک‘ اور ’قومی وسائل کے دانشمندانہ استعمال پر مبنی ’تجدید عہد‘ کا ’سنہرا موقع‘ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی کوتاہیوں‘ خامیوں اور اُن ناکامیوں کو شمار کر سکتے ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ ہم اُن مصائب و مشکلات میں پھنسے ہم وطنوں کے زخموں کے لئے ’مرہم پٹی‘ کا بندوبست کرسکتے ہیں‘ جو کسی نہ کسی سانحے یا آفت سے متاثر ہیں یقیناًآزادی کسی نعمت سے کم نہیں اور اس کے ملنے پر جس قدر بھی خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہوگا لیکن کیا محض خوشی منانے پر ہی اکتفا کر لیا جائے۔ آزادی کے مفہوم و معانی کا ادراک کرنا بھی ایک ایسی ضرورت ہے جس کا جھلک ہمارے ہاں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم سے لے کر روزمرہ معمولات میں دکھائی دے۔ ہماری سرخروئی ’آزادی کی نعمت‘ ملنے پر اظہار خوشی کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ ’آزادی کی حفاظت‘ اور اِس کے ’ارتقائی مراحل‘ کو پیش نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ گھڑی قوم کو ’حب الوطنی‘ کا درس دینے والے سیاسی رہنماؤں کے لئے بھی ’نادر موقع‘ ہے کہ وہ اپنے قول و فعل پر نظر کریں۔ اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اُنہوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ کیا اُن سے وابستہ عام آدمی کی توقعات پوری ہوئیں؟ جمہوریت ہو یا آمریت کس نے کیا کمایا اور قوم کو کیا دیا؟ ’’یہ نام ممکن نہیں رہے گا‘ مقام ممکن نہیں رہے گا: غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا۔‘‘یاد رہے کہ انگریزی زبان کا لفظ ’ٹریژن‘ جس کا مطلب ’غداری‘ ہوتا ہے اُس کا اصل منبع ’ٹریژر‘ ہے جس کے مطالب ’خزانہ اور مالی امور‘ سے متعلق ہیں یعنی وہ شخص جو مالی امور میں کسی بھی طرح کا ’خردبرد‘ ہیرپھیر‘ کرتا ہے وہ ’غداری‘ کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اگر ہم ’غداری‘ کے اِس اصطلاحی مفہوم کی روشنی میں اپنے ہاں کی جملہ سیاسی قیادت کے کردار کا جائزہ لیں تو شدید نوعیت کی مایوسی اُور دکھ ہوتا ہے کہ جنہیں معاملات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی وہی نفوس عالیہ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے اسیر نکلے۔
عام آدمی سے ٹیکس وصول کرنے والے خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ شاہانہ زندگی بسر کرنے والوں کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی جب کسی کے ہاں بھوک پیاس اور افلاس ڈیرے ڈالے تو ریاست اُس سے منہ پھیر لے لیکن جب اُسی شخص کے پاس ایک مقررہ حد سے زیادہ مالی وسائل آ جائیں تو اُس پر ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ کیا ٹیکسوں (محصولات) کا نظام یہی ہوتا ہے کہ حکومت صرف وصول کرے؟ کیا ٹیکس ادا کرنے والوں کو یہ حق بھی دیا جائے گا کہ وہ اپنے پیسے کے استعمال (مصرف) کے بارے میں سوال پوچھ سکیں؟ عوام اگرچہ غلام نہیں لیکن مسلط کردہ غلامی کو سمجھ بھی نہیں پا رہے‘ جو ایک الگ موضوع ہے! سردست قیادت و سیادت کی سطح پر غلطیوں کا شمار تو ممکن نہیں لیکن ان کا سرسری احاطہ ممکن کہ کہاں سے ذاتی و سیاسی مفادات ہماری قومی ترجیحات پر غالب آنا شروع ہوئے اور یہ عمل کن انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ یوم آزادی کی مبارک ساعتیں قریب آنے اور اِس نادر موقع پر اِن جملہ امور پر اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر قوم کی ہر ایک اکائی کو غوروفکر کی ’دعوت عام‘ ہے!’’دن نہیں چڑھتا‘ یہاں رات نہیں ہوتی ہے۔۔۔ بات اتنی ہے کہ ’بس‘ بات نہیں ہوتی ہے!‘‘
No comments:
Post a Comment