ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہنگامی و تعلیمی ترجیحات
ہنگامی و تعلیمی ترجیحات
صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیم کے شعبے میں ہنگامی حالت کا نفاذ اور تعلیم
سے متعلق ترجیحات کے تعین میں جس ’مستعدی‘ کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ چونکہ وہ
ماضی کے مقابلے برق رفتار ہے لیکن حسب حال نہیں۔ مثال کے طور پر ابتدائی و
ثانوی تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں نے اتفاق کیا ہے کہ 561 خواتین اساتذہ کو
فوری طور پر بھرتی کیا جائے جنہیں پرائمری کی سطح پر طالبات کے اداروں میں
تعینات کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں 421پرائمری ٹیچرز‘ 100 سی ٹی اُور 40
سینئر انگلش معلمات کی بھرتی کا عمل جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ ہر سال
اساتذہ کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے سے تعلیمی بجٹ کا بڑا حصہ غیرترقیاتی
اخراجات (تنخواہوں اور مراعات) کی نذر ہو جاتا ہے!
ہم ایک گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خیبرپختونختوا کے محکمۂ تعلیم سے متعلق دو دہائیوں قبل مرتب کی جانے والی رپورٹوں میں بھی اساتذہ (افرادی قوت) کی کمی کا ذکر ملتا ہے اور یہی مسئلہ آج بھی موجود ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتیں تو موجود ہیں لیکن اُن میں اساتذہ کی درکار تعداد ’حسب ضرورت‘ نہیں۔ اگر تعلیم ترجیح اور اِس شعبے میں ’ہنگامی حالات کا نفاذ‘ عملی طور پر کچھ معنی رکھتا ہے تو پھر نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا عمل بھی مکمل ہونا چاہئے بلکہ اساتذہ کی مطلوبہ تعداد میں بھرتی بھی کی جائے۔ بھلا یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں طالبات کے لئے تو پرائمری اساتذہ کی کمی دور کر دی جائے لیکن طلباء اس سے محروم رہیں۔ سالانہ بنیادوں پر شعبۂ تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل خرچ ہونے سے رہ جاتے ہیں لیکن سوائے تنخواہوں اور مراعات کچھ بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتا۔ اگر محکمۂ تعلیم کے فیصلہ ساز یہ سمجھ رہے کہ وہ اساتذہ کی بھرتی سے سرکاری سکولوں بالخصوص پرائمری کی سطح پر درس و تدریس کا معیار بہتر بنا لیں گے اور پرائمری کی سطح پر جہاں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں داخل اور اتنی ہی غیرمعمولی تعداد میں تعلیم مکمل کرنے سے قبل سکول آنا ترک کر دیتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے ساتھ بیٹھیں اور اعدادوشمار کے پلندوں پر نظر کریں تو سب کچھ ٹھیک ہے اور بہتری کی جانب رواں دواں ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پرائمری کی سطح پر سرکاری سکولوں کا معیار نجی سکولوں سے بہت کم ہے۔ نجی سکولوں کے اساتذہ کم تنخواہ و مراعات میں زیادہ محنت و لگن کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سرکاری درسگاہوں میں تعینات پرائمری اساتذہ کے چہروں پر نسبتاً زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے کے باوجود بھی مسکراہٹ کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بچوں کو مارنے‘ ڈانٹ اور مختلف قسم کے تشدد اگرچہ پالیسی کا حصہ نہیں لیکن ان کا استعمال عام سی بات ہے اور جب پالیسی سازوں کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی جائے تو اُن کے چہروں پر ناگواری کے ویسے ہی عجیب آثار یکایک ظاہر ہوجاتے ہیں جیسا کہ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ صاحب آپ کے اپنے بچے کس سرکاری سکول میں زیرتعلیم ہیں؟
سرکاری سکولوں میں اساتذہ اُور والدین کی تنظیمیں (پیرنٹس ٹیچرز کونسلز) بھی موجود ہیں جن کا وجود بطور خانہ پری کافی نہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اساتذہ کی کمی دور کرکے دو ہدف حاصل کر لئے جائیں گے ایک تو سکولوں کی انتظامیہ پر افرادی قوت کے کم ہونے سے بوجھ ختم ہوگا اور دوسرا والدین و اساتذہ کے درمیان پائے جانے والے تنازعات بھی کم ہوتے چالے جائیں گے!‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے کہ پانچ سو اکسٹھ خواتین معلمات بھرتی کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اِن خواتین اساتذہ کو جہاں کہیں بھی تعینات کیا گیا تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ سیاسی یا غیرسیاسی تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے تبادلہ کروا لیں۔ سردست ہوتا یہ ہے کہ محکمۂ تعلیم میں بھرتی ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بھرتی ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد من پسند مقام پر تعیناتی کے لئے دوڑ دھوپ کا آغاز ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں تو ہیں لیکن اساتذہ نہیں! یہی سبب ہے کہ پانچ سو اکسٹھ معلمات کی بھرتی میں مقامی اُمیدواروں کو ترجیح دینے کا ’اصولی فیصلہ‘ کیا گیا ہے جبکہ بھرتیوں کو شفاف بنانے کے لئے ’نیشنل ٹیسٹنگ سروسیز (این ٹی ایس)‘ کے ذریعے لئے گئے امتحان کی بنیاد پر اہل معلمات کا چناؤ کیا جائے گا۔ اہلیت کے اِس کم سے کم معیار میں تجربہ‘ معلمات کے نفسیاتی و سماجی رجحانات‘ برائیوں اور روئیوں کو بھی شامل کرنے پر غور ہونا چاہئے۔ کسی معلم کی بودوباش‘ بول چال‘ لباس کی تراش خراش کے بارے میں پسندوناپسند کے نظریات‘ مشغلے‘ کریمینل ہسٹری اور اطوار وغیرہ کے بارے میں بھی کوئی نہ کوئی معیار مقرر ہونا چاہئے کیونکہ مسئلہ نسلیں پروان چڑھانے کا ہے۔ ذرا ٹھہریئے درست جملہ یوں ہوگا کہ ’’مسئلہ مالی وسائل سے محروم ہم عوام کی نسلیں پروان چڑھانے کا ہے!‘‘
ہم ایک گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خیبرپختونختوا کے محکمۂ تعلیم سے متعلق دو دہائیوں قبل مرتب کی جانے والی رپورٹوں میں بھی اساتذہ (افرادی قوت) کی کمی کا ذکر ملتا ہے اور یہی مسئلہ آج بھی موجود ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتیں تو موجود ہیں لیکن اُن میں اساتذہ کی درکار تعداد ’حسب ضرورت‘ نہیں۔ اگر تعلیم ترجیح اور اِس شعبے میں ’ہنگامی حالات کا نفاذ‘ عملی طور پر کچھ معنی رکھتا ہے تو پھر نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا عمل بھی مکمل ہونا چاہئے بلکہ اساتذہ کی مطلوبہ تعداد میں بھرتی بھی کی جائے۔ بھلا یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں طالبات کے لئے تو پرائمری اساتذہ کی کمی دور کر دی جائے لیکن طلباء اس سے محروم رہیں۔ سالانہ بنیادوں پر شعبۂ تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل خرچ ہونے سے رہ جاتے ہیں لیکن سوائے تنخواہوں اور مراعات کچھ بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتا۔ اگر محکمۂ تعلیم کے فیصلہ ساز یہ سمجھ رہے کہ وہ اساتذہ کی بھرتی سے سرکاری سکولوں بالخصوص پرائمری کی سطح پر درس و تدریس کا معیار بہتر بنا لیں گے اور پرائمری کی سطح پر جہاں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں داخل اور اتنی ہی غیرمعمولی تعداد میں تعلیم مکمل کرنے سے قبل سکول آنا ترک کر دیتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے ساتھ بیٹھیں اور اعدادوشمار کے پلندوں پر نظر کریں تو سب کچھ ٹھیک ہے اور بہتری کی جانب رواں دواں ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پرائمری کی سطح پر سرکاری سکولوں کا معیار نجی سکولوں سے بہت کم ہے۔ نجی سکولوں کے اساتذہ کم تنخواہ و مراعات میں زیادہ محنت و لگن کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سرکاری درسگاہوں میں تعینات پرائمری اساتذہ کے چہروں پر نسبتاً زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے کے باوجود بھی مسکراہٹ کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بچوں کو مارنے‘ ڈانٹ اور مختلف قسم کے تشدد اگرچہ پالیسی کا حصہ نہیں لیکن ان کا استعمال عام سی بات ہے اور جب پالیسی سازوں کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی جائے تو اُن کے چہروں پر ناگواری کے ویسے ہی عجیب آثار یکایک ظاہر ہوجاتے ہیں جیسا کہ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ صاحب آپ کے اپنے بچے کس سرکاری سکول میں زیرتعلیم ہیں؟
سرکاری سکولوں میں اساتذہ اُور والدین کی تنظیمیں (پیرنٹس ٹیچرز کونسلز) بھی موجود ہیں جن کا وجود بطور خانہ پری کافی نہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اساتذہ کی کمی دور کرکے دو ہدف حاصل کر لئے جائیں گے ایک تو سکولوں کی انتظامیہ پر افرادی قوت کے کم ہونے سے بوجھ ختم ہوگا اور دوسرا والدین و اساتذہ کے درمیان پائے جانے والے تنازعات بھی کم ہوتے چالے جائیں گے!‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے کہ پانچ سو اکسٹھ خواتین معلمات بھرتی کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اِن خواتین اساتذہ کو جہاں کہیں بھی تعینات کیا گیا تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ سیاسی یا غیرسیاسی تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے تبادلہ کروا لیں۔ سردست ہوتا یہ ہے کہ محکمۂ تعلیم میں بھرتی ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بھرتی ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد من پسند مقام پر تعیناتی کے لئے دوڑ دھوپ کا آغاز ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں تو ہیں لیکن اساتذہ نہیں! یہی سبب ہے کہ پانچ سو اکسٹھ معلمات کی بھرتی میں مقامی اُمیدواروں کو ترجیح دینے کا ’اصولی فیصلہ‘ کیا گیا ہے جبکہ بھرتیوں کو شفاف بنانے کے لئے ’نیشنل ٹیسٹنگ سروسیز (این ٹی ایس)‘ کے ذریعے لئے گئے امتحان کی بنیاد پر اہل معلمات کا چناؤ کیا جائے گا۔ اہلیت کے اِس کم سے کم معیار میں تجربہ‘ معلمات کے نفسیاتی و سماجی رجحانات‘ برائیوں اور روئیوں کو بھی شامل کرنے پر غور ہونا چاہئے۔ کسی معلم کی بودوباش‘ بول چال‘ لباس کی تراش خراش کے بارے میں پسندوناپسند کے نظریات‘ مشغلے‘ کریمینل ہسٹری اور اطوار وغیرہ کے بارے میں بھی کوئی نہ کوئی معیار مقرر ہونا چاہئے کیونکہ مسئلہ نسلیں پروان چڑھانے کا ہے۔ ذرا ٹھہریئے درست جملہ یوں ہوگا کہ ’’مسئلہ مالی وسائل سے محروم ہم عوام کی نسلیں پروان چڑھانے کا ہے!‘‘
No comments:
Post a Comment