ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آفات سانحات: سمجھ اُور بوجھ!
آفات سانحات: سمجھ اُور بوجھ!
مون سون بارشیں نہ تو پہلی بار ہو رہی ہیں اور نہ ہی اِن سے متعلق موسمیاتی
پیشنگوئیاں غلط ثابت ہوئی ہیں‘ جانی و مالی نقصانات کی وجہ یہ ہے ہم قدرت
کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لئے خاطرخواہ تیاری نہیں کرتے۔ اگر تیاری
ہوتی تو نقصانات کا حجم کم سے کم رکھنے میں بڑی مدد مل سکتی تھی۔
خیبرپختونخوا کا ضلع چترال آبادی کے لحاظ سے چھوٹا لیکن رقبے کے لحاظ سے بڑا ضلع ہے۔ واخان کی سولہ کلومیٹر چوڑی پٹی ہٹا دی جائے تو چترال کی سرحدیں بروغل میں تاجکستان سے ملتی ہیں جبکہ کنٹر (افغانستان)‘ گلگت بلتستان‘ دیر اور سوات کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے اس ضلع کی آبادی کا اندازہ سات لاکھ کے قریب لگایا جاتا ہے۔ چترال کا محض چھ فیصد حصہ ہی قابلِ کاشت اور آبادی کے لائق ہے جبکہ پندرہ فیصد حصہ برفانی تودوں اور بقیہ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ بیانوں پر مشتمل ہے۔ چترال میں سردیاں سخت جبکہ گرمیاں صرف زیریں علاقوں میں گرم کہلائی جا سکتی ہیں۔ بالائی چترال میں جولائی اور اگست کے دنوں میں بھی پنکھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود عالمی حدت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں سے چترال میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ بالائی چترال کے گاؤں بریپ میں کوئی آٹھ سال قبل گلیشیئر پھٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ اگلے سال خوبصورت اور دیومالائی داستانوں کے حامل گاؤں سنوغر میں‘ تیسرے سال دل کو لبھانے والے مناظر کے حامل قصبے بونی اور پھر کھوار زبان کے صوفی شاعر مہ سیار کی محبوبہ کی جائے پیدائش ریشن میں گلیشیئر پھٹنے سے تباہی ہوئی۔ یہ سلسلہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا! کیونکہ فیصلہ سازوں نے ماضی میں ہونے والے اکادکا واقعات کا ’نوٹس‘ لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
نوشہرہ سے آگے کا خیبر پختونخوا کا کوئی علاقہ مون سون کے راستے میں نہیں آتا لیکن ساون کے بچھڑے بادل (سکندر اعظم کے پیچھے رہ جانے والے زخمی فوجیوں کی طرح) ضلع دیر تک بارشوں کا باعث بنتے ہیں اور یوں یہ علاقہ ان بارشوں کی برکت سے ہرا بھرا اور چارے سے بھرپور ہے۔ دیر اور چترال کے درمیان بارہ ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ نے ان بادلوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ لواری ٹاپ نہ صرف ساون کے بادلوں کو روکتا تھا بلکہ چھ ماہ تک چترالیوں کو بھی بقیہ پاکستان سے الگ رکھتا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے لواری ٹاپ سے سرنگ (جو کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا آئیڈیا تھا) نکلوا کر چترالیوں کو بارہ مہینے کا پاکستانی تو بنا دیا لیکن ساتھ ہی ساون کے لئے چترال پہنچنے کا راستہ بھی کھول دیا۔ یہ بات شاید بہت سے پڑھنے والوں کو مذاق لگے لیکن پرویز مشرف کے چترالی ناقدین (جن کی تعداد گو کہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہے) اسے سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے پر تیار رہتے ہیں! متذکرہ قصبے بونی سمیت آس پاس کے علاقوں میں ساون کی بارشیں پہلے کبھی نہیں یا موجودہ شرح میں نہیں ہوئیں لیکن اس وقت ان علاقوں میں موسم اسلام آباد اور پنڈی سے ذرا مختلف نہیں تھا‘ باہر زوروں کی بارش جبکہ گھروں کے اندر حبس۔ یہ تجربہ چترالیوں کے لئے چند برس سے زیادہ کا نہیں ہے۔ چترال کی زمینی ساخت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان پہاڑیوں پر زبردست بارش کا پانی اپنے ساتھ ڈھیروں مٹی لے کر لڑھک کر نیچے آیا اور چترال کے دیہات وجود میں آئے۔ کہتے ہیں کہ پانی کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتا‘ اب دوبارہ اپنے راستوں پر آیا تو اسے ہم قدرت کا قہر‘ موسمی تبدیلی‘ ہمارے گناہوں کا نتیجہ‘ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اُور پتہ نہیں کیا کیا نام دے رہے ہیں۔ چترال میں سیلابی تباہی کو ذرائع ابلاغ نے شروع میں نظرانداز اور بعد میں بہت توجہ دی۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ کسی دھرنے کی غیر موجودگی‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے مزید انکشافات نہ ہونا یا ماڈل ایان علی کی عدالتی پیشیوں کا ختم ہونا ہو یا پھر واقعی میں ہمارے ذرائع ابلاغ اتنے بالغ ہو چکے ہیں وہ اس حقیقت میں سانحے کو سانحہ سمجھنے لگے ہیں!
چترال کی موجودہ ضرورت کیا ہے؟ کیا اسے یونیورسٹی کی ضرورت ہے یا بحالی و امدادی سرگرمیوں کی؟ چترال میں ریسکیو سروسیز کا آغاز اور دیگر مطالبات کو کچھ وقت کے لئے مؤخر کیا جاسکتا تھا۔ اس کی جگہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کا بندوبست کرنے کے لئے جنریٹرز کا بندوبست کیا جاتا۔ گلگت سے ایندھن لانا ضروری تھا۔ ہیلی کاپٹرز سے ادویات پہنچانے کی مانگ ہوتی‘ بحالی اور علاقائی ترقیاتی کے کام تو بہت بعد کی بات ہے! کون نہیں جانتا کہ بالائی چترال حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوا ہے۔ رابطہ سڑکیں مٹ چکی ہیں۔ اشیائے خور و نوش مارکیٹ سے ختم ہوگئی ہیں۔ ایندھن صرف سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے لئے رہ گیا ہے۔ پہلے سے ناگفتہ بہ بجلی کے نظام کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ موبائل فون بند‘ گاڑیوں سے سڑکیں خالی۔ ریشن کے مقام پر بجلی گھر ٹنوں مٹی تلے دب گیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اس بجلی گھر سے پھر بلب جلانے کی امید نہ رکھی جائے۔ اسے صاف کرنے کی مدت میں نیا بجلی گھر تعمیر کیا جا سکتا ہے!
جہاں ہسپتال اور بازار بند ہوں۔ جہاں سرکاری ملازمین کے لئے مزید تعطیلات کا اعلان ہو چکا ہو۔ جہاں ہیلی کاپٹروں سے صرف بیماروں کو چترال پہنچایا جا رہا ہو۔ نجانے آغا خان فاؤنڈیشن کے ہیلی کاپٹرز کہاں گم ہو گئے ہیں۔ چترال کی معیشت پر سیلاب سے پیدا ہونے والے بوجھ کی شدت کو سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر بونی سے چترال خاص جو کہ ساٹھ یا ستر کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور سیلاب سے قبل کرایہ ڈیڑھ سو سے کم تھا لیکن اب بونی سے کوراغ جو کہ دس کلومیٹر سے کم فاصلہ ہے کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ جو پہلے ہی لٹ چکے ہیں ان کے لئے مشکل کی اس گھڑی مفت آمدورفت کا کم از کم بندوبست تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ زخموں پر نمک پاشی کی بجائے مرہم کا بندوبست بھی ہونا چاہئے!
خیبرپختونخوا کا ضلع چترال آبادی کے لحاظ سے چھوٹا لیکن رقبے کے لحاظ سے بڑا ضلع ہے۔ واخان کی سولہ کلومیٹر چوڑی پٹی ہٹا دی جائے تو چترال کی سرحدیں بروغل میں تاجکستان سے ملتی ہیں جبکہ کنٹر (افغانستان)‘ گلگت بلتستان‘ دیر اور سوات کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے اس ضلع کی آبادی کا اندازہ سات لاکھ کے قریب لگایا جاتا ہے۔ چترال کا محض چھ فیصد حصہ ہی قابلِ کاشت اور آبادی کے لائق ہے جبکہ پندرہ فیصد حصہ برفانی تودوں اور بقیہ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ بیانوں پر مشتمل ہے۔ چترال میں سردیاں سخت جبکہ گرمیاں صرف زیریں علاقوں میں گرم کہلائی جا سکتی ہیں۔ بالائی چترال میں جولائی اور اگست کے دنوں میں بھی پنکھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود عالمی حدت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں سے چترال میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ بالائی چترال کے گاؤں بریپ میں کوئی آٹھ سال قبل گلیشیئر پھٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ اگلے سال خوبصورت اور دیومالائی داستانوں کے حامل گاؤں سنوغر میں‘ تیسرے سال دل کو لبھانے والے مناظر کے حامل قصبے بونی اور پھر کھوار زبان کے صوفی شاعر مہ سیار کی محبوبہ کی جائے پیدائش ریشن میں گلیشیئر پھٹنے سے تباہی ہوئی۔ یہ سلسلہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا! کیونکہ فیصلہ سازوں نے ماضی میں ہونے والے اکادکا واقعات کا ’نوٹس‘ لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
نوشہرہ سے آگے کا خیبر پختونخوا کا کوئی علاقہ مون سون کے راستے میں نہیں آتا لیکن ساون کے بچھڑے بادل (سکندر اعظم کے پیچھے رہ جانے والے زخمی فوجیوں کی طرح) ضلع دیر تک بارشوں کا باعث بنتے ہیں اور یوں یہ علاقہ ان بارشوں کی برکت سے ہرا بھرا اور چارے سے بھرپور ہے۔ دیر اور چترال کے درمیان بارہ ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ نے ان بادلوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ لواری ٹاپ نہ صرف ساون کے بادلوں کو روکتا تھا بلکہ چھ ماہ تک چترالیوں کو بھی بقیہ پاکستان سے الگ رکھتا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے لواری ٹاپ سے سرنگ (جو کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا آئیڈیا تھا) نکلوا کر چترالیوں کو بارہ مہینے کا پاکستانی تو بنا دیا لیکن ساتھ ہی ساون کے لئے چترال پہنچنے کا راستہ بھی کھول دیا۔ یہ بات شاید بہت سے پڑھنے والوں کو مذاق لگے لیکن پرویز مشرف کے چترالی ناقدین (جن کی تعداد گو کہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہے) اسے سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنے پر تیار رہتے ہیں! متذکرہ قصبے بونی سمیت آس پاس کے علاقوں میں ساون کی بارشیں پہلے کبھی نہیں یا موجودہ شرح میں نہیں ہوئیں لیکن اس وقت ان علاقوں میں موسم اسلام آباد اور پنڈی سے ذرا مختلف نہیں تھا‘ باہر زوروں کی بارش جبکہ گھروں کے اندر حبس۔ یہ تجربہ چترالیوں کے لئے چند برس سے زیادہ کا نہیں ہے۔ چترال کی زمینی ساخت دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان پہاڑیوں پر زبردست بارش کا پانی اپنے ساتھ ڈھیروں مٹی لے کر لڑھک کر نیچے آیا اور چترال کے دیہات وجود میں آئے۔ کہتے ہیں کہ پانی کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتا‘ اب دوبارہ اپنے راستوں پر آیا تو اسے ہم قدرت کا قہر‘ موسمی تبدیلی‘ ہمارے گناہوں کا نتیجہ‘ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اُور پتہ نہیں کیا کیا نام دے رہے ہیں۔ چترال میں سیلابی تباہی کو ذرائع ابلاغ نے شروع میں نظرانداز اور بعد میں بہت توجہ دی۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ کسی دھرنے کی غیر موجودگی‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے مزید انکشافات نہ ہونا یا ماڈل ایان علی کی عدالتی پیشیوں کا ختم ہونا ہو یا پھر واقعی میں ہمارے ذرائع ابلاغ اتنے بالغ ہو چکے ہیں وہ اس حقیقت میں سانحے کو سانحہ سمجھنے لگے ہیں!
چترال کی موجودہ ضرورت کیا ہے؟ کیا اسے یونیورسٹی کی ضرورت ہے یا بحالی و امدادی سرگرمیوں کی؟ چترال میں ریسکیو سروسیز کا آغاز اور دیگر مطالبات کو کچھ وقت کے لئے مؤخر کیا جاسکتا تھا۔ اس کی جگہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کا بندوبست کرنے کے لئے جنریٹرز کا بندوبست کیا جاتا۔ گلگت سے ایندھن لانا ضروری تھا۔ ہیلی کاپٹرز سے ادویات پہنچانے کی مانگ ہوتی‘ بحالی اور علاقائی ترقیاتی کے کام تو بہت بعد کی بات ہے! کون نہیں جانتا کہ بالائی چترال حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوا ہے۔ رابطہ سڑکیں مٹ چکی ہیں۔ اشیائے خور و نوش مارکیٹ سے ختم ہوگئی ہیں۔ ایندھن صرف سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے لئے رہ گیا ہے۔ پہلے سے ناگفتہ بہ بجلی کے نظام کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ موبائل فون بند‘ گاڑیوں سے سڑکیں خالی۔ ریشن کے مقام پر بجلی گھر ٹنوں مٹی تلے دب گیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اس بجلی گھر سے پھر بلب جلانے کی امید نہ رکھی جائے۔ اسے صاف کرنے کی مدت میں نیا بجلی گھر تعمیر کیا جا سکتا ہے!
جہاں ہسپتال اور بازار بند ہوں۔ جہاں سرکاری ملازمین کے لئے مزید تعطیلات کا اعلان ہو چکا ہو۔ جہاں ہیلی کاپٹروں سے صرف بیماروں کو چترال پہنچایا جا رہا ہو۔ نجانے آغا خان فاؤنڈیشن کے ہیلی کاپٹرز کہاں گم ہو گئے ہیں۔ چترال کی معیشت پر سیلاب سے پیدا ہونے والے بوجھ کی شدت کو سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر بونی سے چترال خاص جو کہ ساٹھ یا ستر کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور سیلاب سے قبل کرایہ ڈیڑھ سو سے کم تھا لیکن اب بونی سے کوراغ جو کہ دس کلومیٹر سے کم فاصلہ ہے کا کرایہ ڈیڑھ سو روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ جو پہلے ہی لٹ چکے ہیں ان کے لئے مشکل کی اس گھڑی مفت آمدورفت کا کم از کم بندوبست تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ زخموں پر نمک پاشی کی بجائے مرہم کا بندوبست بھی ہونا چاہئے!
No comments:
Post a Comment