ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
لفظ‘ لہجے‘ رویئے مار دیتے ہیں!
لفظ‘ لہجے‘ رویئے مار دیتے ہیں!
افسرشاہی کے رویئے اور دفتری ضروریات (سرخ فیتے سے جڑی لوازمات) سے اگر عام
پاکستانی نڈھال ہے تو اس سے غیرملکی مہمان (سیاح) بھی محفوظ نہیں۔ ایک
ایسا نظام جس میں ’مچھلی‘ کا شکار کرنے والا ایک سے بڑھ کر ایک ماہر موجود
ہو‘ وہاں بچت کا امکان کم ہوتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ رواں سال پاکستان میں
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ سر کرنے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی
کوہ پیما ’مائک ہورن‘ نے جاتے جاتے یہ بیان دیا ہے کہ ’’پاکستانی حکام ’بے
ادب‘ ہیں۔‘‘ عموماً یورپی و امریکی سیاح اِس قسم کی زبان استعمال نہیں کرتے
اور نہ ہی اصلاح کے لئے مخالفت مول لیتے ہیں۔ اصولی طور پر اِس کوہ پیما
کے بیان پر سپرئم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہئے تھا لیکن بات حسب توقع آئی
گئی کرنے کا مقصد ’پیٹی بندوں‘ کی کھال بچانا تھی۔ یاد رہے کہ سوئس کوہ
پیما مائک ہورن چودہ مئی کو اسپانسر کی فراہم کی گئی دو جیپس پر سوئیزر
لینڈ میں اپنے گھر سے نکلے۔ انہوں نے ’کے ٹو چوٹی‘ سر کرنے کی مہم شروع
کرنے سے پہلے گیارہ ممالک میں گیارہ ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا اور
پاکستان میں داخل ہوئے۔ مائک ہورن کا کہنا تھا کہ اُن سمیت ٹیم اراکین کو
اس وقت حیرانی ہوئی جب پاکستانی چیک پوسٹ پر ان کو روک لیا گیا جبکہ ان کے
پاس سوئیزرلینڈ میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے جاری ہونے والا ویزا اور
’کے ٹو چوٹی‘ سر کرنے کا اجازت نامہ (پرمٹ) پہلے ہی سے موجود تھا۔ سوئس کوہ
پیما اور ان کی ٹیم کے اور فرد کو دو ہفتوں تک سکردو میں انتظار کرنا پڑا
لیکن پھر ایک دوست کام آیا جو معروف کرکٹر وسیم اکرم تھے جن کی مدد سے ان
کو اٹھارویں روز اپنی مہم کو جاری رکھنے کی اجازت مل گئی! یقیناًویزا اُور
پرمٹ حاصل کرنے کے باوجود اِس قسم کا سلوک ’مہذب زبان‘ میں ’بے ادبی‘ ہی
کہلائے گا‘ وگرنہ تو پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں اپنوں کے لئے
معاشرت پہلے ہی اجیرن تھی اب ہاتھ مہمانوں کے گریبانوں تک جا پہنچا ہے اور
ایسا بھی نہیں کہ آج کی تاریخ سے قبل حالات بہتر تھے‘ بات یہ ہے کہ اِس قسم
کی شکایات کسی سیاح کی جانب سے پہلی بار سامنے آئی ہے۔
کوہ پیما ’مائک ہورن‘ پاکستان کے لئے انجان نہیں۔ سال 2007ء سے کوہ پیمائی کرنے والے مائیک براڈ پیک‘ گاشر برگ وان اور دیگر چوٹیاں سر کر چکے ہیں جبکہ سال 2013ء میں خراب موسم کے باعث وہ ’کے ٹو چوٹی‘ سر کرنے میں ناکام رہے اور انہیں واپس جانا پڑا تھا۔ انہوں نے گذشتہ سال نیپال میں موجود دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ’ماکالو‘ سرکی تاہم ان کی دلچسپی سب سے زیادہ قراقرم رینج میں ہی رہی۔ تاہم رواں برس بھی مائک ہورن کے لئے موافق ثابت نہیں ہوا۔ ایک طرف پاکستانی حکام نے اُن کے حوصلے پست کئے اور دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیاں اُن کی راہ میں حائل ہوئیں۔ رواں برس ’کے ٹو‘ سے برفانی تودے گرنے کی تعداد ماضی کے مقابلے زیادہ رہی۔ جن کے بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سننا گیا تھا‘ یہ بھی ہوا کہ ’کے ٹو‘ پر ’’ایک روز میں چار بار تودے گرے۔‘‘ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں جب کوہ پیما سات ہزار پانچ سو میٹر کی بلندی پر پہنچے (جسے ’دیتھ زون‘ بھی کہا جاتا ہے) تو ان کے ایک ساتھی کو فٹ بال کے برابر پتھر آکر لگا جس سے ایک رکن وہ زخمی ہوگیا۔ انہیں ایسا لگا کہ کوئی ان کی ٹیم پر پتھر پھینک رہا ہو! ’ڈیتھ زون‘ میں سطح سمندر سے زیادہ اونچائی کی وجہ سے اکسیجن گیس کی انتہائی کمی ہوتی ہے اور فضا میں آکسیجن کا تناسب محض سات فیصد یا اس سے کم ہوتا ہے‘ جس سے انسانی جسم خود کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس صورت میں وزنی اکسیجن سلینڈر کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔
کوہ پیمائی ایک ایسا شعبہ ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں بالخصوص خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں میں بالکل بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ حالانکہ خیبرپختونخوا میں ایسی کم دشوار پہاڑی چوٹیوں کے سلسلے ہیں‘ جنہیں سیاحت کے نقشے پر لاکر ملکی سیاحوں بالخصوص نوجوان نسل کو راغب کیا جاسکتا ہے۔ المیہ ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت کا مشغلہ ’موبائل فون‘ یا انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ کرنا رہ گیا ہے اور یہی وہ تشویشناک امر ہے کہ جب ہمارے ہاں ٹیلی ویژن‘ وی سی آر اور بعدازاں ڈش انٹینا آیا تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر زیرتعلیم نوجوانوں اور بچوں پر دیکھا گیا اور پھر جب موبائل فون بھی آیا تو اس کے حسب ضرورت استعمال سے متعلق تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا نہ تو والدین نے اپنی ذمہ داریوں کا حصہ سمجھا اُور نہ ہی نصاب میں ’ٹیکنالوجی‘ کے موضوعات شامل کئے جا سکے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ’صاحبان فہم وفراست‘ کی اکثریت بذات خود ٹیکنالوجی آشنا نہیں تو بھلا کیسے قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکتی ہے؟
سوئزرلینڈ کے ایک کوہ پیما کی داستان اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق سطحی نہیں بلکہ اِن میں کئی ایک ایسے ’اَسباق‘ پوشیدہ ہیں‘ جن سے نتائج اَخذ کرکے ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کا پہلا مثبت اثر سیاحوں کی آمد کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے‘ جس کے بعد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ ابھی ہم نے ’پولیو وائرس‘ سے چھٹکارہ نہیں پاسکے‘ جس کے بارے عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے اور سفری پابندی عائد ہونے کے قریب ہیں جبکہ سیاحتی مقامات پر سہولیات کا فقدان اپنی جگہ توجہ طلب ہے لیکن اگر تمام تر خامیوں کے باوجود اگر ہمارے رویئے تبدیل نہ ہوئے یا رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تو غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ پھر سے منقطع ہو جائے گا!
کوہ پیما ’مائک ہورن‘ پاکستان کے لئے انجان نہیں۔ سال 2007ء سے کوہ پیمائی کرنے والے مائیک براڈ پیک‘ گاشر برگ وان اور دیگر چوٹیاں سر کر چکے ہیں جبکہ سال 2013ء میں خراب موسم کے باعث وہ ’کے ٹو چوٹی‘ سر کرنے میں ناکام رہے اور انہیں واپس جانا پڑا تھا۔ انہوں نے گذشتہ سال نیپال میں موجود دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ’ماکالو‘ سرکی تاہم ان کی دلچسپی سب سے زیادہ قراقرم رینج میں ہی رہی۔ تاہم رواں برس بھی مائک ہورن کے لئے موافق ثابت نہیں ہوا۔ ایک طرف پاکستانی حکام نے اُن کے حوصلے پست کئے اور دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیاں اُن کی راہ میں حائل ہوئیں۔ رواں برس ’کے ٹو‘ سے برفانی تودے گرنے کی تعداد ماضی کے مقابلے زیادہ رہی۔ جن کے بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سننا گیا تھا‘ یہ بھی ہوا کہ ’کے ٹو‘ پر ’’ایک روز میں چار بار تودے گرے۔‘‘ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں جب کوہ پیما سات ہزار پانچ سو میٹر کی بلندی پر پہنچے (جسے ’دیتھ زون‘ بھی کہا جاتا ہے) تو ان کے ایک ساتھی کو فٹ بال کے برابر پتھر آکر لگا جس سے ایک رکن وہ زخمی ہوگیا۔ انہیں ایسا لگا کہ کوئی ان کی ٹیم پر پتھر پھینک رہا ہو! ’ڈیتھ زون‘ میں سطح سمندر سے زیادہ اونچائی کی وجہ سے اکسیجن گیس کی انتہائی کمی ہوتی ہے اور فضا میں آکسیجن کا تناسب محض سات فیصد یا اس سے کم ہوتا ہے‘ جس سے انسانی جسم خود کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس صورت میں وزنی اکسیجن سلینڈر کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔
کوہ پیمائی ایک ایسا شعبہ ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں بالخصوص خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں میں بالکل بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ حالانکہ خیبرپختونخوا میں ایسی کم دشوار پہاڑی چوٹیوں کے سلسلے ہیں‘ جنہیں سیاحت کے نقشے پر لاکر ملکی سیاحوں بالخصوص نوجوان نسل کو راغب کیا جاسکتا ہے۔ المیہ ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت کا مشغلہ ’موبائل فون‘ یا انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ کرنا رہ گیا ہے اور یہی وہ تشویشناک امر ہے کہ جب ہمارے ہاں ٹیلی ویژن‘ وی سی آر اور بعدازاں ڈش انٹینا آیا تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر زیرتعلیم نوجوانوں اور بچوں پر دیکھا گیا اور پھر جب موبائل فون بھی آیا تو اس کے حسب ضرورت استعمال سے متعلق تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا نہ تو والدین نے اپنی ذمہ داریوں کا حصہ سمجھا اُور نہ ہی نصاب میں ’ٹیکنالوجی‘ کے موضوعات شامل کئے جا سکے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ’صاحبان فہم وفراست‘ کی اکثریت بذات خود ٹیکنالوجی آشنا نہیں تو بھلا کیسے قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکتی ہے؟
سوئزرلینڈ کے ایک کوہ پیما کی داستان اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق سطحی نہیں بلکہ اِن میں کئی ایک ایسے ’اَسباق‘ پوشیدہ ہیں‘ جن سے نتائج اَخذ کرکے ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کا پہلا مثبت اثر سیاحوں کی آمد کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے‘ جس کے بعد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ ابھی ہم نے ’پولیو وائرس‘ سے چھٹکارہ نہیں پاسکے‘ جس کے بارے عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے اور سفری پابندی عائد ہونے کے قریب ہیں جبکہ سیاحتی مقامات پر سہولیات کا فقدان اپنی جگہ توجہ طلب ہے لیکن اگر تمام تر خامیوں کے باوجود اگر ہمارے رویئے تبدیل نہ ہوئے یا رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تو غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ پھر سے منقطع ہو جائے گا!
No comments:
Post a Comment