ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
وہ پشاور‘ یہ پشاور!
وہ پشاور‘ یہ پشاور!
خیبر پختونخوا میں سات اَگست کو ایک اُور پولیو کیس سامنے آنے سے اُن تمام
انتظامات اور دعوؤں کا پول کھل گیا ہے جو ’انسداد پولیو‘ کے حوالے سے نہ
صرف متعلقہ محکمے کے اہلکار بلکہ سیاسی قائدین بھی کرتے آئے ہیں۔ ’’تم کسی
رستے سے آ جاؤ۔۔۔میرے چاروں طرف ’محبت‘ ہے!‘‘
غور کیجئے کہ پولیو بچوں کو ایک خاص عمر تک متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی بیماری ہے‘ جس سے بچاؤ کے لئے کئی ایک عالمی اداروں کے تعاون سے چلائی جانے والی مہمات اور اس بیماری سے بچاؤ کے حوالے سے شعور اُجاگر کرنے پر مبنی اگر کاغذی کاروائی بمعہ اعدادوشمار پر نظر کی جائے تو پولیو کا ستیاناس ہو جانا چاہئے تھا لیکن ’پشاور کو پولیو فری‘ قرار دینے کا فخریہ اعلان کرنے والوں اور بیک وقت محکمۂ صحت و پولیو پروگرام سے تنخواہیں و مراعات پانے والے اہلکاروں کا ضمیر کہاں ہے۔ خیبرپختونخوا میں کم وبیش چار ہزار ملکی و غیرملکی ’این جی اُوز‘ فعال ہیں‘جنہیں ملنے والی غیرملکی اِمداد (تکنیکی و مالی وسائل) کا بڑا حصہ ’’مبینہ طور پر‘‘ پولیو مہمات پر خرچ ہوتا ہے اور اگر حقیقت میں ایسا ہی ہوتا تو پشاور کے علاقے ارمڑ بالا کے رہائشی چھ ماہ کے محمد یاسر میں پولیو وائرس کی تشخیص نہ ہوتی۔ یاد رہے کہ رواں برس (سات اگست تک) خیبرپختونخوا میں پولیو کے 13کیسز سامنے آ چکے ہیں‘ جن میں سے آٹھ کا ’تعلق پشاور‘ سے ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان بھر میں 2015ء کے دوران پولیو کے 29نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ انسداد پولیو کے حوالے سے بیانات اور دعوے اپنی جگہ برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ پولیو وائرس کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے لئے موافق ماحول مل رہا ہے۔ سال دوہزار چودہ پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے لئے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا جب سال 1998ء کے بعد پہلی بار پولیو کیسز کی تعداد 296تک جا پہنچی! یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ’پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کی موجودگی ثابت ہے اُور یہ کسی صورت قابو نہیں آرہا۔ خیبرپختونخوا کے لئے ’انسداد پولیو پروگرام‘ کے انتظامی نگران کے بقول حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی جانب سے انسداد پولیو اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پشاور جیسے مرکزی و بندوبستی شہر کی حدود میں بھی ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو اہلکار جانے سے کتراتے ہیں۔ سات اگست کو سامنے آنے والے پولیو کیس کا تعلق بھی پشاور کے ایک ایسے ہی مضافاتی علاقے سے ہے جو قبائلی علاقہ سے قریب ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل دسترس میں نہیں۔
پولیو وائرس کی وجہ سے بیرون ملک سفر کرنے والے ہر پاکستانی (مرد‘ عورت اُور بچے) کے لئے لازمی ہے کہ وہ پولیو سے بچاؤ کی اَدویات لینے کی سند (سرٹیفکیٹ) رکھتا ہو۔ اگرچہ یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اہتمام ہر ائرپورٹ پر کردیا گیا ہے لیکن اِس کے لئے طریقہ کار مناسب نہیں۔ ذاتی تجربہ ملاحظہ کیجئے کہ پشاور ائرپورٹ پر عمرے کی ادائیگی کے لئے دیگر مسافروں کے ہمراہ بورڈنگ کارڈ جاری کرنے سے قبل ’پولیو سرٹیفکیٹ‘ کی شرط سے آگاہ کیا گیا۔ جہاز کے جانے میں چالیس منٹ کا وقت باقی تھا۔ کئی ایک مسافر کے پاس مذکورہ سرٹیفکیٹ نہیں تھا اور اُن کی آنکھیں بھر آئیں تھیں کیونکہ بناء پولیو سرٹیفکیٹ جہاز پر سوار ہونے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ کاونٹر پر کھڑی خاتون نے ازرائے کرم کہا کہ ائرپورٹ کی حدود ہی میں ایک ڈسپنسری ہے‘ جہاں پر موجود ڈاکٹر آپ کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کر سکتا ہے۔ جب مذکورہ دفتر پہنچے تو وہاں ایک دروازہ بند تھا اور پہلے ہی پولیو سرٹیفکیٹ لینے والوں کی ایک قطار میں کھڑا ہر شخص اُمیدویاس کی تصویر بنا ہوا‘ ہر نئے آنے والے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ائرپورٹ انچارج کے پاس جانے کی ٹھانی اور جب وہاں پہنچے تو متعلقہ ڈاکٹر صاحب وہیں تشریف فرما تھے اور شکایت کر رہے تھے کہ ’’جناب یہ پولیو سرٹیفکیٹ جاری کرنا میرا کام نہیں! اِس کے لئے تو الگ دفتر اور اہلکاروں کا انتظام ہوناچاہئے!‘‘ اُن کی بات سن کر پاؤں تلے موجود باقی ماندہ زمین بھی نکلتی محسوس ہوئی! جب ائرپورٹ نگران متوجہ ہوئے اور انہیں ایک خاص نسبت کا حوالہ دے کر تعارف کرایا گیا تو یکایک اُن کی خندہ پیشانی لوٹ آئی‘ جو اس سے قبل ایک ’اجنبی‘ کے دفتر میں گھس آنے سے چہرے پر پھیل چکی تھی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ایک سرٹیفکیٹ انہیں تو بنا دیں‘ پھر آپ کے مسئلے بارے بھی سوچتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بناء وقت ضائع کئے جیب میں ہاتھ ڈالا ایک کاغذ نکالا اُس پر خانہ پُری کرکے سرٹیفکیٹ تھما دیا۔ جس پر لکھا تھا کہ کارڈ ہولڈر کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ جہاز میں سوار ہونے کے بعد وہ دیگر مسافر بھی ہانپتے ہانپتے پہنچے جن کے پاس ائرپورٹ آنے سے قبل پولیو سرٹیفکیٹ نہیں تھے۔ مجھے ہمت نہیں ہوئی کہ اُن سے پوچھ سکتا کہ آپ کو پولیو سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے کتنے پیسے دینے پڑے کیونکہ ایک مقدس سفر کی ابتدأ جھوٹ سے ہو چکی تھی۔ جہاز محو پرواز ہوا۔ کھڑکی سے باہر نظر آنے والا ’وہ پشاور‘ کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا‘ جہاں نسلی و لسانی تعلقات یا پیسے کی طاقت سے بہت کچھ ایسا بھی ممکن جو دنیا میں کہیں بھی اس طرح ممکن ہوتا ہے۔ ہم چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں کی گردابوں میں اپنی اپنی عاقبت کے لئے پریشان ہیں لیکن جس جہنم میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا شعوری ادراک نہیں رکھتے!
غور کیجئے کہ پولیو بچوں کو ایک خاص عمر تک متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی بیماری ہے‘ جس سے بچاؤ کے لئے کئی ایک عالمی اداروں کے تعاون سے چلائی جانے والی مہمات اور اس بیماری سے بچاؤ کے حوالے سے شعور اُجاگر کرنے پر مبنی اگر کاغذی کاروائی بمعہ اعدادوشمار پر نظر کی جائے تو پولیو کا ستیاناس ہو جانا چاہئے تھا لیکن ’پشاور کو پولیو فری‘ قرار دینے کا فخریہ اعلان کرنے والوں اور بیک وقت محکمۂ صحت و پولیو پروگرام سے تنخواہیں و مراعات پانے والے اہلکاروں کا ضمیر کہاں ہے۔ خیبرپختونخوا میں کم وبیش چار ہزار ملکی و غیرملکی ’این جی اُوز‘ فعال ہیں‘جنہیں ملنے والی غیرملکی اِمداد (تکنیکی و مالی وسائل) کا بڑا حصہ ’’مبینہ طور پر‘‘ پولیو مہمات پر خرچ ہوتا ہے اور اگر حقیقت میں ایسا ہی ہوتا تو پشاور کے علاقے ارمڑ بالا کے رہائشی چھ ماہ کے محمد یاسر میں پولیو وائرس کی تشخیص نہ ہوتی۔ یاد رہے کہ رواں برس (سات اگست تک) خیبرپختونخوا میں پولیو کے 13کیسز سامنے آ چکے ہیں‘ جن میں سے آٹھ کا ’تعلق پشاور‘ سے ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان بھر میں 2015ء کے دوران پولیو کے 29نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ انسداد پولیو کے حوالے سے بیانات اور دعوے اپنی جگہ برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ پولیو وائرس کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے لئے موافق ماحول مل رہا ہے۔ سال دوہزار چودہ پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے لئے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا جب سال 1998ء کے بعد پہلی بار پولیو کیسز کی تعداد 296تک جا پہنچی! یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ’پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کی موجودگی ثابت ہے اُور یہ کسی صورت قابو نہیں آرہا۔ خیبرپختونخوا کے لئے ’انسداد پولیو پروگرام‘ کے انتظامی نگران کے بقول حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی جانب سے انسداد پولیو اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پشاور جیسے مرکزی و بندوبستی شہر کی حدود میں بھی ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو اہلکار جانے سے کتراتے ہیں۔ سات اگست کو سامنے آنے والے پولیو کیس کا تعلق بھی پشاور کے ایک ایسے ہی مضافاتی علاقے سے ہے جو قبائلی علاقہ سے قریب ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل دسترس میں نہیں۔
پولیو وائرس کی وجہ سے بیرون ملک سفر کرنے والے ہر پاکستانی (مرد‘ عورت اُور بچے) کے لئے لازمی ہے کہ وہ پولیو سے بچاؤ کی اَدویات لینے کی سند (سرٹیفکیٹ) رکھتا ہو۔ اگرچہ یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اہتمام ہر ائرپورٹ پر کردیا گیا ہے لیکن اِس کے لئے طریقہ کار مناسب نہیں۔ ذاتی تجربہ ملاحظہ کیجئے کہ پشاور ائرپورٹ پر عمرے کی ادائیگی کے لئے دیگر مسافروں کے ہمراہ بورڈنگ کارڈ جاری کرنے سے قبل ’پولیو سرٹیفکیٹ‘ کی شرط سے آگاہ کیا گیا۔ جہاز کے جانے میں چالیس منٹ کا وقت باقی تھا۔ کئی ایک مسافر کے پاس مذکورہ سرٹیفکیٹ نہیں تھا اور اُن کی آنکھیں بھر آئیں تھیں کیونکہ بناء پولیو سرٹیفکیٹ جہاز پر سوار ہونے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ کاونٹر پر کھڑی خاتون نے ازرائے کرم کہا کہ ائرپورٹ کی حدود ہی میں ایک ڈسپنسری ہے‘ جہاں پر موجود ڈاکٹر آپ کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کر سکتا ہے۔ جب مذکورہ دفتر پہنچے تو وہاں ایک دروازہ بند تھا اور پہلے ہی پولیو سرٹیفکیٹ لینے والوں کی ایک قطار میں کھڑا ہر شخص اُمیدویاس کی تصویر بنا ہوا‘ ہر نئے آنے والے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر ائرپورٹ انچارج کے پاس جانے کی ٹھانی اور جب وہاں پہنچے تو متعلقہ ڈاکٹر صاحب وہیں تشریف فرما تھے اور شکایت کر رہے تھے کہ ’’جناب یہ پولیو سرٹیفکیٹ جاری کرنا میرا کام نہیں! اِس کے لئے تو الگ دفتر اور اہلکاروں کا انتظام ہوناچاہئے!‘‘ اُن کی بات سن کر پاؤں تلے موجود باقی ماندہ زمین بھی نکلتی محسوس ہوئی! جب ائرپورٹ نگران متوجہ ہوئے اور انہیں ایک خاص نسبت کا حوالہ دے کر تعارف کرایا گیا تو یکایک اُن کی خندہ پیشانی لوٹ آئی‘ جو اس سے قبل ایک ’اجنبی‘ کے دفتر میں گھس آنے سے چہرے پر پھیل چکی تھی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا ایک سرٹیفکیٹ انہیں تو بنا دیں‘ پھر آپ کے مسئلے بارے بھی سوچتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بناء وقت ضائع کئے جیب میں ہاتھ ڈالا ایک کاغذ نکالا اُس پر خانہ پُری کرکے سرٹیفکیٹ تھما دیا۔ جس پر لکھا تھا کہ کارڈ ہولڈر کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ جہاز میں سوار ہونے کے بعد وہ دیگر مسافر بھی ہانپتے ہانپتے پہنچے جن کے پاس ائرپورٹ آنے سے قبل پولیو سرٹیفکیٹ نہیں تھے۔ مجھے ہمت نہیں ہوئی کہ اُن سے پوچھ سکتا کہ آپ کو پولیو سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے کتنے پیسے دینے پڑے کیونکہ ایک مقدس سفر کی ابتدأ جھوٹ سے ہو چکی تھی۔ جہاز محو پرواز ہوا۔ کھڑکی سے باہر نظر آنے والا ’وہ پشاور‘ کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا‘ جہاں نسلی و لسانی تعلقات یا پیسے کی طاقت سے بہت کچھ ایسا بھی ممکن جو دنیا میں کہیں بھی اس طرح ممکن ہوتا ہے۔ ہم چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں کی گردابوں میں اپنی اپنی عاقبت کے لئے پریشان ہیں لیکن جس جہنم میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا شعوری ادراک نہیں رکھتے!
No comments:
Post a Comment