Sunday, August 9, 2015

TRANSLATION: The power sector

The power sector
بجلی کا پیداواری شعبہ
انتخابی وعدے: 7 مارچ 2013ء کے روز پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے گیارہ مئی کے عام انتخابات کو موضوع بنا کر انتخابی وعدوں کا ایک مجموعہ جاری کیا گیا۔ اس انتخابی منشور کا آئندہ چند سطور جائزہ پیش کیا جائے گا جس میں توانائی کا لفظ 42 مرتبہ‘ زراعت کا لفظ 25مرتبہ‘ اصلاحات کا لفظ 48 مرتبہ اور اخراجات کا لفظ 6 مرتبہ لکھا گیا۔ الفاظ کی اِس تکرار کا مطلب یہ ہے کہ نواز لیگ نے توانائی (بجلی کے پیداواری شعبے کی بہتری) سے متعلق کم از کم 42 عدد وعدے کئے۔

بجلی کی چوری: پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے مطابق سال 2014ء (جولائی سے مئی) کے دوران 18فیصد بجلی چوری یا ترسیلی نظام کی خرابیوں کے سبب ضائع ہوئی۔ سال 2015ء (جولائی سے مئی) کے دوران یہ خسارہ بڑھ کر 18.3فیصد ہو گیا۔ اگرچہ یہ خسارہ ماضی کے مقابلے واجبی سا ہے لیکن جو بات لائق توجہ ہے وہ یہ ہے کہ خسارہ کم نہیں ہوا یا اس میں کمی کا رجحان نہیں بلکہ یہ بڑھ رہا ہے جو کسی انتظامی یا تکنیکی بہتری کے حوالے سے مثبت پیشرفت کی جانب اشارہ نہیں۔
بقایا جات کی وصولی: پیپکو کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2014ء (جولائی سے مئی) کے دوران بجلی کے کل 87.7فیصد صارفین نے اپنا بل باقاعدگی سے ادا کیا۔ سال 2015ء (جولائی سے مئی) کے دوران بجلی استعمال کرنے والے 88.6 فیصد صارفین سے وصولیاں کی گئیں۔ اگرچہ بجلی کے ماہانہ بلوں کی وصولی کی شرح میں یہ معمولی سا اضافہ ہے لیکن یہ ایک درست سمت میں سفر کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ خوش آئند اور قابل تعریف ہے۔

گردشی قرضہ: سال 2013ء کے دوران وصولی کے لحاظ سے گردشی قرضہ 411 ارب روپے تھا جو سال 2014ء میں بڑھ کر 512 ارب روپے ہو گیا اور سال 2015ء میں گردشی قرضے کا حجم 627ارب ہو چکا ہے۔ گردشی قرضے کا واجب الادأ حصہ سال 2013ء میں 207ارب روپے تھا جو سال مئی 2015ء کے اختتام تک 351 ارب روپے کی ریکارڈ سطح تک جا پہنچا۔

بجلی پیدا کرنے والی نجی ادارے: حب (HUBCO) کی جانب سے شائع ہونے والی فنانشیل اسٹیٹمنٹ کے مطابق اس ادارے کی 35.7 فیصد ایکویٹی (ملکیت و منافع میں حصہ) حسین داؤد کی ملکیت ہے۔ نشاط پاور لمیٹیڈ نامی ادارے کی فنانشیل اسٹیٹمنٹ کے مطابق ایکویٹی 28فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے غیرمعمولی تعداد میں ایک ایسے کاروبار سے منافع کما رہے ہیں‘ جس میں اُن کا صارف حکومت پاکستان ہے۔

کیا بجلی کی ’لوڈشیڈنگ‘ کا اختتام 2018ء کے آخر تک ممکن ہے؟ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ لوڈشیڈنگ میں کمی نہیں بلکہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں اور انفراسٹکچر بورڈ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار 538میگاواٹ ہے اور ہماری کل پیداواری صلاحیت کی کارکردگی یہ ہے کہ ہم ایک معمول کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا صرف نصف حصہ ہی پیدا کر پا رہے ہیں۔ کم تعداد میں بجلی پیدا کرنا اِس شعبے میں انتظامی معاملات کی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے صنعتی صارفین کو 16سے 21 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں7.5 سے 11.5 روپے ہے اور بھارت کے شہر گجرات میں یہی قیمت 5.2روپے سے 7.7 روپے فی یونٹ ہے۔ یاد رہے کہ بجلی کی یہ فی یونٹ قیمت کا موازنہ کرنسی کی شرح تبادلہ کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر نجی شعبے کی حاکمیت ہے۔ ایسے 9 بجلی گھروں کے قیام کی خوشخبری قوم کو سنائی گئی ہے جو کوئلے کی مدد سے چلیں گے۔ ان 9 بجلی گھروں میں سے ایک منصوبہ 6600میگاواٹ کا ’پاور پارک‘ ہے جو سب سے بڑا تھا اور یہ منصوبہ سردخانے کی نذر ہے۔ جہاں تک تیل اور گیس سے چلنے والے نجی بجلی گھروں کی بات ہے تو سندھ میں 120میگاواٹ کا ’کندرہ پاور پراجیکٹ‘ موجود تو ہے لیکن اس کی فعالیت کے لئے درکار گیس کی فراہمی ممکن بنانے سے متعلق اطلاعات کی تصدیق کرنا ابھی باقی ہے۔ اسی طرح 147میگاواٹ کا پیترنڈ ہائیڈرو پراجیکٹ اپریل 2017ء میں مکمل ہوگا۔

سرکاری شعبے میں ’نندی پور تھرمل پاور منصوبہ‘ کی تعمیر پر سات سال لگے لیکن اس کے چلنے کے پانچ ہی دنوں میں اسے بند کر دینا پڑا۔ سرکاری سطح پر ’نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک منصوبہ بھی گذشتہ سات سال سے تعمیر ہو رہا ہے اور ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ اِس منصوبے کی تکمیل کے لئے سال 2016ء کے اختتام تک کی تاریخ دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری سطح پر سال 2018ء تک بجلی کے کسی نئے چھوٹے بڑے پیداواری منصوبے پر کام کے آغاز کے آثار یا امکانات نہیں۔

پاکستان میں دو ایسے بنیادی محرکات ہیں جو بجلی کی پیداوار اور اس کی طلب کے درمیان پائے جانے والے فرق میں اضافے کا باعث ہیں۔ پہلا محرک تو یہ ہے کہ پورے جنوب ایشیاء میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنے کا رجحان اور شرح سب سے زیادہ ہے اور دوسرا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے جسے ’گلوبل وارمنگ‘ کہا جاتا ہے اور گرمی بڑھنے کے باعث لامحالۂ برقی مصنوعات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ منصوبہ سازوں کو معلوم ہے تو سال 2020ء تک پاکستان میں بجلی کی مانگ 35 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی!

کسی دانا کا قول ہے کہ ’’اعتماد بجلی ہی کی طرح ہوتا ہے۔ آپ اسے بصارت کی مدد سے نہیں دیکھ سکتے لیکن اِسے بصیرت کے نور (light) سے ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

No comments:

Post a Comment