ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انفرادی مفاد: اجتماعی خسارہ
انفرادی مفاد: اجتماعی خسارہ
فیصلہ سازی کے منصب پر فائز نفوس عالیہ کی ترجیحات اگر درست ہوتیں تو اس کے
ثمرات ایک منظم و باشعور معاشرت کی صورت ظاہر ہوتا‘ جس کی عدم موجودگی کے
باعث ہر خوبی ’ایک خرابی‘ بن چکی ہے۔ اگر ہم شعور بھی رکھتے تو پاکستان میں
سالانہ ’’ایک لاکھ‘‘ افراد کی اموات کا سبب بننے والی ’’تمباکو نوشی‘‘ پر
مکمل پابندی عائد ہو چکی ہوتی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سگریٹ بنانے
والے ادارے مجموعی طور پر سالانہ اوسطاً 70ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہیں
لیکن کیا ’ستر ارب روپے‘ کے عوض ایک لاکھ پاکستانیوں کو تکلیف دہ موت کا
شکار ہونے دیا جائے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ سگریٹ نوشی کو بطور فیشن
رائج اپنانے اور اس نشہ آور مستقل روگ کی صورت لاحق ہونے والے مرض کا شکار
ہونے والوں میں اکثریت نوجوانوں (لڑکے لڑکیوں) کی ہوتی ہے‘ جنہیں دوران
تعلیم کسی نہ کسی مرحلے پر سگریٹ نوشی سے واسطہ پڑتا ہے اور پھر ایک بڑی
تعداد اِس روگ کو اپنی باقی ماندہ زندگی کا جز بنا لیتی ہیں! محض شعور کی
کمی اور شعوری زندگی کی ابتدأ میں رہنمائی و توجہ سے محرومی کی شاخسانہ ہے
کہ ہمیں اپنے گردوپیش سگریٹ نوشی کرنے والوں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق
رکھنے والے بچے‘ بوڑھے‘ بالغ‘ نابالغ عاقل‘ عالم‘ فاضل اور جاہل یکساں
مبتلا دکھائی دیتے ہیں!
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ صحت کے حوالے سے پیچیدگیاں اور امراض صرف سگریٹ نوشی کرنے والوں ہی تک محدود رہتے ہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ بلاواسطہ یا بلاواسطہ (ایکٹو اور پیسیو) سگریٹ نوشی کے الگ الگ منفی اثرات ہیں اور سائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے سے زیادہ اُس کے قریب موجود افراد سانس کے ذریعے جو دھواں اپنے پھیپھڑوں میں جمع کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ صحت کے نکتۂ نظر سے زیادہ خطرناک اور مضرصحت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں دمہ اُور پھیپھڑوں کے امراض سمیت نظام تنفس سے جڑی کئی ایک پیچیدہ بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
سگریٹ نوشی کی جدید شکل ’شیشہ‘ کہلاتی ہے۔ قدیمی حقے (چلم) کی طرز پر تمباکو کا دھواں پانی سے گزر کر پھیپھڑوں میں پہنچتا ہے۔ صراحی نما شیشے کی بنی ہوئی ایک جاذب نظر بوتل اور ذائقے دار تمباکو کے مزے لوٹنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے اور عجب ہے کہ شیشے کے استعمال پر پابندی کے باوجود نہ صرف ایسے ’کلب‘ موجود ہیں جہاں باقاعدگی سے ہلکی روشنی اور تیز موسیقی میں شیشہ پینے پلانے کی محافل منعقد ہوتی ہیں بلکہ شیشہ اور اس سے متعلق جملہ لوازمات بھی مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ یونیورسٹی ٹاؤن کے پرہجوم ’شیشہ کلبوں‘ کی طرف بھی توجہ کریں اور ساتھ ہی ’شیشہ‘ میں استعمال ہونے والی ضروریات کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ درآمد ہونے والا ذائقے دار تمباکو یونیورسٹی ٹاؤن اور صدر کے معروف شاپنگ سنٹرز سے خریدا جا سکتا ہے۔ شیشے کے نام سے حقے کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اور نوجوان اسے باآسانی یہاں وہاں لیجا سکتے ہیں۔ حال ہی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی انتظارگاہ میں ایک نوجوان گردوپیش سے بے نیاز ’شیشے‘ کے کش لیتا دکھائی دیا‘ جس سے آس پاس کا ماحول معطر تھا اور کسی کو بھی یہ معطر ماحول ناگوار نہیں گزر رہا تھا حالانکہ تمباکو نوشی کی یہ جدید شکل و اسلوب عمومی بدبودار سگریٹ کے کڑوے دھویں جیسا ہی مضرصحت ہے! ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو نوشی کی جملہ اشکال و نقصانات کے بارے میں عوام الناس کی آگہی کا مسلسل انتظام ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ تعلیمی اداروں کی حدود میں سگریٹ‘ شیشہ‘ پان‘ چھالیہ‘ نسوار اور دیگر ایسی نشہ آور اشیاء کی فروخت پر مکمل ممانعت ہونی چاہئے‘ کیونکہ جو چیز باآسانی دستیاب ہو‘ چاہے اُس کی قیمت جتنی بھی بڑھا دی جائے‘ اُس کا استعمال ہوتا ہی رہے گا۔
تمباکو نوشی کو پرکشش بنانے کے لئے سگریٹ ساز اداروں کے پاس نہ تو نت نئے خیالات (آئیڈیاز) کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی وہ اُن کے پاس مالی وسائل کم ہیں۔ ایک وقت تک پاکستان سمیت دنیا میں کرکٹ کے کھیل کا فروغ سگریٹ ساز اداروں کی مرہون منت تھا لیکن اب اس کی جگہ ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس‘ نے لے لی ہے‘ جو یکساں طور پر مضرصحت ہیں۔ گذشتہ ہفتے حیات آباد کی صنعتی بستی میں ایک معروف کمپنی کی فیکٹری پر چھاپا مارنے والی ضلعی انتظامیہ کی ٹیم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لاکھوں کی تعداد میں یومیہ بوتلیں تیار کرنے کے مراحل میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ایک تو وہ محلول جو کہ مصنوعی رنگ‘ مصنوعی ذائقے اور ہاضمے کے نظام کو کمزور کرنے والی گیس کا مجموعہ ہوتا ہے اور دوسری طرف خاطرخواہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان دوگنا ہوجاتا ہے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے پلانٹ منیجر کو گرفتار کیا لیکن عجب ہے کہ اُس وقت فیکٹری میں موجودہ تیار شدہ اور تیاری کے مراحل سے گزرنے والا محلول (بوتلیں) ضائع (تلف) نہیں کی گئیں!
بالترتیب مصنوعی و نمائشی انتظامات اور اقدامات پر اکتفا سے مزید کام نہیں چلے گا‘ ہمیں اپنی نسلوں کو لاحق جملہ خطرات میں شامل تمباکو نوشی کے بارے میں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ کاشتکاروں کو تمباکو کے متبادل دیگر منافع بخش فصلیں کاشت کرنے کی ترغیب‘ مالی و تکنیکی معاونت کے ساتھ تربیت دینا ہو گی تاکہ وہ انفرادی مفاد کی بجائے اُس اجتماعی اور زیادہ بڑے پیمانے پر خسارے کی شدت و حجم کو بھانپ سکیں‘ جس کا تعلق آنے والی نسلوں اور ناقابل تلافی جانی نقصانات سے ہے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ صحت کے حوالے سے پیچیدگیاں اور امراض صرف سگریٹ نوشی کرنے والوں ہی تک محدود رہتے ہیں بلکہ صورتحال یہ ہے کہ بلاواسطہ یا بلاواسطہ (ایکٹو اور پیسیو) سگریٹ نوشی کے الگ الگ منفی اثرات ہیں اور سائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے سے زیادہ اُس کے قریب موجود افراد سانس کے ذریعے جو دھواں اپنے پھیپھڑوں میں جمع کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ صحت کے نکتۂ نظر سے زیادہ خطرناک اور مضرصحت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں دمہ اُور پھیپھڑوں کے امراض سمیت نظام تنفس سے جڑی کئی ایک پیچیدہ بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
سگریٹ نوشی کی جدید شکل ’شیشہ‘ کہلاتی ہے۔ قدیمی حقے (چلم) کی طرز پر تمباکو کا دھواں پانی سے گزر کر پھیپھڑوں میں پہنچتا ہے۔ صراحی نما شیشے کی بنی ہوئی ایک جاذب نظر بوتل اور ذائقے دار تمباکو کے مزے لوٹنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے اور عجب ہے کہ شیشے کے استعمال پر پابندی کے باوجود نہ صرف ایسے ’کلب‘ موجود ہیں جہاں باقاعدگی سے ہلکی روشنی اور تیز موسیقی میں شیشہ پینے پلانے کی محافل منعقد ہوتی ہیں بلکہ شیشہ اور اس سے متعلق جملہ لوازمات بھی مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ یونیورسٹی ٹاؤن کے پرہجوم ’شیشہ کلبوں‘ کی طرف بھی توجہ کریں اور ساتھ ہی ’شیشہ‘ میں استعمال ہونے والی ضروریات کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ درآمد ہونے والا ذائقے دار تمباکو یونیورسٹی ٹاؤن اور صدر کے معروف شاپنگ سنٹرز سے خریدا جا سکتا ہے۔ شیشے کے نام سے حقے کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے اور نوجوان اسے باآسانی یہاں وہاں لیجا سکتے ہیں۔ حال ہی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی انتظارگاہ میں ایک نوجوان گردوپیش سے بے نیاز ’شیشے‘ کے کش لیتا دکھائی دیا‘ جس سے آس پاس کا ماحول معطر تھا اور کسی کو بھی یہ معطر ماحول ناگوار نہیں گزر رہا تھا حالانکہ تمباکو نوشی کی یہ جدید شکل و اسلوب عمومی بدبودار سگریٹ کے کڑوے دھویں جیسا ہی مضرصحت ہے! ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو نوشی کی جملہ اشکال و نقصانات کے بارے میں عوام الناس کی آگہی کا مسلسل انتظام ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر عائد پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ تعلیمی اداروں کی حدود میں سگریٹ‘ شیشہ‘ پان‘ چھالیہ‘ نسوار اور دیگر ایسی نشہ آور اشیاء کی فروخت پر مکمل ممانعت ہونی چاہئے‘ کیونکہ جو چیز باآسانی دستیاب ہو‘ چاہے اُس کی قیمت جتنی بھی بڑھا دی جائے‘ اُس کا استعمال ہوتا ہی رہے گا۔
تمباکو نوشی کو پرکشش بنانے کے لئے سگریٹ ساز اداروں کے پاس نہ تو نت نئے خیالات (آئیڈیاز) کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی وہ اُن کے پاس مالی وسائل کم ہیں۔ ایک وقت تک پاکستان سمیت دنیا میں کرکٹ کے کھیل کا فروغ سگریٹ ساز اداروں کی مرہون منت تھا لیکن اب اس کی جگہ ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس‘ نے لے لی ہے‘ جو یکساں طور پر مضرصحت ہیں۔ گذشتہ ہفتے حیات آباد کی صنعتی بستی میں ایک معروف کمپنی کی فیکٹری پر چھاپا مارنے والی ضلعی انتظامیہ کی ٹیم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لاکھوں کی تعداد میں یومیہ بوتلیں تیار کرنے کے مراحل میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ ایک تو وہ محلول جو کہ مصنوعی رنگ‘ مصنوعی ذائقے اور ہاضمے کے نظام کو کمزور کرنے والی گیس کا مجموعہ ہوتا ہے اور دوسری طرف خاطرخواہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان دوگنا ہوجاتا ہے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے پلانٹ منیجر کو گرفتار کیا لیکن عجب ہے کہ اُس وقت فیکٹری میں موجودہ تیار شدہ اور تیاری کے مراحل سے گزرنے والا محلول (بوتلیں) ضائع (تلف) نہیں کی گئیں!
بالترتیب مصنوعی و نمائشی انتظامات اور اقدامات پر اکتفا سے مزید کام نہیں چلے گا‘ ہمیں اپنی نسلوں کو لاحق جملہ خطرات میں شامل تمباکو نوشی کے بارے میں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ کاشتکاروں کو تمباکو کے متبادل دیگر منافع بخش فصلیں کاشت کرنے کی ترغیب‘ مالی و تکنیکی معاونت کے ساتھ تربیت دینا ہو گی تاکہ وہ انفرادی مفاد کی بجائے اُس اجتماعی اور زیادہ بڑے پیمانے پر خسارے کی شدت و حجم کو بھانپ سکیں‘ جس کا تعلق آنے والی نسلوں اور ناقابل تلافی جانی نقصانات سے ہے۔
No comments:
Post a Comment