ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مفاد عامہ: ذمہ داریاں اُور کردار
مفاد عامہ: ذمہ داریاں اُور کردار
پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی دیکھا دیکھی دیگر اضلاع میں بھی ڈپٹی کمشنر
دفاتر کے اہلکاروں نے کمر کس رکھی ہے۔ ناجائز منافع خوری اُور تجاوزات کے
خلاف مثالی کاروائیوں کے بعد اب شامت ناقص المعیار اشیائے خوردونوش فروخت
کرنے والوں کی آئی ہے‘ جن میں کئی ایک ایسے نام بھی شامل ہیں جو اپنے ہاں
فروخت ہونے والی اشیائے خوردونوش کو ’عالمی معیار کے مطابق‘ قرار دیتے ہوئے
کئی گنا زیادہ قیمتیں وصول کرتے رہے ہیں لیکن جب اُن کی چمکتی دمکتی
دکانوں کے پس پردہ کارخانوں کو دیکھا گیا تو گندگی و غلاظت سے اٹے ہوئے
تھے! بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں زائدالمعیاد اشیاء فروخت کی جا رہی تھیں
جن کا استعمال جانوروں کے لئے بھی غیرمحفوظ قرار دیا گیا!
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’پے در پے‘ جاری کاروائیوں میں واحد خامی یہ تھی کہ اس کے آغاز سے قبل صفائی اور دیگر امور سے متعلق ہدایات (ایس اُو پیز) جاری نہیں کئے گئے۔ مفاد عامہ میں صحت و حفاظت جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے ’کم سے کم معیار کے حوالے سے ہدایات‘ مرتب کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ تمام عملہ جو کھانے پینے کی تیاری کے مقامات پر خدمات سرانجام دے گا‘ اُس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ دستانے استعامل کرے‘ اُن کے سروں پر ٹوپیاں ہوں تاکہ اُن کے بال یا خشکی کھانے کا حصہ نہ بنے اور باروچی خانے صاف ستھرے ہوں۔
ضلعی انتظامیہ صفائی کے جس کم سے کم معیار کو لاگو کرنا چاہتی ہے اگر اس کا نصف بھی حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ موجودہ ضلعی انتظامیہ کے بعد آنے والے مفاد عامہ کے کاموں میں کس قدر یک سوئی اور توجہ سے دلچسپی لیں گے لیکن سردست حاصل ہونے والی کامیابیوں پر جس قدر اظہار اطمینان و مسرت کیا جائے کم ہوگا۔ اس لمحۂ فکر پر ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی آرأ‘ سروے‘ سیمینار اُور گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے۔ پشاور سے منتخب ہونے والی شخصیات کو آپس میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور ایوان بالا (سینیٹ) میں پشاور کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے اخبارات و ٹیلی ویژن چینل اَہم کردار اَدا کرسکتے ہیں۔ پشاور کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اگر اسے ایک عرصے سے وزیراعلیٰ نہیں ملا تو یہاں کا اپنا کوئی ایک ٹیلی ویژن چینل تادم تحریر ’آن ائر‘ نہیں۔ سبھی نجی و سرکاری نشریاتی ادارے دیگر شہروں میں صدر دفاتر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کراچی یا لاہور یا اسلام آباد میں بیٹھ کر پشاور کی طرف دیکھنا اور پشاور میں بیٹھ کر یہاں کے مسائل اور خیبرپختونخوا کی صورتحال کا منظرنامہ پیش کرنا دو الگ الگ بلکہ متضاد حقیقتیں ہیں۔ المیہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا یا پشاور کے کسی حصے میں کوئی سانحہ یا واقعہ پیش آتا ہے تو ٹیلی ویژن پر اینکر مردوخواتین علاقوں کے نام بھی درست تلفظ کے ساتھ نہیں لیتے تو وہ ذرائع ابلاغ جسے ہمارے صوبے کے نام تک درست تلفظ کے ساتھ یاد نہیں اُن سے بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ یہاں کے مسائل سے گہری یا دلی وابستگی کا مظاہرہ کریں گے۔ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی مجبوری ’ریٹنگ (عوامی مقبولیت) کا معیار‘ بھی ہے جس کے نقشے پر پشاور اُور خیبرپختونخوا کا وجود ہی نہیں۔ خیبرپختونخوا اگر دوسروں کی ترجیح نہیں تو کیا یہ یہاں کے رہنے والوں کی ترجیح بھی ہے؟ دوسروں کی سنگ دلی یا مروت کا گلہ کرنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ میں متحد ہو کر سوچنا پڑے گا۔ جنہیں قیادت کے منصب پر فائز کیا ہے‘ اُنہیں دعوت فکر و عمل دینا ہوگی اور یہ کام (موجودہ صورتحال میں) ذرائع ابلاغ کے علاؤہ کسی دوسرے محاذ (فورم) سے عملاً ممکن نہیں۔
پس تحریر: مستقبل پر نظر رکھنے والے بیدار ذہنوں کی نظر سے دیکھا جائے تو ماضی کے واقعات یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں‘ جنہیں سامنے رکھتے ہوئے کسی خطے کے کی تاریخ و ثقافت اور وہاں رہنے والوں کی ضروریات کا زیادہ پائیدار و مربوط حل متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے بارے میں لکھے ہوئے ہر ایک لفظ‘ جملے‘ مضمون یا کتاب کا کچھ نہ کچھ حاصل ضرور ہوتا ہے۔ جس سے سوچ کو نئے زاویئے اور جستجو کی تحریک کو توانائی ملتی ہے۔ ’’تاریخ صوابی‘‘ کے نام سے ضیاء اللہ خان جدون کی تصنیفایک ایسا کارہائے نمایاں ہے‘ جس سے نہ صرف تحقیق کاروں کو ماضی و حال اُور بالخصوص ’گندھارا تہذیب‘ کے اِس اہم علاقے کو سمجھنے میں مدد ملی ہے بلکہ اِس کوشش کی روشنی میں پشاور و دیگر علاقوں کی اہمیت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے‘ جو ایک الگ لیکن پیوستہ موضوع ہے۔ ’دیار خان فاؤنڈیشن یعقوبی صوابی‘ اُور ’افغان ریسرچ سنٹر‘ کے شعبۂ نشرواشاعت کی یہ کاوش ہر نجی و سرکاری لائبریری کا حصہ ہونے کے علاؤہ دیگر علاقائی و انگریزی زبانوں میں ترجمہ بھی ہونی چاہئے۔ اگرچہ ’تاریخ صوابی‘ جامع یا مکمل قرار نہیں دی جاسکتی لیکن یہ ایک ایسی عمدہ کوشش ضرور ہے جس نے اِس موضوع پر مزید غوروفکر (تحقیق و تحریر)کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’پے در پے‘ جاری کاروائیوں میں واحد خامی یہ تھی کہ اس کے آغاز سے قبل صفائی اور دیگر امور سے متعلق ہدایات (ایس اُو پیز) جاری نہیں کئے گئے۔ مفاد عامہ میں صحت و حفاظت جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے ’کم سے کم معیار کے حوالے سے ہدایات‘ مرتب کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ تمام عملہ جو کھانے پینے کی تیاری کے مقامات پر خدمات سرانجام دے گا‘ اُس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ دستانے استعامل کرے‘ اُن کے سروں پر ٹوپیاں ہوں تاکہ اُن کے بال یا خشکی کھانے کا حصہ نہ بنے اور باروچی خانے صاف ستھرے ہوں۔
ضلعی انتظامیہ صفائی کے جس کم سے کم معیار کو لاگو کرنا چاہتی ہے اگر اس کا نصف بھی حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ موجودہ ضلعی انتظامیہ کے بعد آنے والے مفاد عامہ کے کاموں میں کس قدر یک سوئی اور توجہ سے دلچسپی لیں گے لیکن سردست حاصل ہونے والی کامیابیوں پر جس قدر اظہار اطمینان و مسرت کیا جائے کم ہوگا۔ اس لمحۂ فکر پر ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی آرأ‘ سروے‘ سیمینار اُور گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے۔ پشاور سے منتخب ہونے والی شخصیات کو آپس میں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور ایوان بالا (سینیٹ) میں پشاور کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے اخبارات و ٹیلی ویژن چینل اَہم کردار اَدا کرسکتے ہیں۔ پشاور کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اگر اسے ایک عرصے سے وزیراعلیٰ نہیں ملا تو یہاں کا اپنا کوئی ایک ٹیلی ویژن چینل تادم تحریر ’آن ائر‘ نہیں۔ سبھی نجی و سرکاری نشریاتی ادارے دیگر شہروں میں صدر دفاتر رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کراچی یا لاہور یا اسلام آباد میں بیٹھ کر پشاور کی طرف دیکھنا اور پشاور میں بیٹھ کر یہاں کے مسائل اور خیبرپختونخوا کی صورتحال کا منظرنامہ پیش کرنا دو الگ الگ بلکہ متضاد حقیقتیں ہیں۔ المیہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا یا پشاور کے کسی حصے میں کوئی سانحہ یا واقعہ پیش آتا ہے تو ٹیلی ویژن پر اینکر مردوخواتین علاقوں کے نام بھی درست تلفظ کے ساتھ نہیں لیتے تو وہ ذرائع ابلاغ جسے ہمارے صوبے کے نام تک درست تلفظ کے ساتھ یاد نہیں اُن سے بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ یہاں کے مسائل سے گہری یا دلی وابستگی کا مظاہرہ کریں گے۔ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی مجبوری ’ریٹنگ (عوامی مقبولیت) کا معیار‘ بھی ہے جس کے نقشے پر پشاور اُور خیبرپختونخوا کا وجود ہی نہیں۔ خیبرپختونخوا اگر دوسروں کی ترجیح نہیں تو کیا یہ یہاں کے رہنے والوں کی ترجیح بھی ہے؟ دوسروں کی سنگ دلی یا مروت کا گلہ کرنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ میں متحد ہو کر سوچنا پڑے گا۔ جنہیں قیادت کے منصب پر فائز کیا ہے‘ اُنہیں دعوت فکر و عمل دینا ہوگی اور یہ کام (موجودہ صورتحال میں) ذرائع ابلاغ کے علاؤہ کسی دوسرے محاذ (فورم) سے عملاً ممکن نہیں۔
پس تحریر: مستقبل پر نظر رکھنے والے بیدار ذہنوں کی نظر سے دیکھا جائے تو ماضی کے واقعات یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں‘ جنہیں سامنے رکھتے ہوئے کسی خطے کے کی تاریخ و ثقافت اور وہاں رہنے والوں کی ضروریات کا زیادہ پائیدار و مربوط حل متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے بارے میں لکھے ہوئے ہر ایک لفظ‘ جملے‘ مضمون یا کتاب کا کچھ نہ کچھ حاصل ضرور ہوتا ہے۔ جس سے سوچ کو نئے زاویئے اور جستجو کی تحریک کو توانائی ملتی ہے۔ ’’تاریخ صوابی‘‘ کے نام سے ضیاء اللہ خان جدون کی تصنیفایک ایسا کارہائے نمایاں ہے‘ جس سے نہ صرف تحقیق کاروں کو ماضی و حال اُور بالخصوص ’گندھارا تہذیب‘ کے اِس اہم علاقے کو سمجھنے میں مدد ملی ہے بلکہ اِس کوشش کی روشنی میں پشاور و دیگر علاقوں کی اہمیت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے‘ جو ایک الگ لیکن پیوستہ موضوع ہے۔ ’دیار خان فاؤنڈیشن یعقوبی صوابی‘ اُور ’افغان ریسرچ سنٹر‘ کے شعبۂ نشرواشاعت کی یہ کاوش ہر نجی و سرکاری لائبریری کا حصہ ہونے کے علاؤہ دیگر علاقائی و انگریزی زبانوں میں ترجمہ بھی ہونی چاہئے۔ اگرچہ ’تاریخ صوابی‘ جامع یا مکمل قرار نہیں دی جاسکتی لیکن یہ ایک ایسی عمدہ کوشش ضرور ہے جس نے اِس موضوع پر مزید غوروفکر (تحقیق و تحریر)کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment