ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تشویشناک تشویش
تشویشناک تشویش
نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے لئے تفکرات کی کمی نہیں۔
ٹیوشن فیسوں میں بناء کسی تناسب سالانہ اضافہ ہی باعث تشویش نہیں‘ بلکہ
کلر ڈے‘ سپورٹس ڈے‘ یہ ڈے‘ وہ ڈے اور نجانے کون کون سے ڈے والدین کو کتنے
بھاری پڑتے ہیں‘ اِس کا اندازہ و بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ اگرچہ تعلیم کا
معیار روز بہ روز گر رہا ہے لیکن اس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔
ماضی میں آٹھویں جماعت پاس بچوں کی ذہانت و قابلیت دیدنی ہوا کرتی تھی اور اگر کوئی بی اے یا ایم اے کر لیتا تھا تو وہ سند کو اپنے نام کے ساتھ بطور سابقہ استعمال کرتا۔ گھر پر تختی لگائی جاتی کہ فلاں بن فلاں۔ ایم اے۔ آج بھی پشاور کی گلی کوچوں میں اکا دکا ایسی تختیاں نصب مل ہی جاتی ہیں‘ جنہیں اگرچہ موسمی اثرات نے کھرچ دیا ہے لیکن الفاظ کا تسلسل باقی ہے۔ تعلیم و تربیت کا وہ بلند معیار‘ اَخلاق‘ اَقدار اور اِنسانیت پر مبنی رویئے اگر تبدیل ہوئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے درس و تدریس کا طریقہ ہے‘ جس میں رٹے رٹائے جملوں کی اہمیت نصاب سے حاصل ہونے والے اسباق پر مقدم کر دی گئی ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ پر بچوں کے تعلیمی اَخراجات پورا کرنے والے والدین اگر ایک طرف معیار تعلیم سے مطمئن نہیں تو دوسری جانب اُنہوں اپنے بچوں کی درسگاہوں تک آمدورفت کے لئے ناقابل بھروسہ وسائل پر بھروسہ کرنے جیسی مجبوری لاحق ہے‘ جس نے اُن کا خون خشک کر رکھا ہے!
فیصلہ سازوں کو دیکھنا چاہئے کہ جن نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تعداد کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا جاتا‘ اُنہیں اِس ’کاروبار‘ سے الگ کردیا جائے۔ سرکاری سکولوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ طلباء و طالبات کی تعداد کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں کیونکہ تعلیم کی طرح ٹرانسپورٹ کا شعبہ جس نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے‘ وہ کسی ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے تابع فرمان نہیں۔
بطور مثال ایبٹ آباد کی وسطی اور گنجان آباد شہری یونین کونسل کیہال کے رہائشی طاہر شکیل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ملاحظہ کیجئے جن کے بارہ سالہ بیٹے کو دو دیگر ساتھیوں سمیت سوزوکی ڈرائیور نے اغوأ کر لیا‘ اُور اگرچہ اِس اغوأ کی اطلاع متعلقہ پولیس تھانے اور حکام بالا تک پہنچا دی گئی لیکن بچوں کا سراغ نہیں ملا۔ غم زدہ خاندان کی خوش قسمتی تھی کہ فیض آباد روالپنڈی کے مقام پر بچے موقع ملتے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے بعدازاں ایک ٹریفک کانسٹیبل کی مدد سے گھر رابطہ کیا اور یوں ایک ایسا سانحہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا‘ جس کے کئی ایک پہلو ہیں۔ کیا بچوں کو دہشت گردی (خودکش حملوں) میں استعمال کرنے کے لئے اغوأ کیا گیا؟ کیا انہیں انسانی اسمگلنگ کے کسی گروہ کے ہاتھوں فروخت کردینا تھا جو بعدازاں جبری مشقت یا بیرون ملک انہیں غلام بنا کر بیچ دیتا یا یہ اغوأ برائے تاوان کی واردات تھی۔ جن متوسط خاندانوں سے بچوں کا تعلق ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے زیادہ تاوان ملنے کی اُمید نہیں تھی لیکن یقیناًاغوأکار نہ تو اکیلے تھے اور نہ ہی گردوپیش سے بے نیاز۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دن دیہاڑے واردات کرنے کے باوجود نصف درجن پولیس ناکوں سے گزرتے ہوئے ایبٹ آباد سے روالپنڈی جا پہنچے اور پھر بھی گرفتار نہیں ہوئے!
تعلیمی اداروں کے شہر ’ایبٹ آباد‘ میں رونما ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے لیکن پہلا نہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اپنی ناکامی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کس طرح ایک نامعلوم و غیرمقامی ڈرائیور ’سکول وین‘ چلانے لگا۔ پھر وہ کہاں رہائش پذیر رہا اور واردات کے بعد مصروف چوراہوں سے ہوتا ہوا صرف ضلع ایبٹ آباد ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی حدود سے ہی باہر جا پہنچا۔ اس سلسلے میں تفتیش کا دائرہ کار روائتی راستوں کی بجائے اُن غیرروائتی راستوں تک بھی وسیع ہونا چاہئے‘ جن پر سفر کرنے والوں کو پولیس چیک پوسٹوں سے واسطہ نہیں پڑتا۔ اگر پولیس کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے تو ایسے راستوں کی نگرانی ’سی سی ٹی وی کیمروں‘ سے باآسانی ممکن ہے۔
والدین کی تو مجبوری ہے کہ وہ بچوں کی سکولنگ کے ساتھ اُس ٹرانسپورٹ پر بھی بھروسہ کریں جس کی شناخت و اجازت کے مراحل میں وہ شریک نہیں اور نہ ہی متعلقہ سکولوں کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ سکول گیٹ کے باہر بچوں کو لانے لیجانے والے ڈرائیور یا ٹرانسپورٹ کا نظام کس قدر سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے الگ سے نظام مرتب نہیں کرسکتے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا رنگ الگ ہو‘ اُن کی رجسٹریشن‘ فٹنس سرٹیفکیٹ اور ڈرائیور کے کوائف کا ریکارڈ رکھا جائے۔ ایسی گاڑیاں مقررہ راستوں یا ضلع کی حدود سے اگر باہر جائیں تو اس کی اطلاع خودکار نظام کے تحت متعلقہ تھانے کو مل جائے۔ ڈرائیور کی بودوباش اور عادات پر نظر رکھی جائے۔ گاڑی میں موسیقی یا دوران سفر بچوں کے ساتھ ڈرائیور کے ہنسی مذاق کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھ کر طلباء یا طالبات کے سفر پر پابندی عائد کی جائے اور گاڑی میں نشست کے تناسب سے بچوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مقرر کی جائے۔ حال ہی میں سندھ حکومت نے ایسی تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جو ’سی این جی‘ یا ایل پی جی (مائع گیس)‘ سے چلتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کی موٹروہیکل اتھارٹی اور محکمۂ تعلیم کے حکام بھی ایسی تمام چھوٹی بڑی بسوں‘ ویگنوں اور سوزوکی وینز بالخصوص تعلیمی اداروں کے لئے استعمال ہونے گاڑیوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے جن میں بطور ایندھن گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گیس کے یہ سلنڈر مسافروں کی نشستوں کے نیچے نصب کئے جاتے ہیں‘ جو کسی ٹائم بم ہی طرح انتہائی خطرناک ہیں۔ کیا ہم کسی جان لیوا حادثے کے رونما ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟
بچوں کے لئے باسہولت اور باحفاظت ذرائع آمدورفت کی دستیابی ممکن بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ یوں یکے بعد دیگرے ہر کام نجی شعبے کے حوالے کرنے اور ساکت و جامد ’ریگولیٹری اتھارٹیز‘ کے چال چلن سے بظاہر جو کام چل رہا ہے‘ جس سے چونکہ صرف عام آدمی کو تشویش لاحق ہے اس لئے سیاسی و مبینہ غیرسیاسی فیصلہ ساز اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ جن کے بچوں کے لئے سرکاری گاڑیاں‘ سرکاری ملازم بطور ڈرائیور اور قومی خزانے سے وافر ایندھن دستیاب ہو‘ اُن کے والدین کو بھلا کیا تشویش ہوگی‘ مسئلہ تو اُس عام آدمی (ہم عوام) کا ہے‘ جنہیں کسی پل چین نہیں۔ بلاامتیاز احتساب اور سرکاری وسائل کا ضیاع روکنے پر یقین رکھنے والی خیبرپختونخوا حکومت کیا سرکاری گاڑیوں کے دفتری اوقات کے بعد استعمال پر پابندی عائد کر سکتی ہے؟
اگر فیصلہ سازوں کو اس بات راغب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوائیں تاکہ اِن اداروں کی حالت بہتر بنائی جا سکے تو کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ آمدورفت کے لئے سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کی ممانعت ہونی چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ جب فیصلہ سازوں کے اپنے بچے نجی ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر سفر کریں تو کسی کو اِس ’بظاہر معمولی مسئلے‘ کی جانب توجہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہو!
ماضی میں آٹھویں جماعت پاس بچوں کی ذہانت و قابلیت دیدنی ہوا کرتی تھی اور اگر کوئی بی اے یا ایم اے کر لیتا تھا تو وہ سند کو اپنے نام کے ساتھ بطور سابقہ استعمال کرتا۔ گھر پر تختی لگائی جاتی کہ فلاں بن فلاں۔ ایم اے۔ آج بھی پشاور کی گلی کوچوں میں اکا دکا ایسی تختیاں نصب مل ہی جاتی ہیں‘ جنہیں اگرچہ موسمی اثرات نے کھرچ دیا ہے لیکن الفاظ کا تسلسل باقی ہے۔ تعلیم و تربیت کا وہ بلند معیار‘ اَخلاق‘ اَقدار اور اِنسانیت پر مبنی رویئے اگر تبدیل ہوئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے درس و تدریس کا طریقہ ہے‘ جس میں رٹے رٹائے جملوں کی اہمیت نصاب سے حاصل ہونے والے اسباق پر مقدم کر دی گئی ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ پر بچوں کے تعلیمی اَخراجات پورا کرنے والے والدین اگر ایک طرف معیار تعلیم سے مطمئن نہیں تو دوسری جانب اُنہوں اپنے بچوں کی درسگاہوں تک آمدورفت کے لئے ناقابل بھروسہ وسائل پر بھروسہ کرنے جیسی مجبوری لاحق ہے‘ جس نے اُن کا خون خشک کر رکھا ہے!
فیصلہ سازوں کو دیکھنا چاہئے کہ جن نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تعداد کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا جاتا‘ اُنہیں اِس ’کاروبار‘ سے الگ کردیا جائے۔ سرکاری سکولوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ طلباء و طالبات کی تعداد کے تناسب سے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں کیونکہ تعلیم کی طرح ٹرانسپورٹ کا شعبہ جس نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے‘ وہ کسی ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے تابع فرمان نہیں۔
بطور مثال ایبٹ آباد کی وسطی اور گنجان آباد شہری یونین کونسل کیہال کے رہائشی طاہر شکیل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ملاحظہ کیجئے جن کے بارہ سالہ بیٹے کو دو دیگر ساتھیوں سمیت سوزوکی ڈرائیور نے اغوأ کر لیا‘ اُور اگرچہ اِس اغوأ کی اطلاع متعلقہ پولیس تھانے اور حکام بالا تک پہنچا دی گئی لیکن بچوں کا سراغ نہیں ملا۔ غم زدہ خاندان کی خوش قسمتی تھی کہ فیض آباد روالپنڈی کے مقام پر بچے موقع ملتے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے بعدازاں ایک ٹریفک کانسٹیبل کی مدد سے گھر رابطہ کیا اور یوں ایک ایسا سانحہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا‘ جس کے کئی ایک پہلو ہیں۔ کیا بچوں کو دہشت گردی (خودکش حملوں) میں استعمال کرنے کے لئے اغوأ کیا گیا؟ کیا انہیں انسانی اسمگلنگ کے کسی گروہ کے ہاتھوں فروخت کردینا تھا جو بعدازاں جبری مشقت یا بیرون ملک انہیں غلام بنا کر بیچ دیتا یا یہ اغوأ برائے تاوان کی واردات تھی۔ جن متوسط خاندانوں سے بچوں کا تعلق ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے زیادہ تاوان ملنے کی اُمید نہیں تھی لیکن یقیناًاغوأکار نہ تو اکیلے تھے اور نہ ہی گردوپیش سے بے نیاز۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دن دیہاڑے واردات کرنے کے باوجود نصف درجن پولیس ناکوں سے گزرتے ہوئے ایبٹ آباد سے روالپنڈی جا پہنچے اور پھر بھی گرفتار نہیں ہوئے!
تعلیمی اداروں کے شہر ’ایبٹ آباد‘ میں رونما ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے لیکن پہلا نہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اپنی ناکامی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کس طرح ایک نامعلوم و غیرمقامی ڈرائیور ’سکول وین‘ چلانے لگا۔ پھر وہ کہاں رہائش پذیر رہا اور واردات کے بعد مصروف چوراہوں سے ہوتا ہوا صرف ضلع ایبٹ آباد ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی حدود سے ہی باہر جا پہنچا۔ اس سلسلے میں تفتیش کا دائرہ کار روائتی راستوں کی بجائے اُن غیرروائتی راستوں تک بھی وسیع ہونا چاہئے‘ جن پر سفر کرنے والوں کو پولیس چیک پوسٹوں سے واسطہ نہیں پڑتا۔ اگر پولیس کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے تو ایسے راستوں کی نگرانی ’سی سی ٹی وی کیمروں‘ سے باآسانی ممکن ہے۔
والدین کی تو مجبوری ہے کہ وہ بچوں کی سکولنگ کے ساتھ اُس ٹرانسپورٹ پر بھی بھروسہ کریں جس کی شناخت و اجازت کے مراحل میں وہ شریک نہیں اور نہ ہی متعلقہ سکولوں کو اس بات سے کوئی غرض ہے کہ سکول گیٹ کے باہر بچوں کو لانے لیجانے والے ڈرائیور یا ٹرانسپورٹ کا نظام کس قدر سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے الگ سے نظام مرتب نہیں کرسکتے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا رنگ الگ ہو‘ اُن کی رجسٹریشن‘ فٹنس سرٹیفکیٹ اور ڈرائیور کے کوائف کا ریکارڈ رکھا جائے۔ ایسی گاڑیاں مقررہ راستوں یا ضلع کی حدود سے اگر باہر جائیں تو اس کی اطلاع خودکار نظام کے تحت متعلقہ تھانے کو مل جائے۔ ڈرائیور کی بودوباش اور عادات پر نظر رکھی جائے۔ گاڑی میں موسیقی یا دوران سفر بچوں کے ساتھ ڈرائیور کے ہنسی مذاق کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ڈرائیور کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھ کر طلباء یا طالبات کے سفر پر پابندی عائد کی جائے اور گاڑی میں نشست کے تناسب سے بچوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مقرر کی جائے۔ حال ہی میں سندھ حکومت نے ایسی تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جو ’سی این جی‘ یا ایل پی جی (مائع گیس)‘ سے چلتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کی موٹروہیکل اتھارٹی اور محکمۂ تعلیم کے حکام بھی ایسی تمام چھوٹی بڑی بسوں‘ ویگنوں اور سوزوکی وینز بالخصوص تعلیمی اداروں کے لئے استعمال ہونے گاڑیوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے جن میں بطور ایندھن گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گیس کے یہ سلنڈر مسافروں کی نشستوں کے نیچے نصب کئے جاتے ہیں‘ جو کسی ٹائم بم ہی طرح انتہائی خطرناک ہیں۔ کیا ہم کسی جان لیوا حادثے کے رونما ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟
بچوں کے لئے باسہولت اور باحفاظت ذرائع آمدورفت کی دستیابی ممکن بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ یوں یکے بعد دیگرے ہر کام نجی شعبے کے حوالے کرنے اور ساکت و جامد ’ریگولیٹری اتھارٹیز‘ کے چال چلن سے بظاہر جو کام چل رہا ہے‘ جس سے چونکہ صرف عام آدمی کو تشویش لاحق ہے اس لئے سیاسی و مبینہ غیرسیاسی فیصلہ ساز اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ جن کے بچوں کے لئے سرکاری گاڑیاں‘ سرکاری ملازم بطور ڈرائیور اور قومی خزانے سے وافر ایندھن دستیاب ہو‘ اُن کے والدین کو بھلا کیا تشویش ہوگی‘ مسئلہ تو اُس عام آدمی (ہم عوام) کا ہے‘ جنہیں کسی پل چین نہیں۔ بلاامتیاز احتساب اور سرکاری وسائل کا ضیاع روکنے پر یقین رکھنے والی خیبرپختونخوا حکومت کیا سرکاری گاڑیوں کے دفتری اوقات کے بعد استعمال پر پابندی عائد کر سکتی ہے؟
اگر فیصلہ سازوں کو اس بات راغب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوائیں تاکہ اِن اداروں کی حالت بہتر بنائی جا سکے تو کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ آمدورفت کے لئے سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کی ممانعت ہونی چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ جب فیصلہ سازوں کے اپنے بچے نجی ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر سفر کریں تو کسی کو اِس ’بظاہر معمولی مسئلے‘ کی جانب توجہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہو!
![]() |
Concerns of parents regarding the safety of their kids & public transport using for schools |
No comments:
Post a Comment