ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مقبوضہ پشاور!؟
مقبوضہ پشاور!؟
یادش بخیر پشاور کے اُس درخشاں مستقبل کا ذکر کتابوں یا چند ایک یاداشتوں
کی حد تک ہی محفوظ و محظوظ رہ گیا ہے جب رہائشی و تجارتی سرگرمیوں کے لئے
الگ الگ علاقوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم گھڑی کی
سوئیاں تو آگے پیچھے کر سکتے ہیں مگر گزرے ہوئے وقت کی واپسی ممکن نہیں۔
بگڑے ہوئے حالات و معاملات کو ایک ایک کر کے ’درست کرنا‘ البتہ ضرور ممکن
ہے جیسا کہ پشاور کے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے انواع و
اقسام کی ایسی خرابیاں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئیں ہیں جن کا یہاں کی
معاشرت سے تعلق نہیں تھا۔ سوال سرکاری اداروں کی کارکردگی سے متعلق بھی ہے
کہ کثیرالمنزلہ عمارتوں کے منظورشدہ نقشہ جات کے مطابق تعمیرات کیوں نہیں
کی گئیں؟ جب رہائشی یا تجارتی مقاصد کے لئے‘ ہر تعمیر کے ہر مرحلے کی
نگرانی کے قواعد اور اُن پر عمل درآمد کرانے کے لئے ایک سے زیادہ سرکاری
محکمے موجود ہیں تو یہ محکمے اپنی موجودگی کا عملی طور پر ثبوت کیوں نہیں
دے رہے؟ اِس لمحۂ فکر پر کچھ دیر قیام و تفکر کیجئیکہ وہ درجنوں دیگر
محرکات کیا ہیں جن کی وجہ سے ’مقبوضہ پشاور‘ تو ہر دن غریب لیکن سیاسی
اثرورسوخ رکھنے والوں کا مستقبل محفوظ اور مالی طور پر مضبوط و توانا ہوتا
چلا جا رہا ہے!؟ کیا پشاور کراچی بن رہا ہے جہاں ’سیاست اور جرائم‘ کے
درمیان ایک باضابطہ تعلق ڈھکی چھپی بات نہیں رہی! کیا ہم اس حقیقت سے انکار
کر سکتے ہیں کہ پشاور کے ہر علاقے کا اپنا ’قبضہ مافیا‘ اور اُن پر نگرانی
کرنے والے گروہ الگ ہیں‘ جنہیں قانون کے نفاذ یا عدالتوں کے فیصلوں پر عمل
درآمد ممکن بنانے والوں کے ’وجود‘ سے نہ تو خوف ہے اور نہ ہی خطرہ!
تجاوزات یا کمزور طبقات سے جائیدادیں ہتھیانے والے گروہ اور طریقۂ واردات
کی ایک جھلک عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے‘ اس
سلسلے میں وکلأ برادری سے التماس ہے کہ وہ محض ذاتی مفاد کے لئے مظلوم کے
مقابلے ظالم کی طرف داری نہ کریں۔ سیاست اور قانون سے متعلق علوم و تجربات
کا استعمال انسانیت کی خدمت اُور فلاح و بہبود کے لئے بھی تو کیا جاسکتا
ہے؟ سیاست دانوں سے وابستہ ’اُجلے نکھرے اُور مخصوص بودوباش‘ رکھنے والے
اگر تھانہ کچہری کے ’نبض آشنا‘ بن چکے ہیں تو اس ’تعلق داری (ایکویشن)‘ کو
ختم بھی تو کیا جا سکتا ہے اُور عام آدمی (غریب و متوسط طبقات سے تعلق
رکھنے والے سفیدپوش) جس ’استحصال اور ذہنی کرب‘ سے گزر رہے ہیں‘ اُس کا
سلسلہ اور کوئی نہ کوئی انتہاء بھی تو ہونی چاہئے!َ؟
امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور کا میونسپل نگران (ایڈمنسٹریٹر) بیک وقت کئی محاذوں پر ’جہاد‘ میں مصروف ایک ایسا گمنام سپاہی ہے‘ جس کی خدمات کا احاطہ چند ایک سطور میں ممکن نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ محکمانۂ ملازمتی قواعد کی رو سے اِس قدر بڑے عہدے پر فائز ہونے کے اہل تھے یا نہیں تھے اور کیا اُن کی تعیناتی میں سیاسی عمل دخل (سفارش) کا بھی ہاتھ رہا وغیرہ وغیرہ لیکن رواں ماہ جب اُن کی جگہ فیصلہ سازی کے منصب پر عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے فائز ہوں گے تو کیا اُس ’مشن‘ کو آگے بڑھایا جاسکے گا‘ جو پشاور کو تجاوزات اور سرگرم و سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے ’قبضہ مافیا‘ سے پاک کرنے سے متعلق ہے!؟
منڈا بیری روڈ‘ اندرون یکہ توت گیٹ (پشاور) سے تعلق رکھنے والے دو افراد پر مشتمل ایک ’نمائندہ وفد‘ نے گیارہ اگست کو میونسپلٹی نگران سے ملاقات کے دوران اُن کی توجہ تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے ’باقی ماندہ کام‘ کو مکمل کرنے کی جانب مبذول کرائی تو حسب توقع فوری کاروائی کا حکم صادر فرمایا گیا۔ اگرچہ ملاقات کے لئے بذریعہ دفتری ٹیلی فون ذاتی معاون (پرسنل اسسٹنٹ) سے باقاعدہ ’اپوئٹمنٹ‘ حاصل کی گئی تھی لیکن مذکورہ وفد کو ملاقات ’شامل شیڈول‘ نہ ہونے پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ایک تو اُن کا تعلق کسی سیاسی‘ سرمایہ دار‘ ٹھیکیدار یا قبضہ مافیا گروہ سے نہیں تھا کہ اُنہیں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا اور دوسرا صاحب بہادر نے انہیں پندرہ بیس منٹ کا وقت ویسے ہی عطیہ کیا تو یہ کسی بھی صورت معمولی بات نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ منڈا بیری روڈ کی جس کثیرالمنزلہ عمارت کے تہہ خانے کا راستہ سرکاری گلی سے نکالا گیا ہے‘ جس پر اہل علاقہ معترض ہیں تو کیا اِس مسئلے کا حل آئندہ ’تین روز‘ میں ’حسب تسلی و تشفی‘ ممکن ہو پائے گا۔ پشاور سے لاتعلقی درحقیقت اپنی ذات کے وجود سے انکار جیسا ہے۔
اہل فکرودانش سے لیکر عام آدمی تک‘ ہر ایک کو اپنی دنیا میں‘ اپنی مصروفیت عزیز ہے۔ پشاور کے بارے میں سوچنا‘ بولنا اور سرکاری اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے کی روایت باقی نہیں رہی جس کی وجہ سے ’بے حسی کا مرض‘ بڑھتے بڑھتے ’بے بسی کا سرطان‘ بن چکا ہے‘ جس کا علاج اب ’فکروعمل کی واجبی تبدیلی‘ سے ممکن نہیں رہا۔ مسائل اور وارداتوں کو دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنے اور چپ رہنے کی روش ختم ہونی چاہئے۔ اِزن عام ہے کہ تجاہل عارفانہ ترک کرکے شعوری طور پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا جائے۔ وقت آ گیا ہے جب ہم زیادہ پشاور کو ہماری ضرورت ہے!
امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور کا میونسپل نگران (ایڈمنسٹریٹر) بیک وقت کئی محاذوں پر ’جہاد‘ میں مصروف ایک ایسا گمنام سپاہی ہے‘ جس کی خدمات کا احاطہ چند ایک سطور میں ممکن نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ محکمانۂ ملازمتی قواعد کی رو سے اِس قدر بڑے عہدے پر فائز ہونے کے اہل تھے یا نہیں تھے اور کیا اُن کی تعیناتی میں سیاسی عمل دخل (سفارش) کا بھی ہاتھ رہا وغیرہ وغیرہ لیکن رواں ماہ جب اُن کی جگہ فیصلہ سازی کے منصب پر عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے فائز ہوں گے تو کیا اُس ’مشن‘ کو آگے بڑھایا جاسکے گا‘ جو پشاور کو تجاوزات اور سرگرم و سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے ’قبضہ مافیا‘ سے پاک کرنے سے متعلق ہے!؟
منڈا بیری روڈ‘ اندرون یکہ توت گیٹ (پشاور) سے تعلق رکھنے والے دو افراد پر مشتمل ایک ’نمائندہ وفد‘ نے گیارہ اگست کو میونسپلٹی نگران سے ملاقات کے دوران اُن کی توجہ تجاوزات کے خلاف جاری مہم کے ’باقی ماندہ کام‘ کو مکمل کرنے کی جانب مبذول کرائی تو حسب توقع فوری کاروائی کا حکم صادر فرمایا گیا۔ اگرچہ ملاقات کے لئے بذریعہ دفتری ٹیلی فون ذاتی معاون (پرسنل اسسٹنٹ) سے باقاعدہ ’اپوئٹمنٹ‘ حاصل کی گئی تھی لیکن مذکورہ وفد کو ملاقات ’شامل شیڈول‘ نہ ہونے پر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ایک تو اُن کا تعلق کسی سیاسی‘ سرمایہ دار‘ ٹھیکیدار یا قبضہ مافیا گروہ سے نہیں تھا کہ اُنہیں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا اور دوسرا صاحب بہادر نے انہیں پندرہ بیس منٹ کا وقت ویسے ہی عطیہ کیا تو یہ کسی بھی صورت معمولی بات نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ منڈا بیری روڈ کی جس کثیرالمنزلہ عمارت کے تہہ خانے کا راستہ سرکاری گلی سے نکالا گیا ہے‘ جس پر اہل علاقہ معترض ہیں تو کیا اِس مسئلے کا حل آئندہ ’تین روز‘ میں ’حسب تسلی و تشفی‘ ممکن ہو پائے گا۔ پشاور سے لاتعلقی درحقیقت اپنی ذات کے وجود سے انکار جیسا ہے۔
اہل فکرودانش سے لیکر عام آدمی تک‘ ہر ایک کو اپنی دنیا میں‘ اپنی مصروفیت عزیز ہے۔ پشاور کے بارے میں سوچنا‘ بولنا اور سرکاری اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے کی روایت باقی نہیں رہی جس کی وجہ سے ’بے حسی کا مرض‘ بڑھتے بڑھتے ’بے بسی کا سرطان‘ بن چکا ہے‘ جس کا علاج اب ’فکروعمل کی واجبی تبدیلی‘ سے ممکن نہیں رہا۔ مسائل اور وارداتوں کو دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنے اور چپ رہنے کی روش ختم ہونی چاہئے۔ اِزن عام ہے کہ تجاہل عارفانہ ترک کرکے شعوری طور پر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا جائے۔ وقت آ گیا ہے جب ہم زیادہ پشاور کو ہماری ضرورت ہے!
No comments:
Post a Comment