Thursday, August 13, 2015

Aug2015: The Entry Test

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
لامتناہی امتحانات!
بارہ اگست کو خیبرپختونخوا میں ہونے والے ’انٹری ٹیسٹ‘ کے نتائج کا اعلان حسب سابق بناء تاخیر اگلے ہی روز بذریعہ ویب سائٹ اور ’ایس ایم ایس‘ کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی۔ والدین کو دیئے گئے نمبروں پر ’ایس ایم ایس‘ کیا گیا کہ ET لکھنے کے بعد رول نمبر لکھیں اور ایس ایم ایس ایک خاص نمبر پر ارسال کریں جس کے بعد جواب میں خودکار طریقے سے نتیجہ بتا دیا گیا۔ اگر والدین کو مطلع ہی کرنا ہوتا ہے تو انہیں براہ راست نتیجہ کیوں نہیں بھیجا جاتا‘ چہ جائیکہ ان سے مزید پیسے وصول کئے جانا کہاں کا انصاف ہے؟ خیبرپختونخوا کے نجی و سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے ایک ’لازمی شرط‘ قرار دیئے جانے والے انٹری ٹیسٹ کے طریقۂ کار اور ضرورت کے بارے میں والدین اور طلباء و طالبات کے علاؤہ ماہرین تعلیم بھی تشویش و پریشانی کا شکار ہیں‘ جنہیں اِس بنیادی بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ کسی طالب علم یا طالبہ کی قابلیت کو محض تین گھنٹے میں جانچنے کا یہ غیرسائنسی معیار منطق سے زیادہ جلدبازی اور اُس خاص طبقے کو مستفید کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے جو اپنے بچوں کو نجی ٹیوشن سنٹروں میں ہزاروں روپے ماہانہ فیسوں کے عوض ’انٹری ٹیسٹ‘ کی تیاری کروانے کی مالی سکت رکھتے ہیں۔

 اگرچہ ’انٹری ٹیسٹ‘ میں حصہ لینے کے لئے ’مالی حیثیت یا قابلیت‘ کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی لیکن ’فرق صاف ظاہر ہے‘ کہ جو طلباء و طالبات ’ایف ایس سی‘ میں زیادہ نمبر و نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں‘ وہ محض تین گھنٹے کے امتحان کے بعد صدمے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر ’انٹری ٹیسٹ‘ کو پچاس فیصد‘ بورڈ کے امتحان کو چالیس فیصد اور میٹرک کے بورڈ امتحان میں حاصل کردہ نمبروں کو صرف 10فیصد اہمیت ہی دینی ہے تو پھر تعلیمی بورڈز کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دوسرا سوال انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی شفافیت ہے‘ جنہیں خفیہ رکھ کر کسی اُمیدوار کو صرف اُسی کے نتیجے تک رسائی دی جاتی ہے۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں اور بااثر لوگوں کے بچوں کو ’انٹری ٹیسٹ‘ کے مرحلے سے فائدہ دلانا مقصود نہیں تو ویب سائٹ پر میٹرک‘ انٹر اور انٹری ٹیسٹ کے جملہ نتائج کیوں شائع (نشر) نہیں کئے جاتے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ جو طلباء و طالبات میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل نہیں کرسکتے وہ بھلا کیسے انٹری ٹیسٹ میں پچاس اور ساٹھ فیصد سے زائد نمبر حاصل کر کے سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کے اہل ہو جاتے ہیں؟ یا تو انٹری ٹیسٹ کا درست ہے یا پھر تعلیمی بورڈز کے امتحانی نظام اصلاح چاہتے ہیں۔ چوتھا سوال انٹری ٹیسٹ کے بارے میں اُس عمومی تاثر کا ہے کہ (یادش بخیر) جب ایک وزیراعلیٰ صاحب کو اپنی بیٹی میڈیکل کالج میں داخل کرانا تھی اور اُس کے انٹرمیڈیٹ نمبر کم تھے‘ اندیشہ تھا کہ اگر کسی بھی طرح مذکورہ ’دختر نیک اختر‘کو داخلہ دیا گیا‘ تو داخلے سے محروم رہ جانے والی طالبات کے والدین عدالت سے رجوع کریں گے تو اُس سال ’انٹری ٹیسٹ‘ متعارف کرا دیا گیا اور یوں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حقیقت حال کیا ہے‘ اس بارے میں تفصیلی و تکنیکی وضاحت ضروری ہے۔

خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح بارہ اگست کی صبح‘ ایبٹ آباد میں بھی میڈیکل کالجز کے داخلے کے لئے ’انٹری ٹیسٹ‘ کا انعقاد ہوا‘ جو انتظامی خرابیوں کا مجموعہ تھا۔ ایوب میڈکل کالج کے احاطے میں جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ ایک زیرتعمیر عمارت تھی جہاں تعفن اور کیچڑ میں دھنسی نشستیں طالبات کے ہوش اُڑانے کے لئے کافی تھیں۔ ایوب میڈکل کالج ہی میں تدریس کرنے والی ایک پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کو اِس بات پر حیرت تھی کہ رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے وسیع و عریض ہسپتال و تدریسی میڈیکل کالج کے احاطے میں کیا صرف یہی جگہ رہ گئی تھی جو ’اِمتحانی سنٹر‘ کے لئے پسند کی گئی؟ قابل ذکر ہے کہ مبینہ طور پر جہاں سینکڑوں کی تعداد میں طالبات کو نشستیں فراہم کی گئیں وہاں ’رفع حاجت‘ کے لئے ٹائلٹ موجود نہیں تھے۔ ایک شامیانہ لگا کر طالبات کے لئے جو بندوبست کیا گیا‘ وہ بھی ناقابل استفادہ تھا کیونکہ شامیانے میں سوراخ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ یک سو ہو سکتیں۔ ایک ایسی بیدار مغز‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اُور تدریس جیسے مقدس منصب پر فائز والدہ کے الفاظ میں پائی جانے والی تشویش اُور دکھ بیان کرنے کا مقصود اُس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہے‘ جو 170کلومیٹر دور صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے فیصلہ سازوں اور صوبائی حکومت کے پیش نظر نہیں! استدعا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت وزیر برائے اعلیٰ تعلیم اِس بدنظمی اور ’انٹری ٹیسٹ‘ کے امتیازی طریقۂ کار کا نوٹس لیں اور اِس کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی اصولی فیصلہ صادر فرمائیں جس سے بالخصوص اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے والے طلباء و طالبات اور والدین کی تشویش مخاطب (ایڈریس) ہو سکے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کو انٹری ٹیسٹ سمیت بورڈ کے جملہ امتحانات و داخلہ فیسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ایسا کرنے سے اُن والدین کا بوجھ کم ہوگا جو امتحانات در امتحانات یعنی لامتناہی امتحانات کا مالی بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

 ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کی مختصر فون کال ایک ایسے سوال پر منقطع ہوئی جس جو انتظامی نہیں بلکہ مالی بدعنوانیوں سے متعلق اور زیادہ سنجیدگی و گہرائی رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا ’’صرف ایبٹ آباد کے مرکز سے 80 لاکھ روپے سے زائد کی رقم انٹری ٹیسٹ دینے والوں نے ادا کی‘ آخر اِس قدر بھاری رقم وصول کرنے والوں نے خاطرخواہ یا بنیادی سہولیات فراہم کیوں نہیں کیں؟ والدین جاننا چاہتے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے بنائے جانے والے اداروں کو ’منافع‘ کمانے کی راہ پر کیوں ڈال دیا گیا ہے؟ انٹری ٹیسٹ سے کمائی جانے والی رقم کا مصرف کیا ہوتا ہے؟‘‘ آخر یہ والدین کے اِمتحان کب ختم ہوں گے؟ آخر والدین کو سکھ کا سانس لینا کب نصیب ہوگا؟ جناب وزیراعلیٰ صاحب‘ انقلابی تبدیلی کا انتخابی وعدہ‘ وہ خواب اور اعلان عملی تعبیر کا متقاضی ہے۔

’’عجب تناسب سے ذہن و دل میں خیال تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ مگر محبت سی ہو گئی ہے‘ تمہیں محبت سکھا سکھا کے!‘‘
Why the evaluation of students through Entry Test is use as an alternate, concern parents need reforms & overview the system

No comments:

Post a Comment