ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَندھا دُھند جہالت!
اَندھا دُھند جہالت!
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک اجلاس کا
مشاہدہ وقت کا ضیاع ثابت نہیں ہوا۔ یخ بستہ ایوان میں اِن دنوں
’’الیکٹرانکس کرائمز بل 2015ء‘‘ کو حتمی شکل دینے کے لئے تجاویز پر غور کا
عمل جاری ہے اُور اجلاس کے دوران ایک موقع پر حکمراں نواز لیگ سے تعلق
رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال نے انکشاف کیا کہ ’’دہشت گرد
تنظیمیں اپنے نفرت انگیز خیالات (ایجنڈے) کو فروغ دینے کے لئے کم و بیش تین
ہزار ویب سائٹس چلارہی ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن
پلان‘ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وفاقی حکومت ایسی معاون قانون سازی کرے
گی‘ جس میں دیگر جرائم کی طرح ’الیکٹرانک جرائم‘ کرنے والوں پر بھی ہاتھ
ڈالا جا سکے لیکن رکاوٹ اراکین قومی اسمبلی کی سمجھ بوجھ تھی‘ جو
’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے اَمور سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے اور یہی
وجہ رہی کہ قانون سازی کے اس مرحلے میں سب سے مشکل کام قائمہ کمیٹی کے
اراکین کی اُس رائے کو تبدیل کرنا ہے جو ٹیکنالوجی سے متعلق وہ رکھتے ہیں۔
اس طرح کی قانون سازی متعلقہ محکمے پہلے ہی کرلیتے ہیں‘ جس میں ہمسایہ
ممالک کے قوانین سے نقل کی گئی شقیں الفاظ بدل کر شامل کر لی جاتی ہیں۔
کمیٹی ماہرین کو بھی طلب کرتی ہے اور پھر جب ماہرین بولتے ہیں تو اُن کا
منہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جاتا ہے کہ یہ کیا ارشاد فرما رہے ہیں! جب افغان
موبائل فون کنکشنوں کے پاکستان میں استعمال (رومنگ) پر پابندی عائد کرنے کا
معاملہ زیرغور تھا تب بھی ایسی ہی ایک ایوان بالا کی کمیٹی کے اجلاس میں
آخری وقت تک ’رومنگ‘ سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ وہ ایک
سیدھا سادا مسئلہ تھا اور محض چند کمپیوٹر کمانڈز کی مدد سے ایسے تمام
موبائل فون کنکشن بند کئے جا سکتے تھے جو پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی
(پی ٹی اے)کے ذریعے تصدیق نہیں رکھتے لیکن موبائل فون کمپنیوں کی لابنگ
زیادہ مؤثر ثابت ہوئی!
’الیکٹرانک کرائمز بل‘ پر غوروخوض کے مرحلے پر جب یہ بات سامنے آئی کہ گمنام دہشت گرد کم و بیش تین ہزار ویب سائٹس کا اِستعمال کر رہے ہیں تو شرکاء نے اِس بیان اور تعداد پر یقین کرتے ہوئے آنکھیں پھیلا کر حیرت کا اظہار کیا‘ حالانکہ یہ دعویٰ سائنسی طورپر مصدقہ نہیں۔ اگر ہم سماجی رابطہ کاری کے وسائل ہی کو دیکھیں تو ایسے چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں اکاونٹ (کھاتے) ملیں گے جو عسکریت پسندوں‘ انتہاء پسندوں‘ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے پیغامات کی تشہیر کر رہے ہیں۔ صحافیوں کو لاتعداد کالعدم تنظیموں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے بیانات بذریعہ ای میل وصول ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کی طرح عسکریت پسند بھی انٹرنیٹ کا پوری آزادی و حسب سہولت استعمال کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ موبائل فون کنکشنوں کی بجائے انٹرنیٹ ٹیلی فون (آئی پی) کالز کی جاتی ہیں۔ پیغامات کا تبادلہ بھی فیس بک‘ واٹس ایپ‘ وائبر‘ سکائپ اُور دیگر کئی ایسی ایپلیکیشنز (Apps) کے ذریعے ہوتا ہے‘ جو نسبتاً غیرمعروف ہیں۔ ایسے موبائل سافٹ وئر بھی دستیاب ہیں جن کی واجبی سی قیمت ہے اور اِن کے ذریعے کئی افراد رازداری سے تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں! افسوس کہ جس تیزی سے سماج دشمن عناصر نے ’انٹرنیٹ‘ رابطہ کاری سے فائدہ اُٹھایا‘ اتنی مستعدی کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے نہیں ہو سکا۔ موبائل فون کمپنیوں کو اپنے منافع سے غرض ہے اور وہ کسی بھی ایسی تحریک یا ضرورت کی اہمیت کو محسوس نہیں کر رہیں جس کا تعلق پاکستان کی سالمیت یا امن و امان کے حوالے سے درپیش خطرات سے ہو!
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے اراکین متعدد جرائم اور سزاؤں کا ایک‘ ایک کرکے جائزہ لے رہے ہیں‘ جن پر کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین‘ وکلأ‘ غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے متعدد اداروں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بات ’قومی سلامتی‘ کی ہو رہی ہوتی ہے تو ہمارے اراکین اسمبلی کی تقسیم ’حکومت اُور حزب اختلاف‘ کے طور پر کیوں ہوتی ہے؟ قانون سازی کے مرحلے قانون سازوں کی ترجیحات سازی اور بحث و مباحثہ میں سیاسی وابستگیوں کا رنگ کیوں غالب دکھائی دیتا ہے۔ ’’تعمیر وطن کے لئے سرجوڑ کر نکلو۔۔۔تخریب کے ہر پہلو سے منہ موڑ کے نکلو۔‘‘ الغرض جرائم چاہے الیکٹرانک ہوں یا روائتی‘ اِن کے بارے میں ’قانون سازوں کی رائے الگ الگ (منقسم) نہیں ہونی چاہئے‘ اُور یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کلیدی کردار اَدا کر سکتا ہے۔ اخبارات بلاناغہ ٹیکنالوجی کے خصوصی ضمیمے شائع کریں۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کو روزمرہ زندگی کے مسائل اور اُن کے حل سے متعلق غوروفکر اُور تحقیق پر مبنی مضامین تحریر کرنے کے لئے ’اُکسایا‘ جائے۔ مضمون
نویسی سمیت ٹیکنالوجی کے موضوعات اِدارتی پالیسی کا مستقل حصہ ہونے چاہیئں۔
نوجوان نسل جس ’اَندھا دھند انداز میں جہالت کی پیروکار‘ بنی ہوئی ہے‘ اس کی مذمت نہیں بلکہ رہنمائی کا انتظام ہونا چاہئے۔ ’فیس بک‘ کا مفید استعمال بھی تو ممکن ہے۔ اِس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اور نوجوانوں کو تعمیری قول و فعل کی تربیت بھی تو دی جا سکتی ہے۔ درس و تدریس کا عمل سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی تو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
قائمہ کمیٹی کے شرکاء کی جانب سے ’الیکٹرانکس کرائمز‘ کے مسودۂ قانون میں درج جرائم اور سزاؤں پر جاری تبادلۂ خیال میں نفرت انگیز تقاریر‘ شناخت کا غلط استعمال‘ غیر قانونی مداخلت اور دیگر امور شامل تھے۔ سب جانتے ہیں کسی بھی فرضی (جعلی) نام و شناخت سے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں اور سینکڑوں ’اِی میل کھاتے (اکاونٹ)‘ کھولنا کس قدر آسان و ممکن ہے۔ اسی طرح کسی فرد کے وقار کے خلاف جرائم‘ سائبر اسٹاکنگ‘ اسپامنگ‘ سپوفنگ‘ ڈیٹا ٹریفک میں رکاوٹ اور انفارمیشن سسٹم میں خفیہ اِداروں کی رسائی‘ کسی ایک یا زیادہ اِی میل اَکاؤنٹس کی نگرانی یا اُن تک رسائی ختم (بلاک) کرنا وغیرہ پر بھی تفصیلی بات چیت ہونی چاہئے۔اُمید ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس یعنی اٹھارہ اگست کو یہ مسودۂ قانون کسی حتمی شکل کی صورت سامنے آ جائے گا۔ طریقۂ کار کے مطابق جب کوئی مسودہ قانون ذیلی کمیٹی میں ترتیب پا جائے تو اُسے ’قومی اسمبلی‘ میں منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ (قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل) اِس مجوزہ قانون کو بذریعہ ویب سائٹ مشتہر کیا جائے تاکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنے اپنے نکتۂ نظر سے اِس کا جائزہ لے سکیں۔ الیکٹرانک جرائم سے متعلق نیا قانون اگر موجودہ شکل میں منظور ہو جاتا ہے تو اس سے انٹرنیٹ صارفین کے حقوق محدود جبکہ چند ریاستی اداروں کے اختیارات لامحدود ہو جائیں گے۔ یہ بل (موجودہ شکل میں) تفتیشی انتظامیہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے اور اس سے شہری حقوق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ دوران بحث ایک مرحلے پر یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اِس بل کو چالیس سے 13 صفحات تک محدود کیا گیا ہے اُور اِس سے ’اِنسانی حقوق‘ سے متعلق نکات نکال دیئے گئے ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین ہی کی نہیں بلکہ دیگر تمام ’ایم این ایز‘کی بھی ہے کہ وہ قانون سازی کے جملہ مراحل میں دلچسپی لیں۔ کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی سمیت بطور مبصر کوئی بھی شخص شریک ہو سکتا ہے اور اجازت ملنے پر اظہار خیال بھی کرسکتا ہے۔ خود کو متعلقہ یا غیرمتعلقہ سمجھنے والے جملہ اراکین قومی اسمبلی کو اپنی حیثیت سے جڑے فرائض کا ادراک کرنا ہوگا کہ بھلا ایسے کسی قانون کی اہمیت کس قدر ہوسکتی ہے‘ اُسے کتنا سراہا اور واجب الاحترام سمجھا جا سکتا ہے‘ جو انسانوں پر لاگو ہو‘ لیکن اس کی ساخت میں انسانی حقوق کو کم ترین ترجیح دی گئی ہو!؟
’الیکٹرانک کرائمز بل‘ پر غوروخوض کے مرحلے پر جب یہ بات سامنے آئی کہ گمنام دہشت گرد کم و بیش تین ہزار ویب سائٹس کا اِستعمال کر رہے ہیں تو شرکاء نے اِس بیان اور تعداد پر یقین کرتے ہوئے آنکھیں پھیلا کر حیرت کا اظہار کیا‘ حالانکہ یہ دعویٰ سائنسی طورپر مصدقہ نہیں۔ اگر ہم سماجی رابطہ کاری کے وسائل ہی کو دیکھیں تو ایسے چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں اکاونٹ (کھاتے) ملیں گے جو عسکریت پسندوں‘ انتہاء پسندوں‘ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے پیغامات کی تشہیر کر رہے ہیں۔ صحافیوں کو لاتعداد کالعدم تنظیموں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے بیانات بذریعہ ای میل وصول ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کی طرح عسکریت پسند بھی انٹرنیٹ کا پوری آزادی و حسب سہولت استعمال کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ موبائل فون کنکشنوں کی بجائے انٹرنیٹ ٹیلی فون (آئی پی) کالز کی جاتی ہیں۔ پیغامات کا تبادلہ بھی فیس بک‘ واٹس ایپ‘ وائبر‘ سکائپ اُور دیگر کئی ایسی ایپلیکیشنز (Apps) کے ذریعے ہوتا ہے‘ جو نسبتاً غیرمعروف ہیں۔ ایسے موبائل سافٹ وئر بھی دستیاب ہیں جن کی واجبی سی قیمت ہے اور اِن کے ذریعے کئی افراد رازداری سے تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں! افسوس کہ جس تیزی سے سماج دشمن عناصر نے ’انٹرنیٹ‘ رابطہ کاری سے فائدہ اُٹھایا‘ اتنی مستعدی کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے نہیں ہو سکا۔ موبائل فون کمپنیوں کو اپنے منافع سے غرض ہے اور وہ کسی بھی ایسی تحریک یا ضرورت کی اہمیت کو محسوس نہیں کر رہیں جس کا تعلق پاکستان کی سالمیت یا امن و امان کے حوالے سے درپیش خطرات سے ہو!
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے اراکین متعدد جرائم اور سزاؤں کا ایک‘ ایک کرکے جائزہ لے رہے ہیں‘ جن پر کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین‘ وکلأ‘ غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے متعدد اداروں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بات ’قومی سلامتی‘ کی ہو رہی ہوتی ہے تو ہمارے اراکین اسمبلی کی تقسیم ’حکومت اُور حزب اختلاف‘ کے طور پر کیوں ہوتی ہے؟ قانون سازی کے مرحلے قانون سازوں کی ترجیحات سازی اور بحث و مباحثہ میں سیاسی وابستگیوں کا رنگ کیوں غالب دکھائی دیتا ہے۔ ’’تعمیر وطن کے لئے سرجوڑ کر نکلو۔۔۔تخریب کے ہر پہلو سے منہ موڑ کے نکلو۔‘‘ الغرض جرائم چاہے الیکٹرانک ہوں یا روائتی‘ اِن کے بارے میں ’قانون سازوں کی رائے الگ الگ (منقسم) نہیں ہونی چاہئے‘ اُور یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کلیدی کردار اَدا کر سکتا ہے۔ اخبارات بلاناغہ ٹیکنالوجی کے خصوصی ضمیمے شائع کریں۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کو روزمرہ زندگی کے مسائل اور اُن کے حل سے متعلق غوروفکر اُور تحقیق پر مبنی مضامین تحریر کرنے کے لئے ’اُکسایا‘ جائے۔ مضمون
نویسی سمیت ٹیکنالوجی کے موضوعات اِدارتی پالیسی کا مستقل حصہ ہونے چاہیئں۔
نوجوان نسل جس ’اَندھا دھند انداز میں جہالت کی پیروکار‘ بنی ہوئی ہے‘ اس کی مذمت نہیں بلکہ رہنمائی کا انتظام ہونا چاہئے۔ ’فیس بک‘ کا مفید استعمال بھی تو ممکن ہے۔ اِس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اور نوجوانوں کو تعمیری قول و فعل کی تربیت بھی تو دی جا سکتی ہے۔ درس و تدریس کا عمل سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی تو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
قائمہ کمیٹی کے شرکاء کی جانب سے ’الیکٹرانکس کرائمز‘ کے مسودۂ قانون میں درج جرائم اور سزاؤں پر جاری تبادلۂ خیال میں نفرت انگیز تقاریر‘ شناخت کا غلط استعمال‘ غیر قانونی مداخلت اور دیگر امور شامل تھے۔ سب جانتے ہیں کسی بھی فرضی (جعلی) نام و شناخت سے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں اور سینکڑوں ’اِی میل کھاتے (اکاونٹ)‘ کھولنا کس قدر آسان و ممکن ہے۔ اسی طرح کسی فرد کے وقار کے خلاف جرائم‘ سائبر اسٹاکنگ‘ اسپامنگ‘ سپوفنگ‘ ڈیٹا ٹریفک میں رکاوٹ اور انفارمیشن سسٹم میں خفیہ اِداروں کی رسائی‘ کسی ایک یا زیادہ اِی میل اَکاؤنٹس کی نگرانی یا اُن تک رسائی ختم (بلاک) کرنا وغیرہ پر بھی تفصیلی بات چیت ہونی چاہئے۔اُمید ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس یعنی اٹھارہ اگست کو یہ مسودۂ قانون کسی حتمی شکل کی صورت سامنے آ جائے گا۔ طریقۂ کار کے مطابق جب کوئی مسودہ قانون ذیلی کمیٹی میں ترتیب پا جائے تو اُسے ’قومی اسمبلی‘ میں منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ (قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل) اِس مجوزہ قانون کو بذریعہ ویب سائٹ مشتہر کیا جائے تاکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنے اپنے نکتۂ نظر سے اِس کا جائزہ لے سکیں۔ الیکٹرانک جرائم سے متعلق نیا قانون اگر موجودہ شکل میں منظور ہو جاتا ہے تو اس سے انٹرنیٹ صارفین کے حقوق محدود جبکہ چند ریاستی اداروں کے اختیارات لامحدود ہو جائیں گے۔ یہ بل (موجودہ شکل میں) تفتیشی انتظامیہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے اور اس سے شہری حقوق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ دوران بحث ایک مرحلے پر یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اِس بل کو چالیس سے 13 صفحات تک محدود کیا گیا ہے اُور اِس سے ’اِنسانی حقوق‘ سے متعلق نکات نکال دیئے گئے ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین ہی کی نہیں بلکہ دیگر تمام ’ایم این ایز‘کی بھی ہے کہ وہ قانون سازی کے جملہ مراحل میں دلچسپی لیں۔ کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی سمیت بطور مبصر کوئی بھی شخص شریک ہو سکتا ہے اور اجازت ملنے پر اظہار خیال بھی کرسکتا ہے۔ خود کو متعلقہ یا غیرمتعلقہ سمجھنے والے جملہ اراکین قومی اسمبلی کو اپنی حیثیت سے جڑے فرائض کا ادراک کرنا ہوگا کہ بھلا ایسے کسی قانون کی اہمیت کس قدر ہوسکتی ہے‘ اُسے کتنا سراہا اور واجب الاحترام سمجھا جا سکتا ہے‘ جو انسانوں پر لاگو ہو‘ لیکن اس کی ساخت میں انسانی حقوق کو کم ترین ترجیح دی گئی ہو!؟
No comments:
Post a Comment