ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زحال مسکیں‘ مکن تغافل!
زحال مسکیں‘ مکن تغافل!
قدرتی آفات سے قومی سطح پر نمٹنے اُور بحالی و تعمیرنو کے لئے حکمت عملی
تیار کرنے والے وفاقی اِدارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی
(ndma.gov.pk)‘ کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں سیلابی صورتحال برقرار ہے
بلکہ دریاؤں میں طغیانی کے سبب تباہ کاریوں کا سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے جس
کے نتیجے میں تیرہ اور چودہ اگست (چوبیس گھنٹوں میں) پانچ افراد ہلاک ہوئے
جبکہ حالیہ چند ہفتوں میں مجموعی طور پر 207 افراد کی جان سیلاب کی نذر ہو
چکی ہے۔ اِن میں 49 بچے اُور 63 خواتین بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے بچوں
میں سے 33 کاتعلق صوبہ پنجاب اور 16کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔‘‘ ملک گیر
سطح پر 13لاکھ 78ہزار 82 افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور بارشوں کے نئے
سلسلے کی پیشنگوئی کرتے ہوئے محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان اور
سندھ میں مزید بارشوں کا سلسلہ چودہ اگست سے قبل ہی شروع ہو چکا ہے اور اسی
سلسلے کی مزید بارشیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی متوقع ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ
ابھی تک ’مون سون بارشوں‘ کا نصف دورانیہ ہی مکمل ہوا ہے اور عموماً یہ
سلسلہ ماہ ستمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ ملک کے سبھی مرکزی دریاؤں میں
سیلاب کی بلند ترین سطح پہلے ہی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے لیکن موسم کے
بدلتے ہوئے غضباک تیور اور تھپڑ سہنے کے باوجود ہمارے ہاں ایسی سیاسی
جماعتیں بھی ہیں‘ جو بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے خلاف ہیں اور اِس تکنیکی
مسئلہ کو ’سیاست کی نذر‘ کئے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی جواب دے گا کہ محض چار
ہفتوں میں جن 207 افراد کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں اُن کے قتل کا مقدمہ کس کے
خلاف درج کیا جائے؟ آخر اُن 49بچوں اور 63خواتین کا کیا قصور تھا‘ جنہیں
سیلابی پانی بہا لے گیا؟
سیلاب سے متاثرہ ’خیبرپختونخوا‘ کو کئی داخلی مسائل کا سامنا ہے‘ جن میں موسمیاتی تغیرات کو نظرانداز کرنے کے سبب پیش آنے والے حادثات سب سے نمایاں ہیں۔ اِنہی حالات کی وجہ سے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی ہو رہی ہے۔ نسلوں سے زراعت اور مال مویشیوں کی پرورش کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے والے اپنا آبائی پیشہ ترک کر رہے ہیں۔ جن علاقوں میں بارشوں اُور سیلاب سے آبپاشی کا نظام تباہ یا متاثر ہوا ہے‘ اُس کی بحالی کے لئے حکومت کی جانب سے نہ تو ماضی میں خاطرخواہ توجہ دی گئی اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کو اُس ’چھوٹے کاشتکار‘ کسان اور محنت کش‘ کی فکر ہے‘ جو کسی سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے صاحب جائیداد کا غلام ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے خون پسینے سے زراعت کرنے والوں کی زندگی تو غلاموں سے بدتر ہے۔ اُنہیں محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں ملتا۔ زرعی ضروریات پر اِس قدر محصولات (ٹیکس) لگا دیئے گئے ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری منافع بخش تو کیا‘ اب تو فصل پر اُٹھنے والے اصل اخراجات وصول ہونا بھی ممکن نہیں رہا! یادش بخیر گذشتہ دور حکومت میں ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب آیا تو اُس وقت کے وزیر خزانہ کا تعلق اِسی خطے سے تھا‘ جنہوں نے دل کھول کر ’بڑے جاگیرداروں‘ کے ساتھ اپنی دوستی و تعلق کو نبھایا۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ اجارے پر کام کرنے والے جن چھوٹے کاشتکاروں کی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں اُن سے جاگیرداروں نے فصل کی بجائے نقد رقم کا تقاضا کیا اور یہ رقم زبردستی وصول بھی کی گئی۔ ایک طرف جاگیرداروں نے اپنی زرعی زمینیں سیلاب سے خراب ہونے اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کے لئے کروڑوں روپے وصول کئے اور دوسری جانب انہوں نے نہ تو کھیتوں کی صفائی‘ حد بندی اور آبپاشی کا نظام درست کیا بلکہ اُلٹا کاشتکاروں کی کھال بھی اُتاری! اس قدر سنگدلی کی توقع تو اُن استحصال پسند ہندو سے کی جا سکتی تھی‘ جس سے آزادی حاصل کرنے کا پوری قوم اِن دنوں 69واں جشن منا رہی ہے!
آخر ہمیں کس بات نے گردوپیش اور برسرزمین حقائق سے لاتعلق کر رکھا ہے؟ کیا یہ بات کسی درجے تشویشناک بھی ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کے زیرکاشت رقبے میں ہرسال کمی آ رہی ہے۔‘‘ محکمۂ مال کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق زیرکاشت رقبے میں غیرمعمولی کمی کا رجحان 1985ء سے جاری ہے اُور اِس کی ابتدأ زرخیز زمینوں کو رہائشی مقاصدکے لئے استعمال کرنے کی دیکھا دیکھی پھیلنے والی وباء سے ہوئی۔ جب رہائشی کالونیاں ’خود رو جھاڑیوں‘ کی طرح پھیلنے لگیں تو نکاسی آب کے لئے آبپاشی کے نالے (واٹر چینلز) استعمال ہونا شروع ہوئے‘ جس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور جو باقی ماندہ زمین رہائشی کالونیوں سے بچ گئی تھی‘ وہاں بھی صحت مند کاشتکاری ممکن نہیں رہی۔
محکمۂ مال کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ہر سال 11.6 مربع کلومیٹر زرعی زمین دیگر مقاصد کے لئے استعمال میں لائی جا رہی ہے۔‘‘ ہمارے حکومتی اِدارے کمال کے ہیں۔ یہ اعدادوشمار تو مرتب کرتے ہیں لیکن اِن سے متعلقہ خطروں کا بیان نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’سالانہ گیارہ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ کاشت نہیں ہو رہا‘‘ تو اِس کا موازنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تناسب سے نہیں کیا جاتا۔ آخر یہ سوال بھی کیوں درپیش نہیں کہ ’’اگر خیبرپختونخوا میں گیارہ مربع کلومیٹر سالانہ کے تناسب سے اراضی کا زرعی استعمال ترک ہو رہا ہے تو آنے والے دنوں میں ’خوراک کی دستیابی و فراہمی (غذائی تحفظ)‘ کیسے ممکن ہو پائے گا؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں زرعی اراضی کا موجودہ کل رقبہ کتنا ہے؟
اِس سلسلے میں محکمۂ زراعت کے مرتب کردہ اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے جن کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں کل 18ہزار 709 اعشاریہ 55مربع کلومیٹر رقبہ زیرکاشت ہے جبکہ آئندہ پچیس سے تیس برس کے دوران ملک کے اِس ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کی آبادی 5 کروڑ نفوس سے تجاوز کر جائے گی!‘‘ اگر ہم پشاور ہی کی مثال لیں تو یہاں کی زرخیز زمینیں پانی کی کمی کے باعث تباہ ہو رہی ہیں۔ اگر حکمرانوں کو فرصت ملے اور وہ چمکنی یا اِس کے مضافاتی دیہی علاقوں کا دورہ کریں‘ وہاں کے کاشتکاروں کے مسائل سننے کے لئے کھلی کچہریاں لگائیں تو معلوم ہو گا کہ جن زرعی زمینوں کو کاشت کرنے کے لئے پانی ہی دستیاب نہیں تو اگر ایسی زمینوں کو رہائشی و دیگر غیرزرعی مقاصد کے لئے فروخت کردیا جائے تو کیا مضائقہ ہے!؟ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ جن کم و بیش 400 دیہی علاقوں میں ’زراعت بچاؤ اقدامات‘ کئے گئے ہیں وہ کافی تو کیا واجبی سے بھی کم ہیں۔ مثال کے طورپر ۔۔۔’’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سات ایکڑ پر انار اُور انگور کے باغات لگائے گئے ہیں اور سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری سے پشاور کے مضافاتی ترناب کے علاقے میں 6.5 ایکڑ اراضی زیرکاشت لائی گئی ہے!‘‘ کیا یہ کوششیں اور اس قدر محدود پیمانے پر ہونے والے اقدامات کافی قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ اگر محکمۂ زراعت اور اس کے ذیلی دیگر محکموں کے ہزاروں ملازمین کو ایک میدان میں جمع کرکے ایک عدد نہر اور ایک عدد گڑھا کھودنے پر لگا دیا جائے تو محض چند دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی سیلابی نہر اور سب سے بڑا تالاب بن جائے گا‘ جس کے کئی ایک مفید استعمال بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ القصہ مختصر کاشتکاروں‘ محنت کشوں‘ سیاسی‘ نسلی و لسانی استحصال‘ تعصب اور محرومیوں کا شکار غریب و محکوم طبقات نے سب سے زیادہ اُمیدیں ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے وابستہ کر رکھی ہیں‘ جن پر پورا اُترنے کے لئے ’بنی گالہ‘ کو نمائشی اقدامات و انتظامات کی بجائے انقلابی اصلاحات لانے کے لئے رہنما اصول وضع کرنا ہوں گے۔’’زحال مسکیں‘ مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں۔۔۔کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں‘ نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں۔ (اَمیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)‘‘
سیلاب سے متاثرہ ’خیبرپختونخوا‘ کو کئی داخلی مسائل کا سامنا ہے‘ جن میں موسمیاتی تغیرات کو نظرانداز کرنے کے سبب پیش آنے والے حادثات سب سے نمایاں ہیں۔ اِنہی حالات کی وجہ سے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی ہو رہی ہے۔ نسلوں سے زراعت اور مال مویشیوں کی پرورش کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے والے اپنا آبائی پیشہ ترک کر رہے ہیں۔ جن علاقوں میں بارشوں اُور سیلاب سے آبپاشی کا نظام تباہ یا متاثر ہوا ہے‘ اُس کی بحالی کے لئے حکومت کی جانب سے نہ تو ماضی میں خاطرخواہ توجہ دی گئی اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کو اُس ’چھوٹے کاشتکار‘ کسان اور محنت کش‘ کی فکر ہے‘ جو کسی سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے صاحب جائیداد کا غلام ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے خون پسینے سے زراعت کرنے والوں کی زندگی تو غلاموں سے بدتر ہے۔ اُنہیں محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں ملتا۔ زرعی ضروریات پر اِس قدر محصولات (ٹیکس) لگا دیئے گئے ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری منافع بخش تو کیا‘ اب تو فصل پر اُٹھنے والے اصل اخراجات وصول ہونا بھی ممکن نہیں رہا! یادش بخیر گذشتہ دور حکومت میں ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب آیا تو اُس وقت کے وزیر خزانہ کا تعلق اِسی خطے سے تھا‘ جنہوں نے دل کھول کر ’بڑے جاگیرداروں‘ کے ساتھ اپنی دوستی و تعلق کو نبھایا۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ اجارے پر کام کرنے والے جن چھوٹے کاشتکاروں کی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں اُن سے جاگیرداروں نے فصل کی بجائے نقد رقم کا تقاضا کیا اور یہ رقم زبردستی وصول بھی کی گئی۔ ایک طرف جاگیرداروں نے اپنی زرعی زمینیں سیلاب سے خراب ہونے اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کے لئے کروڑوں روپے وصول کئے اور دوسری جانب انہوں نے نہ تو کھیتوں کی صفائی‘ حد بندی اور آبپاشی کا نظام درست کیا بلکہ اُلٹا کاشتکاروں کی کھال بھی اُتاری! اس قدر سنگدلی کی توقع تو اُن استحصال پسند ہندو سے کی جا سکتی تھی‘ جس سے آزادی حاصل کرنے کا پوری قوم اِن دنوں 69واں جشن منا رہی ہے!
آخر ہمیں کس بات نے گردوپیش اور برسرزمین حقائق سے لاتعلق کر رکھا ہے؟ کیا یہ بات کسی درجے تشویشناک بھی ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کے زیرکاشت رقبے میں ہرسال کمی آ رہی ہے۔‘‘ محکمۂ مال کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق زیرکاشت رقبے میں غیرمعمولی کمی کا رجحان 1985ء سے جاری ہے اُور اِس کی ابتدأ زرخیز زمینوں کو رہائشی مقاصدکے لئے استعمال کرنے کی دیکھا دیکھی پھیلنے والی وباء سے ہوئی۔ جب رہائشی کالونیاں ’خود رو جھاڑیوں‘ کی طرح پھیلنے لگیں تو نکاسی آب کے لئے آبپاشی کے نالے (واٹر چینلز) استعمال ہونا شروع ہوئے‘ جس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور جو باقی ماندہ زمین رہائشی کالونیوں سے بچ گئی تھی‘ وہاں بھی صحت مند کاشتکاری ممکن نہیں رہی۔
محکمۂ مال کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ہر سال 11.6 مربع کلومیٹر زرعی زمین دیگر مقاصد کے لئے استعمال میں لائی جا رہی ہے۔‘‘ ہمارے حکومتی اِدارے کمال کے ہیں۔ یہ اعدادوشمار تو مرتب کرتے ہیں لیکن اِن سے متعلقہ خطروں کا بیان نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’سالانہ گیارہ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ کاشت نہیں ہو رہا‘‘ تو اِس کا موازنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تناسب سے نہیں کیا جاتا۔ آخر یہ سوال بھی کیوں درپیش نہیں کہ ’’اگر خیبرپختونخوا میں گیارہ مربع کلومیٹر سالانہ کے تناسب سے اراضی کا زرعی استعمال ترک ہو رہا ہے تو آنے والے دنوں میں ’خوراک کی دستیابی و فراہمی (غذائی تحفظ)‘ کیسے ممکن ہو پائے گا؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں زرعی اراضی کا موجودہ کل رقبہ کتنا ہے؟
اِس سلسلے میں محکمۂ زراعت کے مرتب کردہ اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے جن کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں کل 18ہزار 709 اعشاریہ 55مربع کلومیٹر رقبہ زیرکاشت ہے جبکہ آئندہ پچیس سے تیس برس کے دوران ملک کے اِس ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کی آبادی 5 کروڑ نفوس سے تجاوز کر جائے گی!‘‘ اگر ہم پشاور ہی کی مثال لیں تو یہاں کی زرخیز زمینیں پانی کی کمی کے باعث تباہ ہو رہی ہیں۔ اگر حکمرانوں کو فرصت ملے اور وہ چمکنی یا اِس کے مضافاتی دیہی علاقوں کا دورہ کریں‘ وہاں کے کاشتکاروں کے مسائل سننے کے لئے کھلی کچہریاں لگائیں تو معلوم ہو گا کہ جن زرعی زمینوں کو کاشت کرنے کے لئے پانی ہی دستیاب نہیں تو اگر ایسی زمینوں کو رہائشی و دیگر غیرزرعی مقاصد کے لئے فروخت کردیا جائے تو کیا مضائقہ ہے!؟ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ جن کم و بیش 400 دیہی علاقوں میں ’زراعت بچاؤ اقدامات‘ کئے گئے ہیں وہ کافی تو کیا واجبی سے بھی کم ہیں۔ مثال کے طورپر ۔۔۔’’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سات ایکڑ پر انار اُور انگور کے باغات لگائے گئے ہیں اور سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری سے پشاور کے مضافاتی ترناب کے علاقے میں 6.5 ایکڑ اراضی زیرکاشت لائی گئی ہے!‘‘ کیا یہ کوششیں اور اس قدر محدود پیمانے پر ہونے والے اقدامات کافی قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ اگر محکمۂ زراعت اور اس کے ذیلی دیگر محکموں کے ہزاروں ملازمین کو ایک میدان میں جمع کرکے ایک عدد نہر اور ایک عدد گڑھا کھودنے پر لگا دیا جائے تو محض چند دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی سیلابی نہر اور سب سے بڑا تالاب بن جائے گا‘ جس کے کئی ایک مفید استعمال بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ القصہ مختصر کاشتکاروں‘ محنت کشوں‘ سیاسی‘ نسلی و لسانی استحصال‘ تعصب اور محرومیوں کا شکار غریب و محکوم طبقات نے سب سے زیادہ اُمیدیں ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے وابستہ کر رکھی ہیں‘ جن پر پورا اُترنے کے لئے ’بنی گالہ‘ کو نمائشی اقدامات و انتظامات کی بجائے انقلابی اصلاحات لانے کے لئے رہنما اصول وضع کرنا ہوں گے۔’’زحال مسکیں‘ مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں۔۔۔کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں‘ نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں۔ (اَمیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)‘‘
No comments:
Post a Comment