Sunday, August 16, 2015

TRANSLATION: 10 children per day

10children per day
بچوں سے زیادتی: ایک معمول!
پنجاب پولیس کی کہانی: صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پنجاب پولیس جتنی افرادی قوت کسی قانون نافذ کرنے والی اس جیسے ادارے کے پاس نہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 80ہزار ہے اور اس قدر بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو پالنے کے لئے سالانہ 82 ارب روپے درکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم پنجاب پولیس کے لئے سالانہ مختص ہونے والی خطیر گرانٹ کا جائزہ لیں تو یہ فی نفر 4 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ پنجاب کے 2لاکھ 5 ہزار 344 مربع کلومیٹر پر پھیلے رقبے میں رہنے والے ہر شخص کے لئے 6 ہزار روپے مختص و خرچ کئے جاتے ہیں۔

پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا کی جملہ ذمہ داریوں میں یہ امور شامل ہیں کہ وہ جرائم کی روک تھام کریں گے۔ امن و امان کا قیام ممکن بنائیں گے۔ جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ آزادی ممکن بنائیں گے اور اِن سب امور کے لئے خطرہ بننے والوں سے نمٹیں گے۔

پنجاب پولیس کا بجٹ: سال 2014-15ء کے دوران پنجاب پولیس میں بچوں کی حفاطت اور انہیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے 87 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ مالی سال 2015-16ء کے لئے اسی مد میں 53 کروڑ روپے مختص ہوئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے 40فیصد کم ہے اور یہ ایک غیرمعمولی کمی ہے۔ اگرہم صوبہ پنجاب میں بچوں کی آبادی کے تناسب سے مختص کئے جانے والے مالی وسائل کو دیکھیں تو یہ فی بچہ 15روپے سالانہ کا خرچ بنتا ہے جو حکومت نے اپنے ذمے لیا ہے۔ عجب ہے کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران شجرکاری کے لئے پنجاب حکومت نے 58 ارب روپے مختص کئے جو بچوں کے تحفظ کے لئے مختص مالی وسائل سے زیادہ رقم ہے۔

حکومت پنجاب میں بچوں کے تحفظ و بہبود کے بیورو کی نگران (چیئرپرسن) رکن صوبائی اسمبلی صباء صادق کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برس کے دوران بچوں سے ہونے والی زیادتیوں کے واقعات 55 فیصد زیادہ رپورٹ ہونے لگے ہیں لیکن اگر یہ حقیقت خود پنجاب حکومت بھی تسلیم کرتی ہے تو پھر بچوں کے تحفظ کے لئے مختص مالی وسائل میں 40فیصد کمی کی منطق کیا بنتی ہے؟

تشویشناک اعدادوشمار: بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم ساحل نے چند اعدادوشمار مرتب کئے ہیں جن کے مطابق گذشتہ 5 برس میں کم و بیش 14 ہزار ایسے واقعات پیش آئے جن میں بچوں سے جنسی زیادتی ہوئی۔ اِن رپورٹ ہونے والے کیسیز میں 70 فیصد ایسے تھے جن میں زیادتی کا شکار لڑکیاں ہوئیں اور ایسی لڑکیاں کہ جن کی عمریں پانچ سے اٹھارہ برس کے درمیان تھیں۔ پانچ سال میں بچوں سے رونما ہونے والے زیادتی کے 65فیصد واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔

سال 2014ء کے دوارن 3 ہزار 508 بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن کی اگر اوسط نکالی جائے تو ہمارے ہاں ہر روز 10 بچے اوسطاً پورے سال جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

حکومت پنجاب کا مؤقف: حال ہی میں بچوں سے ہوئے جنسی زیادتی و تشدد کے واقعات منظرعام پر آنے سے پوری دنیا کی نظریں پنجاب حکومت پر ٹکی ہوئی ہیں جس کے لئے یہ گھڑی مشکل فیصلے کرنے کی ہے۔ اُمید تھی کہ پنجاب حکومت اس مشکل کی گھڑی میں دانشمندی کا ثبوت دے گی لیکن اُنہوں نے پہلے تو ایسے واقعات کے رونما ہونے کی حقیقت ہی سے انکار کیا اور پھر جب دباؤ بڑھا تو ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔
جنسی زیادتی کے خلاف پوری قوم یک زبان ہے اور چاہتی ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں اُن سے رعائت نہ برتی جائے۔ اس سلسلے میں بطور خاص خیبرپختونخوا اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کا ذکر ضروری ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے سے زیادہ خطرناک قصور میں بچوں سے ہونے والی جنسی زیادتی اور تشدد ہے۔

تجاویز: جب ہمارے سامنے یہ اعدادوشمار دستیاب ہیں کہ ہر روز کم و بیش 10بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہو رہی ہے اور یہ دس بچے وہ ہیں جن سے ہونے والی زیادتی کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیا جارہا ہے۔ اصل واقعات کی تعداد کئی زیادہ ہوں گے۔ تو اس نازک مرحلے پر ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تین کام کرنے چاہیئں۔ سب سے پہلے تو ایسے قوانین بنانے چاہیءں جن کی موجودگی میں بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی روح تک کانپ جائے اور کوئی ایسا کرنے کی جرأت ہی نہ سکے۔ دوسرے مرحلے میں قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد ممکن بنایا جائے اور زیادہ سے زیادہ مالی وسائل بچوں کے تحفظ کے لئے مختص کئے جائیں۔ تیسری ضرورت یہ ہے کہ بچوں کے حقوق‘ اُن کے بارے میں معاشرے کو حساس کرنے اور شعور اُجاگر کرنے کے لئے مہمات چلائی جائیں اور اس کے لئے مالی وسائل مختص کئے جائیں۔ ہم ایسا کرنے میں پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں‘ جس کے لئے معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً بچوں کی چیخ و پکار جاری ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

No comments:

Post a Comment