ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب‘ اُمیدیں اور حقائق!
خواب‘ اُمیدیں اور حقائق!
گنجان آباد پشاور شہر کو جس کسی نے بھی چھوڑا‘ اُسے زندگی کے کسی نہ کسی
موڑ پر پچھتاوا ضرور ہوا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کی جدید بستی ’حیات
آباد‘ جاکر آباد ہونے والوں کے ’خواب ریزہ ریزہ‘ اور ’اُمیدیں چکنا چور‘
دکھائی دیتی ہیں کیونکہ سڑکیں چاہے کتنی کی کشادہ‘ خوبصورت اور ہموار بنا
دی جائیں لیکن اگر مقامی افراد کو ’تحفظ کا احساس‘ نہیں ہوگا تو یہ سارے
انتظامات اپنی جگہ ناکافی ہوں گے۔ یوں تو حیات آباد کے رہنے والوں کے لئے
مسائل سے نمٹنا کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران جرائم کی
شرح میں غیرمعمولی اضافے نے یہاں کے رہنے والوں کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور
دیواریں بلند کرنے‘ خاردار تاریں‘ نگرانی کے لئے کیمروں کی تنصیب اور نجی
سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی کے باوجود بھی اُنہیں اطمینان حاصل نہیں ہورہا۔
سرشام حیات آباد میں چہل قدمی (واک) کرنے کی روایت بھی چند ایک گلیوں تک
محدود ہو کر رہ گئی ہے!
حیات آباد کی رہائشی بستی اور اہم سرکاری و نجی دفاتر کی وجہ سے یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ دو عدد پولیس تھانے قائم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ صنعتی بستی‘ رہائشی و تجارتی علاقے اور آمدورفت کے اِس راستے کو محفوظ بنایا جائے۔ ماضی میں یہی علاقہ اغوأ کاروں کی جنت بھی رہا ہے جب پشاور یا ملک کے دیگر حصوں سے اغوأ برائے تاوان کرنے والے اپنے اہداف کو یہاں کے ’سیف ہاؤسیز‘ میں کچھ دن کے لئے رکھتے اور بعدازاں انہیں متصل قبائلی علاقے (خیبرایجنسی) کے راستے افغانستان منتقل کردیا جاتا۔ یادش بخیر ستمبراور ماہ نومبر کے دوران اغوأ کی کئی ایک ایسی وارداتیں بھی یہیں رونما ہوئیں جو عالمی سطح پر نشر کی گئیں جیسا کہ افغان اور ایرانی سفارتی عملے کا اغوأ۔ اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اغوأ کی وارداتیں رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن دیہاڑے رونما ہوئیں اور ایک واردات تو ایسے مقام پر ہوئی جو پولیس تھانے سے چند گز کے فاصلے پر واقع تھا۔
حیات آباد کی بستی اغوأ کاروں کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پشاور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز حیات آباد و رنگ روڈ کے ملحقہ علاقوں سے کیا‘ اور یہی سبب ہے کہ آج کا پشاور نسبتاً محفوظ دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ’آپریشن کلین اپ‘ کے دوران ’کارخانو مارکیٹ‘ کے اُن سرمایہ داروں کے اڈوں کا بھی صفایا کیا جاتا جو تجارت کی آڑ میں سازوسامان کی غیرقانونی نقل و حمل‘ ہنڈی کا کاروبار اُور منظم جرائم پیشہ گروہوں سے مراسم رکھتے ہیں تو اس سے صرف حیات آباد ہی نہیں بلکہ باقی ماندہ پشاور کا بھی فائدہ ہوتا۔
حیات آباد میں قتل ہونے والوں کی ایک طویل فہرست میں جن میں ڈاکٹر سیّد عاصم حسین‘ قیصر حسین کے نام شامل ہیں جبکہ رواں برس فروری میں یہاں کی ایک جامع مسجد کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ مارچ کے مہینے میں کرنل طاہر خان کو فیز تین میں گھات لگا کر شہید کیا گیا جبکہ اپریل کے مہینے میں باغ ناران کی کیاریوں میں بم نصب کرنے والا ایک شخص اپنے ہی ہتھیار کا نشانہ بن گیا۔ مئی میں ایک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے کئی افراد ہلاک ہوئے۔ جون میں فرنٹیئر ریزرو پولیس کے ڈپٹی کمانڈنٹ ملک طارق کو ایک حملے میں شدید زخمی کیا گیا جبکہ اُن کے محافظ ہلاک ہوئے۔ القصہ مختصر رواں برس حیات آباد میں 5 خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ 14اگست کے روز پولیس کی ایک گشتی گاڑی جو کہ خیبرچوک کے قریب سے گزر رہی تھی اُس پر دو نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں یہ تین افراد بشمول دو پولیس اہلکاروں کے ہلاک ہوئے۔
پولیس کے انتظامی نگرانوں کا ماننا ہے کہ حیات آباد میں جرائم کے رونما ہونے کا بنیادی سبب اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ماضی میں چونکہ قبائلی علاقے جرائم پیشہ عناصر کی دسترس میں نہیں تھے اور اِن علاقوں میں زیادہ سے زیادہ منشیات فروشی یا افغانستان سے اسمگل شدہ سازوسامان رکھا جاتا تھا اس وجہ سے حیات آبادکی بستی قبائلی علاقے سے متصل کرکے تعمیر کی گئی‘ جو اُس وقت کے لحاظ سے درست لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ایک غلط فیصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے حیات آباد داخلے کے راستوں کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں تعمیر ہونے والی دیوار اور اضافی نگرانی کی چوکیاں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور ہمیں دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کی توجہ سیکورٹی میں پائے جانے والے نقائص کی جانب مبذول کرائی ہے تاکہ حیات آباد میں داخلے کے راستوں کو کم سے کم رکھا جا سکے اور غیرروائتی راستے پر نگرانی کے لئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں لیکن اس سلسلے میں درکار مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔ پولیس حکام اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ حیات آباد میں جرائم زیادہ نہیں بلکہ ماضی کی نسبت کم ہوئے ہیں!
لمحۂ فکریہ ہے کہ حیات آباد میں فرنیٹئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے صدر دفاتر قائم ہیں‘ جن پر کئی ایک مرتبہ راکٹوں سے حملہ ہو چکا ہے اور اِن حملوں میں جانی نقصانات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ حیات آباد کے رہائشیوں کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے لئے پولیس کی کارکردگی پر اطمینان نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر وہ مارکیٹ میں گاڑی کھڑی کرتے ہیں تو اُنہیں یقین نہیں ہوتا کہ انہیں اس میں بخیروعافیت بیٹھنا نصیب ہوگا بھی یا نہیں۔ الغرض حیات آباد میں زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات کا شکار ہو رہی ہے اور اگر صوبائی حکومت امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے صرف حیات آباد ہی کو محفوظ نہیں بنا سکتی تو اس سے پورے پشاور اور باقی ماندہ خیبرپختونخوا میں امن و امان بہتر بنانے کے لئے اُمیدیں اور توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیءں۔ ہندکو زبان کا یہ محاورہ کسی دانا کے قول پر مبنی ہے کہ آپ کو اپنے دوست اُور دشمن کی شناخت صرف اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُس کے ساتھ واسطہ پڑے یا پھر وہ آپ کے ساتھ شریک سفر ہو۔
حیات آباد کی رہائشی بستی اور اہم سرکاری و نجی دفاتر کی وجہ سے یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ دو عدد پولیس تھانے قائم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ صنعتی بستی‘ رہائشی و تجارتی علاقے اور آمدورفت کے اِس راستے کو محفوظ بنایا جائے۔ ماضی میں یہی علاقہ اغوأ کاروں کی جنت بھی رہا ہے جب پشاور یا ملک کے دیگر حصوں سے اغوأ برائے تاوان کرنے والے اپنے اہداف کو یہاں کے ’سیف ہاؤسیز‘ میں کچھ دن کے لئے رکھتے اور بعدازاں انہیں متصل قبائلی علاقے (خیبرایجنسی) کے راستے افغانستان منتقل کردیا جاتا۔ یادش بخیر ستمبراور ماہ نومبر کے دوران اغوأ کی کئی ایک ایسی وارداتیں بھی یہیں رونما ہوئیں جو عالمی سطح پر نشر کی گئیں جیسا کہ افغان اور ایرانی سفارتی عملے کا اغوأ۔ اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اغوأ کی وارداتیں رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن دیہاڑے رونما ہوئیں اور ایک واردات تو ایسے مقام پر ہوئی جو پولیس تھانے سے چند گز کے فاصلے پر واقع تھا۔
حیات آباد کی بستی اغوأ کاروں کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پشاور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز حیات آباد و رنگ روڈ کے ملحقہ علاقوں سے کیا‘ اور یہی سبب ہے کہ آج کا پشاور نسبتاً محفوظ دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ’آپریشن کلین اپ‘ کے دوران ’کارخانو مارکیٹ‘ کے اُن سرمایہ داروں کے اڈوں کا بھی صفایا کیا جاتا جو تجارت کی آڑ میں سازوسامان کی غیرقانونی نقل و حمل‘ ہنڈی کا کاروبار اُور منظم جرائم پیشہ گروہوں سے مراسم رکھتے ہیں تو اس سے صرف حیات آباد ہی نہیں بلکہ باقی ماندہ پشاور کا بھی فائدہ ہوتا۔
حیات آباد میں قتل ہونے والوں کی ایک طویل فہرست میں جن میں ڈاکٹر سیّد عاصم حسین‘ قیصر حسین کے نام شامل ہیں جبکہ رواں برس فروری میں یہاں کی ایک جامع مسجد کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ مارچ کے مہینے میں کرنل طاہر خان کو فیز تین میں گھات لگا کر شہید کیا گیا جبکہ اپریل کے مہینے میں باغ ناران کی کیاریوں میں بم نصب کرنے والا ایک شخص اپنے ہی ہتھیار کا نشانہ بن گیا۔ مئی میں ایک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے کئی افراد ہلاک ہوئے۔ جون میں فرنٹیئر ریزرو پولیس کے ڈپٹی کمانڈنٹ ملک طارق کو ایک حملے میں شدید زخمی کیا گیا جبکہ اُن کے محافظ ہلاک ہوئے۔ القصہ مختصر رواں برس حیات آباد میں 5 خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ 14اگست کے روز پولیس کی ایک گشتی گاڑی جو کہ خیبرچوک کے قریب سے گزر رہی تھی اُس پر دو نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں یہ تین افراد بشمول دو پولیس اہلکاروں کے ہلاک ہوئے۔
پولیس کے انتظامی نگرانوں کا ماننا ہے کہ حیات آباد میں جرائم کے رونما ہونے کا بنیادی سبب اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ماضی میں چونکہ قبائلی علاقے جرائم پیشہ عناصر کی دسترس میں نہیں تھے اور اِن علاقوں میں زیادہ سے زیادہ منشیات فروشی یا افغانستان سے اسمگل شدہ سازوسامان رکھا جاتا تھا اس وجہ سے حیات آبادکی بستی قبائلی علاقے سے متصل کرکے تعمیر کی گئی‘ جو اُس وقت کے لحاظ سے درست لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ایک غلط فیصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے حیات آباد داخلے کے راستوں کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں تعمیر ہونے والی دیوار اور اضافی نگرانی کی چوکیاں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور ہمیں دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کی توجہ سیکورٹی میں پائے جانے والے نقائص کی جانب مبذول کرائی ہے تاکہ حیات آباد میں داخلے کے راستوں کو کم سے کم رکھا جا سکے اور غیرروائتی راستے پر نگرانی کے لئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں لیکن اس سلسلے میں درکار مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔ پولیس حکام اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ حیات آباد میں جرائم زیادہ نہیں بلکہ ماضی کی نسبت کم ہوئے ہیں!
لمحۂ فکریہ ہے کہ حیات آباد میں فرنیٹئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے صدر دفاتر قائم ہیں‘ جن پر کئی ایک مرتبہ راکٹوں سے حملہ ہو چکا ہے اور اِن حملوں میں جانی نقصانات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ حیات آباد کے رہائشیوں کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے لئے پولیس کی کارکردگی پر اطمینان نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر وہ مارکیٹ میں گاڑی کھڑی کرتے ہیں تو اُنہیں یقین نہیں ہوتا کہ انہیں اس میں بخیروعافیت بیٹھنا نصیب ہوگا بھی یا نہیں۔ الغرض حیات آباد میں زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات کا شکار ہو رہی ہے اور اگر صوبائی حکومت امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے صرف حیات آباد ہی کو محفوظ نہیں بنا سکتی تو اس سے پورے پشاور اور باقی ماندہ خیبرپختونخوا میں امن و امان بہتر بنانے کے لئے اُمیدیں اور توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیءں۔ ہندکو زبان کا یہ محاورہ کسی دانا کے قول پر مبنی ہے کہ آپ کو اپنے دوست اُور دشمن کی شناخت صرف اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُس کے ساتھ واسطہ پڑے یا پھر وہ آپ کے ساتھ شریک سفر ہو۔
No comments:
Post a Comment