Monday, August 17, 2015

Aug2015: No more room for mistakes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غلطی کی گنجائش
ضمنی انتخابات میں ’سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور‘ نہیں بلکہ اُن کرداروں کو ووٹ ملتے ہیں جن کے پاس مقامی مسائل کی بابت نیک خواہشات‘ خیالات و الفاظ پر مبنی وعدے نہیں بلکہ کارکردگی کی عملی مثالیں اور وسائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ سولہ اگست کے روز آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 19‘ ہری پور میں وفاق اور خیبرپختونخوا کی حکومتی جماعتوں کے درمیان ’انتخابی مقابلہ‘ قطعی یک طرفہ ثابت ہوا۔ سترہ اگست کے روز پانچسوتیرہ پولنگ اسٹیشنوں کے غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج کے مطابق ’وفاقی حکومت‘ جیت گئی‘ جس نے ضمنی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد کئی ایک تعمیراتی کام شروع کروائے جس میں حویلیاں کو موٹروے سے منسلک کرنے والی شاہراہ کو چار سے چھ رویہ کرنے کا اِعلان بھی شامل ہے‘ یہ وہ چند عملی اِقدامات تھے‘جن پر جاری عمل درآمد کا مشاہدہ ’ہری پور‘ کے رہنے والے ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اُور سڑکوں کی تعمیر و دیگر ترقیاتی کاموں کی اہمیت سے بھی واقف تھے کہ یہ اُن کے علاقے کی ترقی کے لئے کتنی ضروری اُور کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا حکومت کی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار کی شکست کا سبب بھی یہی محرک بنا کہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد حکومت ملنے کے بعد ترقیاتی عمل میں تیزی کی بجائے سستی دیکھنے میں آئی‘ جس سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ہری پور بھی بُری طرح متاثر ہوا۔

لب لباب یہ ہے کہ بالائی خیبرپختونخوا پر مشتمل ’ہزارہ ڈویژن‘ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس کرنے میں بڑی کوتاہی کی گئی۔ یہ گیٹ وے خطہ حسن ابدال‘ ہری پور‘ حویلیاں‘ ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان کے راستے ہمسایہ ملک عوامی جمہوریہ چین سے جا ملتا ہے‘ اُور اِسی راستے ’اقتصادی راہداری‘ کے قیام کے لئے چین کی جانب سے مالی و تکنیکی امداد دینے کا اعلان بھی ہو چکا ہے لیکن ’حسن ابدال‘ سے ’ایبٹ آباد‘ کے درمیان سڑک کے دونوں کنارے تعمیرات اور راہداری کے علاؤہ مقامی ٹریفک کا دباؤ اِس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کے لئے انتہائی ناخوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ بالخصوص موسم گرما میں ہر ہفتہ وار تعطیل (جمعہ سے اتوار) کے موقع پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور اعصاب شکن ٹریفک جام ایک ایسا معمول بن چکا ہے‘ جس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اُمید ہے کہ رواں برس کے اختتام (آئندہ چار یا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ) کے دوران حویلیاں اُور موٹروے کے راستے براہ راست آمدورفت رواں ہوگی‘ جس کے بعد حسن ابدال و ہری پور کی شاہراؤں پر ٹریفک کے رش میں غیرمعمولی کمی آئے گی۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے جس کی مقبولیت کو تحریک انصاف نے چیلنج کیا اُور اگر خیبرپختونخوا سیاحتی ترقی کے امکانات و قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہزارہ ڈویژن کی اہمیت کا ادراک اب بھی کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ دو ہزار تیرہ میں بننے والا ’’ووٹ بینک‘‘ نہ صرف محفوظ و برقرار رہے بلکہ اِس میں اضافہ بھی ہو۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ توجہ ضلع ایبٹ آباد کے بالائی حصوں پر مشتمل وہ 8 یونین کونسلیں ہیں‘ جنہیں ’سرکل بکوٹ‘ کہا جاتا ہے اُور ممکنہ عالمی اِعزاز کی حامل یہاں ایک ایسی سڑک بھی ہے جس پر کام کا آغاز کم وبیش 30برس قبل ہوا تھا اور آج بھی اِس سڑک کا باقی ماندہ 19کلومیٹر سڑک کا حصہ مکمل نہیں کیا جاسکا۔

خیبرپختونخوا حکومت نے سرکل بکوٹ کی 8 یونین کونسلوں کو آپس میں ملانے کے لئے ’بوئی سوار گلی روڈ‘ کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کے لئے 2 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ کے تحت مذکورہ شاہراہ کے علاؤہ سرکل بکوٹ و گلیات میں دیگر چھوٹے بڑے تعمیراتی کام مکمل کئے جا رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 45‘ پر ضمنی انتخابات کے موقع پر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کی جانب سے سرکل بکوٹ کے رہنے والوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اُن کے علاقے کو ’تحصیل‘ کا درجہ دیا جائے گا‘ جس کے بعد اُنہیں بہت سے چھوٹے دفتری کاموں کے لئے ضلعی صدر مقام ایبٹ آباد نہیں جانا پڑے گا لیکن بعدازاں معلوم ہوا کہ اِس وعدے کی تکمیل سرکل بکوٹ کی یونین کونسلوں کو آپس میں بذریعہ شاہراہ منسلک کئے بناء ممکن نہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یکم اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما‘ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز (اخباری بیان) میں کہا گیا کہ ’’بوئی سوار گلی کا کم و بیش 19کلومیٹر روڈ کا باقی ماندہ حصہ تعمیر کرنے کے لئے صوبائی حکومت خصوصی ترجیح رکھتی ہے اور اس سلسلے میں سوار گلی سے کوہالہ تک کی شاہراہ تقریباً مکمل کر لی گئی ہے جبکہ کوہالہ (بکوٹ) سے بوئی تک 11 کلومیٹر کا باقی ماندہ کام آئندہ مالی سال کے دوران شروع کیا جائے گا۔ منصوبے میں کل 5 پل بھی تعمیرکئے جائیں گے اور اس منصوبے پر مجموعی طور پر ’’ایک ارب روپے‘‘ لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس کے لئے مالی وسائل آئندہ مالی سال (2016-17ء) میں مختص کرنے کی تجویز ہے۔‘‘

ترقیاتی کاموں سے متعلق اِنتخابی وعدوں کا ایفاء ہو یا اِہل علاقہ کے دیرینہ مطالبات کی روشنی میں تعمیراتی ترجیحات‘ کا تعین‘ ہر لفظ تول تول کر بولنا اُور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ صوبائی سطح پر بہتر طرز حکمرانی کی عملی مثالیں قائم کرنے کے لئے حکمراں جماعت سے وابستہ ہر فیصلہ ساز اُور ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو سمجھنا ہو گا کہ اُنہیں جو کچھ بھی کرنا ہے‘ اِس میں مزید تاخیر و کوتاہی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
Why no room left for mistake for PTI as the NA19 Haripur ByElection result disappoint many not the leadership

No comments:

Post a Comment