Tuesday, August 18, 2015

Aug2015: Political Revenge

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتقام!
وہ دن گئے جب ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بانٹ دی جاتی تھیں۔ قومی و صوبائی سیاست پر اجارے داری کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور یہ بات سولہ اگست کے روز حلقہ این اے اُنیس‘ ہری پور کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب کے موقع پر پھر سے ثابت ہوئی ہے کہ ’عام آدمی بطور ووٹر‘ خاموش تو ہے لیکن وہ اپنے ووٹ سے انتقام لینے کے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا! ہری پور کے ضمنی انتخاب میں جو کچھ بھی ہوا‘ وہ نہ تو جنون تھا اور نہ ہی انقلاب جیسا اندھا دھند کوئی نظریہ‘ رائے دہندگان (ووٹرز) کی اکثریت نے اپنے علاقے کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک ایسی تاریخ جو کسی کے حق میں نہیں۔ اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے بابر نواز خان کو ملک کے سب سے کم عمر ’رکن قومی اسمبلی‘ ہونے کا اِعزاز ملا ہے لیکن اُن کا چناؤ ایک متبادل قیادت (آپشن) کے طور پر ہوا ہے اور یہی بات سمجھنے لائق ہے کہ جہاں کہیں عام آدمی (ہم عوام) کو متبادل کے طور پر ووٹ دینے کا موقع میسر آتا ہے‘ وہاں فیصلہ سیاسی تجزیہ کاروں سے مختلف ہوتا ہے۔

سولہ اگست کی ابرآلود الصبح ہری پور میں دن کا آغاز سست روی سے ہوا۔ ہفتہ وار عام تعطیل کی وجہ سے گلیاں اور بازار سنسان تھے لیکن پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی پولنگ اسٹیشنوں کے آس پاس گہماگہمی شروع ہوئی اور جب فیصلہ آیا تو متوسط قد‘ مضبوط جسم اور بھاری بھرکم چپلی پہننے والے نوجوان نے ’فتح‘ کے ساتھ پورے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اِعزاز اَپنے نام کر لیا تھا۔ ہری پور کی سیاست خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے اُور یہاں کی دوستیوں سے زیادہ دشمنیاں مشہور ہیں۔ بابر نواز خان کے مدمقابل اُن کے اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کو حفظ ماتقدم کے طور پر گھر میں نظربند کر دیا گیا لیکن بعدازاں الیکٹرانک میڈیا کی مداخلت پر بکتر بند گاڑی فراہم کی گئی جس میں بیٹھ کر اُنہوں نے کھلابٹ ٹاؤن شپ میں اپنی رہائش گاہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر جاکر ووٹ کاسٹ کیا۔ ہری پور پر راجہ (راجگان) اُور ترین خاندانوں کا اثر واضح دیکھا جاسکتا ہے اور ملک کی سبھی بڑی جماعتیں ہری پور سے انتخاب کرتے ہوئے انہی 2 خاندانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتی ہیں۔ چونکہ سیاست پیسے کا کھیل ہے اُور عام آدمی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ محض مخلص اور سیاست کو خدمت و عبادت سمجھ کر انتخابات میں حصہ لے‘ اِس لئے سیاسی خوش قسمتی ہمیشہ اُنہیں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے‘ جن کی سیاسی وابستگیوں سے زیادہ مالی حیثیت مضبوط ہو۔ ہری پور کی سیاست میں بھی مالی وسائل کی طاقت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج کے مطابق بابر نواز نے ایک لاکھ سینتیس ہزار دو سو اُنیس ووٹ حاصل کئے اور اُن کے مقابلے میں ڈاکٹر راجہ عامر زمان نے 90ہزار 698 ووٹ لئے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار طاہر قریشی نے 1 ہزار 396 ووٹ لئے۔ 41.2فیصد کے تناسب سے ہوئی ووٹنگ میں سب سے زیادہ مایوسی تحریک انصاف کو ہوئی‘ جنہیں اُمید تھی کہ بھابھی (چیئرمین عمران خان کی اہلیہ ریحام خان) کا دورہ طلسماتی ثابت ہوگا لیکن 28سالہ بابر نواز کی حمایت کرنے والے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی وضع کردہ ترقیاتی حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔ حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف سے زیادہ نواز لیگ نے این اے اُنیس کے ضمنی انتخاب کو زیادہ سنجیدگی سے لیا۔

ہری پور کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا تناسب معلوم کرتے ہوئے جب نصف دن کے قریب تحریک انصاف کے ایک رہنما کی رہائشگاہ پہنچے تو جدید طرز کے حجرے میں چارپائیوں کو چند افراد کے درمیان رہنما تشریف فرما تھے اور جب اُن سے پوچھا گیا کہ صورتحال کیا تو کہنے لگے میں تو ابھی اپنا ووٹ ڈالنے بھی نہیں گیا۔ آپ بتائیں باہر کیا ہو رہا ہے! اگر ہری پور کے ووٹروں کے ترقیاتی کاموں کو ووٹ دیا ہے تو ساتھ ہی اُنہوں نے دو ایسے خاندانوں سے بھی بدلہ لیا ہے‘ جو یکے بعد دیگرے یہاں سے منتخب ہوتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ ’این اے 19‘ پر شکست کے حوالے سے ایک محرکات و اسباب کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔ پارٹی کے جن عہدیداروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور جنہوں نے دوغلی پالیسی اختیار کی‘ اُن موقع پرستوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا یہی بہترین موقع ہے۔ ضلع ہری پور کو مثال بنا کر ملک کے دیگر اضلاع میں مغرور افراد کو پیغام دیا جاسکتا ہے کہ اگر اُن کی ذاتی ترجیحات ہیں تو پارٹی ڈسپلن کے تحت اُنہیں پس پشت ڈالنا ہوگا۔ ہری پور میں سب سے زیادہ مایوسی تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہوئی ہے‘ جو خود کو ’یتیم‘ سمجھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو اب تو سمجھ ہی لینا چاہئے کہ اُن کے لئے زیادہ اہم انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے نہیں بلکہ ووٹ ڈالنے والے ہوتے ہیں۔
Clipping from Daily Aaj of Aug 20, 2015. Both PTI and PMLN are not happy with their workers attitude during NA19 ByElections held on Aug16
 مشتری ہوشیار باش صوبائی سطح پر تحریک انصاف کی تنظیم نو کے مرحلے پر فیصلہ سازی کسی ایسے کردار کو نہیں سونپی جانی چاہئے جس نے ہری پور میں منفی یا خاطرخواہ کردار ادا نہ کیا ہو۔ غلطی پر غلطی اور توقع پر توقع سے نہیں بلکہ ہزارہ میں تحریک انصاف کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اراکین صوبائی اسمبلیوں کو تاکید کرنا ہوگی کہ وہ اپنے ہی ہم جماعتی قومی اسمبلی کے اراکین کو اعتماد میں لیں اور بنی گالہ حکم دے کہ ہر ضلع کی سطح پر کم ازکم مہینہ وار اجلاس ہونے چاہیءں جس میں تحریک سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے اور کارکنوں کو آپس میں بات کرنے کی سہولت میسر آئے۔ مسئلہ اُس اجنبیت‘ بے حسی اور لاتعلقی کو ختم کرنے کا ہے‘ جو تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی کی صورت پھیل چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس عالم میں تحریک کسی دوسرے مقام پر ووٹروں کے انتقام کا نشانہ بن جائے!
Political revenge by the voters of NA19, Haripur. The ByElection result shocked many but thinking only few

No comments:

Post a Comment