Wednesday, August 19, 2015

Aug2015: Baren Gali

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بیرن گلی
ایبٹ آباد شہر سے کم وبیش تیس کلومیٹر کے فاصلے پر یونین کونسل ’بیرن گلی‘ بالائی و زیریں حصوں پر مشتمل ہے‘ جہاں تک رسائی سڑک کے چند کلومیٹر حصہ نہ ہونے کی وجہ سے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اِس راستے پر آمدورفت اور مال برداری کے لئے ہچکولے کھاتی جیپیں اور منی ٹرک استعمال ہوتے ہیں‘ جن کا کرایہ ادا کرنے کی سکت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اٹھارہ سے بیس ہزار آبادی پر مشتمل ’بیرن گلی‘ کے کئی مسائل ہیں لیکن سب سے بنیادی یہاں کے سرکاری تعلیمی اِدارے ہیں‘ جن تک رسائی کے لئے ناہموار‘ پہاڑی راستے‘ ٹیلے اور گھاٹیاں عبور کرنے والے بچے بچیوں (طالبعلموں) کے لئے موسمی شدت سے مقابلہ ممکن نہیں ہوتا۔ بالخصوص پرائمری سطح کے زیرتعلیم بچے بچیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کی تعداد کے تناسب سے نہ صرف تعلیمی مواقعوں کی کمی ہے بلکہ بیرن گلی کے بالائی علاقے ’بنج‘ میں ایک پرائمری سکول ایسا بھی ہے جس کی عمارت علاقے کے دیگر کئی سکولوں اور ہسپتال کی طرح سال 2005ء میں آئے زلزلے سے متاثر ہوئی لیکن تاحال تعمیر نہیں کی جا سکی ہے۔
اہل علاقہ کہتے ہیں کہ زلزلے کی وجہ سے گورنمنٹ پرائمری سکول ’بنج‘ کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا‘ جسے معمولی مرمت سے محفوظ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا تھا لیکن سال 2007ء میں اِس سکول کی عمارت اچانک مکمل منہدم کر دی گئی۔ سکول کے دروازے کھڑکیاں‘ آہنی چادریں الغرض تمام قیمتی اور استعمال کے قابل سازوسامان نامعلوم وجوہات کی بناء پر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا اور کم و بیش ڈیڑھ کنال اراضی پر سکول کی جگہ گڑھے کھود کر ایک نئی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ اہل علاقہ مطمئن تھے کہ چلو پرانی عمارت کی جگہ نئی وسیع و عریض اُور باسہولت عمارت تعمیر ہو جائے گی جس میں زیادہ بچوں کو تعلیم دلانے کی گنجائش ہوگی لیکن یہ تمام اُمیدیں‘ توقعات اُور وعدے پورے نہ ہوسکے۔ عرصہ آٹھ برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن ’گورنمنٹ پرائمری سکول‘ بنج بیرن گلی‘ کی تعمیر کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔ جہاں کبھی سکول ہوا کرتا تھا اب وہاں کی زمین میں لوہے کی سلاخیں کھڑی ہیں‘ یہاں وہاں ملبہ پڑا ہے اور بنیاد کے لئے کھودے گئے گڑھے پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔ سکول کی چاردیواری میں استعمال ہونے والے پتھر بھی ایک مقام پر ڈھیر کر دیئے گئے ہیں‘ سکول کے ایک زنگ آلودہ بورڈ کے علاؤہ بس یہی کچھ باقی بچا ہے!

سال دو ہزار پانچ کے زلزلے سے قبل اِس سکول میں 280 بچے پڑھتے تھے جن کی موجودہ تعداد 180کے لگ بھگ ہے اور آٹھ برس سے سکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت سے آشنا والدین اپنے بچوں کو کھلے آسمان تلے بیٹھ کر علم حاصل کرتا دیکھتے ہیں‘ تو اُن پر اخبارات میں شائع ہونے والے قائدین کے بلندبانگ دعوؤں کی حقیقت کھل جاتی ہے! یقیناًاگر اِس سرکاری سکول کے اساتذہ کو ماہانہ تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے نہ مل رہی ہوتیں تو وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جا چکے ہوتے۔ جہاں ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کا اسیر ہے‘ وہاں اجتماعی مفاد کی بات کرنے والوں کو لوگ تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!

بالائی بیرن گلی کے رہنے والوں کی اکثریت کے لئے پریشانیوں کی کمی نہیں‘ یہاں خواتین زراعت و مال مویشیوں کی دیکھ بھال کر ایک ایسی معیشت میں فعال کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے‘ جس میں سینکڑوں فرلانگ دور سے پینے کا پانی سر پر اٹھا کر اونچی نیچی راہوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ’بنج گلی‘ کے بناء عمارت پرائمری سکول کا دُکھ ہر دل محسوس کر رہا ہو بلکہ اِس سلسلے میں تشویش کا اظہار نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اُور چند سفید ریش بزرگوں کی التجاؤں اور دعاؤں کا حصہ ہے‘ جو زلزلے کے بعد تعمیر نو کے ادارے ’ایرا‘ اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے انصاف کے طالب و متمنی ہیں۔ بیرن گلی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 18 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے48‘ کا حصہ ہے اُور یہاں سے منتخب ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین صرف قانون ساز ایوان ہی کا حصہ نہیں بلکہ بالترتیب قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اور صوبائی اسمبلی میں علاقے کے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کا قلمدان رکھتے ہیں لیکن اُن کی توجہ اپنے اپنے وسیع و عریض انتخابی حلقے کی اِس ایک جنت النظیر وادی میں رہنے والوں کی جانب مبذول نہیں۔

گورنمنٹ پرائمری سکول‘ بنج (بیرن گلی بالائی) کی عمارت تعمیر ہونی چاہئے‘ بلکہ جلد از جلد تعمیر ہونی چاہئے کیونکہ محض عمارت نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں بچے تعلیم کی بجائے یا تو اپنا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں یا پھر اُنہیں دشوار گزار راستوں پر مال برداری کے لئے گدھے ہانکنے کے کام کاج پر لگا دیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں زیرتعلیم بچے بچیاں بھی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے یک سوئی کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں سکتے۔ اگر بارش ہو جائے یا سرد و گرم موسم کی شدت برداشت نہ ہو‘ تو بچوں کو قریبی مسجد میں عارضی چھت فراہم کی جاتی ہے‘ جو مستقل یا مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ خوش آئند ہے کہ گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد بننے والی خیبرپختونخوا حکومت صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کا اعلان کئے ہوئے ہے‘ جس میں سہولیات سے محروم تعلیمی اِداروں کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے سے لیکر اساتذہ کی کمی دور کرنے کے لئے بھی اقدامات شامل ہیں لیکن نجانے اِس کوتاہی کا کیا سبب ہے کہ ’بنج گلی‘ کا پرائمری سکول فیصلہ سازوں کی نظروں سے اُوجھل ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک‘ رکن صوبائی اسمبلی سردار ادریس‘ رکن قومی اسمبلی مرتضیٰجاوید عباسی اور بالخصوص صوبائی وزیر برائے تعلیم محمد عاطف (خان) سے اپیل ہے کہ وہ گورنمنٹ پرائمری ’بنج گلی‘ کی عمارت تعمیر کرنے کا باقی ماندہ کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرائیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیرتعلیم کے پاس اضافی قلمدان ’بجلی و توانائی کے پیداواری امکانات کی ترقی کا بھی ہے۔

 ’بیرن گلی‘ کے علاقے میں ایسے کئی قدرتی چشمے اور برساتی نالے ہیں جہاں سارا سال پانی بہتا رہتا ہے اور یہاں چھوٹے پیمانے پر آبی ذخائر‘ پن بجلی کے منصوبے اُور ماہی پروری کی سرکاری سرپرستی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اہل علاقہ کو نہ صرف روزگار کے بہتر و زیادہ مواقع میسر آئیں گے بلکہ شاہراہوں کی حالت بہتر بنانے سے یہ خطہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی نقشے پر بطور ایک ’نئی کشش‘ اُبھر کر سامنے آئے گا۔ ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے پسماندہ ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد غربت و افلاس کا شکار ہیں اور اگر اُن سے تعلیم جیسی اُمید بھی چھین گئی تو اُن کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ ہمیں سیاسی سوچ اور اس کے تابع عمل کی اصلاح کرنا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں تقسیم کا منفی استعمال نہ کیا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ کون سی سیاسی جماعت کہاں سے کامیابی ہوئی بلکہ یہ دیکھا جائے کہ برسرزمین ضروریات کیا ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر انتخابی علاقوں کو تقسیم سیاسی جماعتوں کے شایان شان نہیں۔ برسرزمین حقائق اور ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اگر تعلیم وصحت کے شعبے ترجیح قرار دیئے جا چکے ہیں تو اُن دور دراز علاقوں میں بھی انقلابی سوچ کے ثمرات (بطور عملی اقدامات) نظر آنے چاہیءں‘ جو دانستہ نظروں سے اُوجھل ہیں۔ بیرن گلی کے رہنے والوں کو صاف ایندھن‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اُور سڑکوں کی تعمیر ومرمت اُور توسیع کی اشد ضرورت ہے‘ اُمید کی جا سکتی ہے کہ 30 ہزار مربع کلومیٹر پر زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے 24 اکتوبر 2005ء کو قائم ہونے والی ’ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن اٹھارٹی (ایرا)‘ حکام کو سختی سے احکامات جاری کئے جائیں گے کہ وہ کم ازکم ’بنج گلی‘ کے پرائمری سکول کی عمارت کا باقی ماندہ کام مکمل و بلاتاخیر کرنے میں دلچسپی لے۔ اہل علاقہ کے بقول ’’یہ کار خیر ہے‘ جس میں ہرکسی کو اپنے اپنے حصہ کا تعاون ڈالنا چاہئے۔‘‘
Story of Baren Gali, where a school affected by 2005 Earthquake not yet rebuild & restored

No comments:

Post a Comment