ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حفاظتی ضروریات: بشری تقاضے
حفاظتی ضروریات: بشری تقاضے
یہ کہانی صوبائی دارالحکومت پشاور کی ہے جہاں ’جرائم کی شرح‘ پر تشویش کا
اظہار کرنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرون شہر کی
وہ پرپیچ گلیاں اور چوراہے جو کبھی یہاں کی ’ملنسار ثقافتی و سماجی اقدار‘
کا حصہ ہوا کرتی تھی‘ صرف یاداشتوں کی حد تک ہی محفوظ ہو چکی ہے۔ یوں لگتا
ہے ایک ایک کر کے پشاور کی سبھی اَچھائیوں کو نظر لگ گئی ہے! خود پشاور
پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار اِس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ پشاور میں
رونما ہونے والے مختلف جرائم کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ
تین ماہ کے دوران چوری‘ موبائل چھیننے‘ موٹر گاڑیوں کی چوری اور زبردستی
گاڑیاں چھین لینے جیسے جرائم کی تعداد کا موازنہ ماضی سے میل نہیں رکھتا۔
فی الوقت پشاور میں اوسطاً ہر روز 6افراد کو اسلحے کی نوک پر لوٹ لیا جاتا
ہے اور یہ تعداد اُن جرأت مند افراد کی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے
خلاف متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کراتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سرراہ لٹنے والے
پشاوریوں کی اُوسط تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ پولیس تھانوں سے
رجوع کرنے والے ہر شخص کی درخواست پر ’ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر)‘
درج نہیں کی جاتی اور سفید کاغذ پر بیان (روزنامچہ) لکھ کر معاملہ رفع دفع
کر دیا جاتا ہے!
پشاور میں جرائم ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہاں کی ہر گلی کوچے میں اجنبیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ رہائشی و تجارتی علاقوں کی تمیز ختم ہونے کی وجہ سے اُن گلی کوچوں میں بھی آمدروفت رات گئے تک جاری رہتی ہے‘ جن کے نام تک سے ماضی میں بہت کم لوگ واقف ہوا کرتے تھے۔ پشاور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہاں کے گلی کوچے رہائشگاہوں کی طرح ہی ’نجی‘ ہوتے تھے۔ گلی کے داخلی راستے پر کپڑا یا بوری تان دی جاتی‘ جس کے بعد آمدورفت کے حقوق محفوظ ہو جاتے لیکن جب ہر گھر کے نیچے دکان اور مکان کا کچھ حصہ کرائے پر دینے کا رواج عام ہوا‘ تو وہ مثالی پردہ داری اور میل ملاپ باقی نہیں رہا۔ ایک وقت تک جب پشاور کا ہر شخص کسی نہ کسی خانوادے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو جانتا تھا۔ سرراہ سلام دعا‘ خیریت دریافت کرنے اور روائتی مہمان نوازی یعنی قہوہ پینے کی دعوتیں ہر قدم پر ملا کرتی تھیں۔ کیا دن تھے جب اہل پشاور کا معمول ہوا کرتا تھا کہ ملنے والے کو ’تھکا نہ ہوویں‘ کہتے‘ جس کے جواب میں ’خیر ہووی‘ کے جملے پر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا جاتا۔ ہندکو بولنے والوں کی یہ روایت پشتو زبان میں بھی لفظ بہ لفظ ترجمہ ہوئی تاہم پورا دن شہر میں پھرنے کے بعد بھی ’سترے مہ شے‘ اور ’خوار مہ شے‘ کہنے والوں کی تعداد آج اُنگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے!
پشاور میں غیرمعمولی رفتار سے بڑھتے ہوئے ’سٹریٹ کرائمز‘ کی شرح چونکہ ’سنی سنائی بات‘ یا محض پولیس کی کارکردگی پر ’الزام‘ نہیں‘ بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے متاثر اور ممکنہ شکار ہونے والے یکساں خوفزدہ ہیں۔ کئی ایک واقعات میں نماز فجر و عشاء کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس لوٹنے والوں کو بندوق یا چھڑی کی نوک پر لوٹنے والے اگر کچھ نہ ملنے پر ’رحم دلی‘کا مظاہرہ نہ کرتے تو نجانے کتنے ہی بے گناہوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا ہوتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ 1: پشاور میں تعینات پولیس اہلکاروں کی اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہونی چاہئے۔ 2: پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں یعنی برق رفتار موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کرنے کی بجائے پیدل گشتی پولیس کا نظام اور گلی کوچوں کے داخلی و خارجی راستوں کے ہمراہ چوراہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں۔ جب جرائم پیشہ عناصر نے اپنا طریقۂ واردات بدل لیا ہے تو پھر مؤثر پولیسنگ کے لئے بھی مختلف طریقۂ کار سے نگرانی کرنا ہوگی۔ 3: ٹریفک کی روانی پر نظر رکھنے کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں‘ کی تنصیب کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر متبادل راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس لئے داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکے نگرانی کا عمل مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ 4: اُمید ہے کہ مقامی حکومتوں کے ساتھ ’محلہ داری نظام‘ بھی بحال ہو جائے گا‘ جس کی رہنمائی کرکے پولیس حکام گلی کوچوں میں جرائم کی روک تھام کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ بات صرف پشاور کی تنگ و تاریک اور پرپیچ گلی کوچوں میں ہونے والے جرائم (سٹریٹ کرائمز) کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ تہکال‘ یونیورسٹی ٹاؤن‘ حیات آباد اور صدر جیسے علاقوں میں بھی ایسی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں‘ جس میں پیدل یا موٹرسائیکل سوار لوٹ مار کے بعد ایسے رفو چکر ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ حال ہی میں جب ہشتنگری بازار کی ایک مارکیٹ میں 4دکانیں لوٹی گئیں تو تاجروں نے بھرپور احتجاج کیا‘ جس پر پولیس حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ چوری‘ ڈکیتی اور رہزنی جیسی وارداتیں کرنے والے گروہوں کے خلاف مہم شروع کی جائے گی‘ تاہم یہ وعدہ ہنوز پورا نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس حکام اس بات سے متفق ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر ایسے علاقوں میں جا کر وارداتیں کرتے ہیں جہاں اُنہیں کوئی نہیں جانتا اور چونکہ وہ بھی پشاور ہی کے رہائشی ہوتے ہیں اِس لئے باآسانی روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق پشاور کی 92یونین کونسلوں میں سے اکثریت یعنی نصف سے زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں‘ جہاں سے چند منٹ کی مسافت پر پشاور کے مرکزی علاقوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ تاہم اگر کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکیمصروف چوراہوں پر پولیس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے موجودگی ممکن بنا دی جائے تو اندرون شہر رونما ہونے والے ’سٹریٹ کرائمز‘ کے تناسب میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ جہاں تک بات جمرود روڈ اُور رنگ روڈ سمیت جی ٹی روڈ سے ملحقہ علاقوں کی ہے اور نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں تو ایسے تمام علاقوں میں پولیس چوکیوں یا تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ پشاور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق یہاں کی آبادی 70لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پولیس کی کل افرادی قوت دس ہزار سے کم ہے اور اگر اہم شخصیات (وی آئی پیز‘ وی وی آئی پیز) کی حفاظت اور تھانوں میں مستقل تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد منہا کر لی جائے تو دو ہزار سے کم پولیس اہلکاروں کے ساتھ سترلاکھ کی آبادی کو چھوٹے بڑے خطرات سے بچانا عملاً ممکن نہیں۔ پولیس حکام افرادی قوت اور تکنیکی وسائل میں اضافے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ قانون سازی پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کیونکہ چوری‘ رہزنی اور ڈکیتی میں ملوث افراد کو گرفتار کر بھی لیا جائے تو انہیں عدالت سے چند ماہ کی قید یا واجبی سا جرمانہ ہوتا ہے۔ ناکافی شہادتیں اور قانون میں موجود سقم کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر نشان عبرت نہیں بن سکتے۔ جیل خانہ جات میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے سبب پولیس کی اپنی بھی کوشش ہوتی ہے کہ شخصی سیاسی ضمانتوں ہی سے کام چلا لیا جائے!
اہل پشاور کے سروں پر ایک تلوار مستقل لٹک رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اراکین صوبائی اسمبلی سے درخواست ہے کہ ’سٹریٹ کرائمز‘ کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے۔ پشاور کی حفاظت کے لئے پولیس کا الگ دستہ (حفاظتی ادارہ) اور آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت و تکنیکی وسائل میں اضافہ ضروری ہے۔ پولیس حکام چاہتے ہیں کہ اُن کی یہ بات صوبائی حکومت کے گوش گزار کی جائے کہ ’’عسکریت پسندوں‘ کالعدم تنظیموں کے اراکین و سہولت کاروں کے خلاف کاروائیوں کی وجہ سے پولیس کے پاس نہ تو افرادی قوت ہے اور نہ ہی خاطرخواہ وسائل کہ جن پر انحصار کرتے ہوئے بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ لڑی جائے۔‘‘ اِس تمہید کا خلاصہ ہے کہ ’’اگر پشاور کو محفوظ بنانا صوبائی حکومت کی ترجیح ہے تو اس کے لئے آبادی کے تناسب سے پولیس کی ضروریات پورا کرنا ہوں گی۔ حکمرانوں کو اپنی حفاظت کی طرح عام آدمی کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ پولیس سے غیرحقیقی توقعات وابستہ کرنا اُور انہیں احکامات جاری کرنے کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے کیونکہ پولیس اہلکار بھی انسان ہیں‘ جو بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر کیسے موجود ہوسکتے ہیں!؟‘‘
پشاور میں جرائم ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہاں کی ہر گلی کوچے میں اجنبیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ رہائشی و تجارتی علاقوں کی تمیز ختم ہونے کی وجہ سے اُن گلی کوچوں میں بھی آمدروفت رات گئے تک جاری رہتی ہے‘ جن کے نام تک سے ماضی میں بہت کم لوگ واقف ہوا کرتے تھے۔ پشاور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہاں کے گلی کوچے رہائشگاہوں کی طرح ہی ’نجی‘ ہوتے تھے۔ گلی کے داخلی راستے پر کپڑا یا بوری تان دی جاتی‘ جس کے بعد آمدورفت کے حقوق محفوظ ہو جاتے لیکن جب ہر گھر کے نیچے دکان اور مکان کا کچھ حصہ کرائے پر دینے کا رواج عام ہوا‘ تو وہ مثالی پردہ داری اور میل ملاپ باقی نہیں رہا۔ ایک وقت تک جب پشاور کا ہر شخص کسی نہ کسی خانوادے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو جانتا تھا۔ سرراہ سلام دعا‘ خیریت دریافت کرنے اور روائتی مہمان نوازی یعنی قہوہ پینے کی دعوتیں ہر قدم پر ملا کرتی تھیں۔ کیا دن تھے جب اہل پشاور کا معمول ہوا کرتا تھا کہ ملنے والے کو ’تھکا نہ ہوویں‘ کہتے‘ جس کے جواب میں ’خیر ہووی‘ کے جملے پر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا جاتا۔ ہندکو بولنے والوں کی یہ روایت پشتو زبان میں بھی لفظ بہ لفظ ترجمہ ہوئی تاہم پورا دن شہر میں پھرنے کے بعد بھی ’سترے مہ شے‘ اور ’خوار مہ شے‘ کہنے والوں کی تعداد آج اُنگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے!
پشاور میں غیرمعمولی رفتار سے بڑھتے ہوئے ’سٹریٹ کرائمز‘ کی شرح چونکہ ’سنی سنائی بات‘ یا محض پولیس کی کارکردگی پر ’الزام‘ نہیں‘ بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے متاثر اور ممکنہ شکار ہونے والے یکساں خوفزدہ ہیں۔ کئی ایک واقعات میں نماز فجر و عشاء کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس لوٹنے والوں کو بندوق یا چھڑی کی نوک پر لوٹنے والے اگر کچھ نہ ملنے پر ’رحم دلی‘کا مظاہرہ نہ کرتے تو نجانے کتنے ہی بے گناہوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا ہوتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ 1: پشاور میں تعینات پولیس اہلکاروں کی اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہونی چاہئے۔ 2: پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں یعنی برق رفتار موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کرنے کی بجائے پیدل گشتی پولیس کا نظام اور گلی کوچوں کے داخلی و خارجی راستوں کے ہمراہ چوراہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں۔ جب جرائم پیشہ عناصر نے اپنا طریقۂ واردات بدل لیا ہے تو پھر مؤثر پولیسنگ کے لئے بھی مختلف طریقۂ کار سے نگرانی کرنا ہوگی۔ 3: ٹریفک کی روانی پر نظر رکھنے کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں‘ کی تنصیب کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر متبادل راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس لئے داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکے نگرانی کا عمل مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ 4: اُمید ہے کہ مقامی حکومتوں کے ساتھ ’محلہ داری نظام‘ بھی بحال ہو جائے گا‘ جس کی رہنمائی کرکے پولیس حکام گلی کوچوں میں جرائم کی روک تھام کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ بات صرف پشاور کی تنگ و تاریک اور پرپیچ گلی کوچوں میں ہونے والے جرائم (سٹریٹ کرائمز) کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ تہکال‘ یونیورسٹی ٹاؤن‘ حیات آباد اور صدر جیسے علاقوں میں بھی ایسی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں‘ جس میں پیدل یا موٹرسائیکل سوار لوٹ مار کے بعد ایسے رفو چکر ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ حال ہی میں جب ہشتنگری بازار کی ایک مارکیٹ میں 4دکانیں لوٹی گئیں تو تاجروں نے بھرپور احتجاج کیا‘ جس پر پولیس حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ چوری‘ ڈکیتی اور رہزنی جیسی وارداتیں کرنے والے گروہوں کے خلاف مہم شروع کی جائے گی‘ تاہم یہ وعدہ ہنوز پورا نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس حکام اس بات سے متفق ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر ایسے علاقوں میں جا کر وارداتیں کرتے ہیں جہاں اُنہیں کوئی نہیں جانتا اور چونکہ وہ بھی پشاور ہی کے رہائشی ہوتے ہیں اِس لئے باآسانی روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق پشاور کی 92یونین کونسلوں میں سے اکثریت یعنی نصف سے زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں‘ جہاں سے چند منٹ کی مسافت پر پشاور کے مرکزی علاقوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ تاہم اگر کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکیمصروف چوراہوں پر پولیس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے موجودگی ممکن بنا دی جائے تو اندرون شہر رونما ہونے والے ’سٹریٹ کرائمز‘ کے تناسب میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ جہاں تک بات جمرود روڈ اُور رنگ روڈ سمیت جی ٹی روڈ سے ملحقہ علاقوں کی ہے اور نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں تو ایسے تمام علاقوں میں پولیس چوکیوں یا تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ پشاور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق یہاں کی آبادی 70لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پولیس کی کل افرادی قوت دس ہزار سے کم ہے اور اگر اہم شخصیات (وی آئی پیز‘ وی وی آئی پیز) کی حفاظت اور تھانوں میں مستقل تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد منہا کر لی جائے تو دو ہزار سے کم پولیس اہلکاروں کے ساتھ سترلاکھ کی آبادی کو چھوٹے بڑے خطرات سے بچانا عملاً ممکن نہیں۔ پولیس حکام افرادی قوت اور تکنیکی وسائل میں اضافے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ قانون سازی پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کیونکہ چوری‘ رہزنی اور ڈکیتی میں ملوث افراد کو گرفتار کر بھی لیا جائے تو انہیں عدالت سے چند ماہ کی قید یا واجبی سا جرمانہ ہوتا ہے۔ ناکافی شہادتیں اور قانون میں موجود سقم کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر نشان عبرت نہیں بن سکتے۔ جیل خانہ جات میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے سبب پولیس کی اپنی بھی کوشش ہوتی ہے کہ شخصی سیاسی ضمانتوں ہی سے کام چلا لیا جائے!
اہل پشاور کے سروں پر ایک تلوار مستقل لٹک رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اراکین صوبائی اسمبلی سے درخواست ہے کہ ’سٹریٹ کرائمز‘ کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے۔ پشاور کی حفاظت کے لئے پولیس کا الگ دستہ (حفاظتی ادارہ) اور آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت و تکنیکی وسائل میں اضافہ ضروری ہے۔ پولیس حکام چاہتے ہیں کہ اُن کی یہ بات صوبائی حکومت کے گوش گزار کی جائے کہ ’’عسکریت پسندوں‘ کالعدم تنظیموں کے اراکین و سہولت کاروں کے خلاف کاروائیوں کی وجہ سے پولیس کے پاس نہ تو افرادی قوت ہے اور نہ ہی خاطرخواہ وسائل کہ جن پر انحصار کرتے ہوئے بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ لڑی جائے۔‘‘ اِس تمہید کا خلاصہ ہے کہ ’’اگر پشاور کو محفوظ بنانا صوبائی حکومت کی ترجیح ہے تو اس کے لئے آبادی کے تناسب سے پولیس کی ضروریات پورا کرنا ہوں گی۔ حکمرانوں کو اپنی حفاظت کی طرح عام آدمی کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ پولیس سے غیرحقیقی توقعات وابستہ کرنا اُور انہیں احکامات جاری کرنے کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے کیونکہ پولیس اہلکار بھی انسان ہیں‘ جو بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر کیسے موجود ہوسکتے ہیں!؟‘‘
No comments:
Post a Comment