Friday, August 21, 2015

Aug2015: Thniking about myself

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فکرعاقبت
نماز جنازہ کے لئے صف بندی جاری تھی۔ بلدیہ کی جانب سے چونا بچھا کر صفوں کے نشانات لگا دیئے گئے تھے‘ جس کی وجہ سے ہر طرف سے اُمنڈ آنے والے ہجوم کو میت کی آمد سے قبل ہی قبلے کا رُخ اور متعلقہ مقام کی نشاندہی ہو چکی تھی۔ صفائی کا بہترین انتظام بھی اِس بات کی گواہی تھا کہ مرنے والے سے زیادہ اس کے جنازے کے شرکاء زیادہ اہم تھے۔ کاش اِس قسم کے انتظامات اور میت کی تعظیم کرتے ہوئے اسے الوداع کہنا ہر خاص و عام کے لئے ایک جیسا ہوتا۔ نماز جنازہ میں ’بطور ثواب‘ شرکت کا نظریہ بھی ’وی آئی پیز (اہم شخصیات)‘ کے ہاں مختلف نظر آیا۔ اگرچہ آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز اَدا کرنے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے لیکن یہاں سب کی کوشش تھی کہ وہ پہلی صف میں عین امام کے پیچھے کھڑا ہو‘ تاکہ ذرائع ابلاغ میں اُن کی تصاویر براہ راست نشر اور بعدازاں شائع ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ میت کی آمد سے قبل ہی کئی لوگ صف اوّل پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ساؤنڈ سسٹم بھی نصب ہو چکا تھا‘ تاکہ تکبیرات سننے والوں کو مشکل پیش نہ آئے اور پھر نماز کی ادائیگی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا ہی تھا کہ میت کا آخری دیدار (چہرہ دیکھنے) کے لئے ایسی دھکم پیل ہوئی کہ الاماں الحفیظ۔ صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں۔ چند لمحے قبل صف بہ صف کھڑے ہو کر نظم وضبط کا مظاہرہ کرنے والے اچانک بھپری ہوئی موجوں کی طرح ایک دوسرے کو تہہ و بالا کر بیٹھے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش میں اس بات سے بے نیاز تھا کہ وہ کتنوں کی دل آزاری کر رہا ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ کوئی ایسی سعادت ہو‘ جس سے محرومی کی صورت عاقبت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ میت ایک لکڑی کے بیش قیمت صندوق میں کیل لگا کر بند کر دی گئی تھی اور چہرہ ایک چوکور کھڑکی سے دیکھا جاسکتا تھا جس پر شیشہ نصب تھا اور منعکس ہونے والی روشنی کے سبب باوجود کوشش بھی اطراف سے چہرہ نظر آنا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ بہرکیف کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کسی شخص نے بلند آواز میں پکارا کہ اپنی جیبوں کا بھی خیال رکھیں۔

 کئی منٹ تک دھکم پیل کا سلسلہ جاری رہا۔ پہلی صف میں نماز جنازہ کی ادائیگی‘ آخری دیدار کرنے کی سعادت اور میت کے لواحقین (جو اِس صورت میں خیبرپختونخوا کے ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز ہیں اُور جن کی مالی حیثیت بھی اپنے پورے خاندان میں نمایاں تھی) سے ’رضا خدا کی‘ کہنے والوں کو ’أذن عام‘ کا نعرہ سننے کو ملتا یعنی وہ اگر تعزیت کے بعد اِس مقام سے واپس جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو قبرستان میں تدفین کے مراحل میں بھی شریک ہو کر ’اضافی ثواب‘ کمانے سے زیادہ صاحب کی نظروں میں مقام پا سکتے ہیں!

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد مغفرت کی ایک طویل دعا اور امام صاحب کا خطاب قبر کے عذاب سے آخرت کے حساب و کتاب تک کے موضوعات کا احاطہ تھا۔ کاش وہ حسب حال یہ تلقین بھی کرتے کہ جنازے میں شریک زندہ لوگوں کو اپنی آئندہ زندگی بسر کرنے میں کتنی احتیاط اور شرعی تقاضوں کا پابند ہونا پڑے گا۔ حرام وحلال کی تمیز اور اپنی زندگیاں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی اہمیت اُور ضرورت بیان کی جاتی تو گداز دل اُس سفر کے لئے زاد راہ جمع کرنے کے بارے سنجیدگی سے سوچتے جو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایسے اچانک ممکنہ درپیش آنے والے سفر کے لئے خود کو ہردم تیار رکھیں۔ دُوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔ سفارش کو اِہلیت پر ترجیح نہ دیں۔

سرکاری وسائل کا بیجا استعمال نہ کریں۔ اَسراف سے بچیں۔ کم مالی وسائل رکھنے والے معاشرے کے محروم طبقات کا سہارا بنیں اُور سب سے بڑھ کر اپنے قول و فعل سے عملاً ثابت کریں کہ ہم اُس حقیقی فلاح و سلامتی کے نظام سے جڑے ہیں‘ جس میں ہماری زبان اور ہاتھ سے دوسروں کی عزت‘ آبرو اُور جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اِسلام سلامتی ہے تو ہر کلمۂ گو کو سراپا سلامتی بن کر دکھانا ہوگا۔ اُس کے ہاتھ‘ ذات یا سوچ (فیصلوں) سے اِنسان تو کیا‘ حیوانات‘ نباتات اُور ماحولیات کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ صفائی کا سب سے زیادہ خیال اسلام کے ماننے والوں کو ہونا چاہئے کہ یہ ’نصف ایمان‘ ہے لیکن گندگی سے کراہیت نہ ہوتی اور اگر تعفن کو حواص خمسہ کی طاقت سے سونگھ (پہچان) نہ لیا جاتا۔ الغرض کسی ایک نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے ہماری زندگی میں کیا تبدیلی آتی ہے‘ اپنی عاقبت و آخرت کے بارے میں ہمارے تصورات کتنے واضح ہوتے ہیں اُور ہم اپنے آپ سے جو عہد کرتے ہیں‘ اس پر کاربند رہنا کتنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی اُور دوسروں کی اصلاح کے لئے زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب ملنے کے یوں تو پانچ وقت کی نماز بھی کافی ہے لیکن وقت کی کمی کے بہانے نے غفلت کو حاوی کر رکھا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ نفسانی خواہشات نے ہمیں پچھاڑ رکھا ہے‘ ہم نے اپنے آپ سے ہار مان لی ہے اور یہی وہ شکست ہے جس سے دوچار ہماری ’منتشر ذات‘ اُس ظہور کی منتظر ہے‘ جو پستی کو زوال بخشے گی۔ ’’پھر گڈریوں کو لعل دے۔ جاں پتھروں میں ڈال دے۔ حاوی ہوں مستقبل پہ ہم ماضی سا ہم کو حال دے۔ دعویٰ ہے تیری چاہ کا‘ اِس اُمت گمراہ کا۔ تیرے سوا کوئی نہیں یا رحمت للعالمین (مظفر وارثی)‘‘

No comments:

Post a Comment