Saturday, August 22, 2015

Aug2015: REFRESHING PEMRA Code of Conduct

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ضابطۂ اخلاق
وفاقی حکومت کی جانب سے ’الیکٹرانک میڈیا (ٹیلی ویژن چینلوں)‘ کے لئے ضابطۂ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) جاری کیا گیا ہے‘ جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ نجی اِداروں کو ٹیلی ویژن اسٹیشنوں‘ اَیف اَیم ریڈیو چینلز (نشریاتی اداروں) اُور کیبل آپریٹروں کو اِجازت نامے (لائسینس) جاری کرنے سے قبل تحریری ’قواعد وضوابط‘ پر دستخط لئے جاتے ہیں لیکن یہ تسلی قابل تشفی نہیں کیونکہ قواعد تو موجود ہیں لیکن اُن پر سرکاری ادارے عمل درآمد کرانے کا حوصلہ نہیں رکھتے جس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ’سیاسی مداخلت‘ ہے۔ جب تک سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اور سیاسی فیصلہ سازوں کے اپنے ذاتی و کاروباری مفادات الگ الگ نہیں ہو جاتے‘ اُس وقت تک صورتحال بہتر نہیں بنائی جا سکے گی۔

سردست صورتحال یہ ہے کہ نیوز اور تفریحی ٹیلی ویژن چینلوں جو مواد نشر کرتے ہیں‘ اس میں غیرملکی پروگراموں کا تناسب مقررہ حد سے زیادہ ہے اور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) قواعد کی رو سے یہ ایک خلاف ورزی ہے جس کے مرتکب چینلوں کے لائسینس تک منسوخ ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح فی گھنٹہ اشتہارات نشر کرنے کے زیادہ سے زیادہ اوقات بھی مقرر ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور جرائم کو ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کرنے کی ’بھیڑ چال‘ اپنی جگہ قابل مذمت ہے جسے نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت اگرچہ رات گیارہ بجے کے بعد نشر کیا جائے گا لیکن چونکہ ایسے پروگراموں کی نشر مکرر بھی ہوتی ہے اور چینلز انہیں انٹرنیٹ پر ڈال دیتے ہیں‘ جہاں اِنہیں کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے اُور عمر کی جس حد کی نظروں سے اِسے دور رکھنا مقصود ہے وہ کئی ذرائع سے اس خطرناک مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ عجب ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں نے ’واٹس ایپ‘ کے گروپس بنا رکھے ہیں جہاں پروگراموں بشمول بلیٹنز کی لمحہ بہ لمحہ تشہیر کی جاتی ہے۔ پیمرا حکام کو سمجھنا ہوگا کہ صرف سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات میں پروگراموں کے اوقات کار ہی اہم نہیں بلکہ ان کی تیاری میں جس احتیاط اور اخلاقی قدروں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ ہر شے پر مقدم ہونی چاہئے۔ عالمی سطح پر پائے جانے والے ’میڈیا کے رجحانات‘ کو من و عن پیچھا کرنا یا اشتہاری اداروں کی ضروریات کے مطابق مورننگ شوز سے لیکر نیوز بلٹین تک ترتیب دینے والے اِداروں کا ’کڑا احتساب‘ضروری ہے۔

کیا ہم یہ حقیقت فراموش کر سکتے ہیں کہ ’’پاکستان میں حکمران جمہوری ہوں یا آمر وہ خود کو احتساب سے بالا تر توسمجھتے ہی ہیں ساتھ ہی اپنے اوپر تنقید بھی برداشت نہیں کرتے۔‘‘ کوئی بھی ادارہ اسلامی اقدار‘ نظریہ پاکستان اور آئین کے خلاف پروگرام نشر نہیں کر سکتا اور اس معاملے میں اسے اپنی ذمہ داری کا بخوبی ادراک ہے۔ اگر کوئی میڈیا گروپ اس کے باوجود بھی بے لگام ہوتا ہے تو اس کا احتساب حکومت کی طرف سے بنائے گئے یکطرفہ ضابطۂ اخلاق سے نہیں آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ اکثر میڈیا گروپس اسلامی اقدار‘ نظریۂ پاکستان اُور آئین کی پاسداری کرتے ہیں۔ حکومت اگر ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ جاری کرنا چاہتی ہے تو میڈیا گروپس کو اعتماد میں لے تاکہ کل کسی کے خلاف کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگے تو اسے انتقامی کاروائی قرار دے کر واویلا نہ کیا جائے۔ ٹریفک سے لیکر ٹیلی ویژن چینلوں تک قواعد پر عمل درآمد کرانے اُس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک فیصلہ ساز اپنی اِصلاح نہیں کر لیتے کہ آئین و قواعد کا اُن پر بھی یکساں بلکہ ترجیحاً اطلاق ہوتا ہے۔

پیمرا کو ایک نظر بھارت کے ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ سروسیز پر بھی رکھنا ہوگی جو پاکستانی مارکیٹ سے ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں۔ ایک وقت تک پاکستان کے اپنے ٹیلی فون ادارے کو موبائل فون سروس شروع کرنے کی اجازت نہیں تھی اور غیرملکی اداروں کو پاکستان میں پاؤں جمانے اور منافع کمانے کے لئے ہرممکنہ سہولیات فراہم کی گئیں۔ جس سے فائدہ اُٹھانے والے بھی سیاست دان ہی تھے۔ آج بالکل ویسی ہی صورتحال ’ڈی ٹی ایچ‘ کے حوالے سے درپیش ہے کہ اس شعبے میں نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اگرچہ اس کا لائسینس بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ نشریاتی ٹیکنالوجی وائرلیس ہو چکی ہے لیکن ہمارے ہاں آج بھی کیبل آپریٹر ’اینالاگ (analog)‘ نشریاتی وسائل کا استعمال کر رہے ہیں جس میں نشر کئے جانے والے چینلوں کی تعداد محدود بھی ہوتی ہے اور اُن کا معیار بھی تسلی بخش نہیں ہوتا۔ پیمرا حکام کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ سال 2015ء کے آخر تک کیبل آپریٹروں کو ڈیجیٹل آلات نصب کرنے کی جو ڈیڈلائن دی گئی ہے‘ اُس پر عمل درآمد کا مرحلہ وار جائزہ ابھی سے لیا جائے اور اِس ڈیڈ لائن کی مدت میں کسی بھی صورت اور کسی بھی دباؤ کے تحت توسیع نہ کی جائے۔

ٹیلی ویژن چینلز ہوں یا کیبل آپریٹرز‘ ناظرین و سامعین اُور صارفین کے حقوق کا سب سے کم خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی کیبل آپریٹر کے بارے میں شکایت ہو بھی تو اس سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ پیمرا کے صوبائی دفاتر اور سیاسی بنیادوں پر اراکین کا چناؤ ایک ایسی روایت ہے جس کا خاتمہ کئے بناء قواعد و ضوابط اور کسی بھی قسم کے ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد عملاً ممکن نہیں ہو پائے گا۔
Govt chalked out new CODE OF CONDUCT for electronic media but it would not be fruitful as implementation is need rather more rules and regulations

No comments:

Post a Comment